میراثی کا بیٹا پنڈ کا چوہدری نہیں بنے گا۔

Published on August 2, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 784)      No Comments

پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا صرف خبر دینے کی حد تک محدود ہیں لیکن جو طوفان سوشل میڈیا پر برپا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے پنڈ میں عورتیں باقاعدہ دوپٹے کمر پر کس کر لڑا کر تی تھیں۔سوشل میڈیا پر ذرا جدید ورژن آگیا ہے لیکن زبان وہی استعمال کی جاتی ہے انداز وہی تیور وہی ہیں۔پیدائش سے لے کر عمرکا ایک بڑا حصہ دیہات میں گزارا ہے اس لیے وہاں کی رسم رواج گلیوں محلوں بازاروں اور چائے والے ہوٹلز کا فنون لطیفہ ٹائپ تبصرہ اور خیالات کا بخوبی علم ہے۔دیہات کے بارے عموماًخیال یہ کیا جاتا ہے وہاں کے لوگ سادہ ملنسار مخلص ہوتے ہیں محلے سے لے کر پورے علاقہ کی ایک دوسرے خبر گیری رکھتے ہیںیہ ساری باتیں درست ہونے کے باوجود کچھ انتہائی بھیانک پہلو بھی ہیں جنہیں شاید شہروں کے باسی نہیں جانتے ۔میں نے جو دیہاتوں میں سب سے بڑی بیماری دیکھی ہے وہ ہے تعصب۔اور اگر میرے دیہات سے تعلق رکھنے والے دوست میری پوری تحریر کو پڑھ لیں گے تو وہ بھی اس بیماری کو محسوس کریں گے لیکن اگر سوئی یہاں ہی اٹک گئی “کمیاں دے چھوہر کول چار پیسے آگئے تے اپنے آپ نوں علامہ سمجھدا اے”(غریبوں اور نیچ ذات کے لوگوں کے پاس کچھ دولت اکھٹی ہوگئی ہے تو اپنے آپ کو عالم سمجھنے لگ گیا ہے)پھر یہ سوئی نکالنی بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔دیہات کے بھیانک پہلو کسی اور کالم میں ضرور بیان کروں گا لیکن یہاں آج موضوع کے مطابق دیہات میں عموماً گردش کرنے والا لطیفہ پر اکتفا کرنا بہتر ہوگا ۔دیہاتوں کے مفکرین مدبرین تجزیہ نگار عموماًیہ لطیفہ آپ کو سنائیں گے اور یہ اس صورت میں سنائیں گے جب کوئی نیچ ذات کا بندہ پڑھی لکھی گفتگو کر رہا ہوگا اپنے علم اور لاجکس کی بنیاد پر مسائل اور ترقی کی بات کر رہا ہوگا ۔معذرت کے ساتھ یہاں ایک اور بات کلیئر کر دوں اسلام میں نیچ ذات کا تصور نہیں ہے لیکن ہمارے اوپر تو ہندؤں انگریزوں کی دماغی آبیاری ہوئی ہوئی ہے اس لیے یہاں یہ لفظ لکھنا ضروری بن رہا تھا جی تو لطیفہ کی طرف آتے ہیں ۔ کسی گاؤں کا چوہدری مارا گیا تو پورے علاقہ میں خبر پھیل گئی تو میراثی کے بیٹے نے اپنے باپ سے سوال کیا اب پنڈ کا چوہدری کون بنے گا اس نے کہا مرنے والے کا بیٹا تو بچے نے کہا اگر وہ مرگیا تو پھر توباپ نے کہا اس کا بیٹا اس نے کہا اگر اس کا بیٹا بھی مرگیا تو اس نے کہا اس کا بیٹا تو بیٹے نے جھنجھلا کے پوچھا ابا اگر اس کے گھر والے سارے مر گئے تو اس وقت تک باپ بھی بچے کی طبیعت بھانپ چکا تھا تو باپ نے جواباً کہا بیٹا میراثی کا بیٹا چوہدری نہیں بنے گا انہیں کے خاندان سے چاچے بابے مامے تائے کا ہی چوہدری بنے گا۔اس لطیفہ سے اس بیچارے پڑھے لکھے کا خوب مذاق بنایا جاتا ہے اور پھر یہ بات ہر جگہ گردش کررہی ہوتی ہے وہ فلاں کا بیٹا وہاں ہوٹل پہ بیٹھ کے بڑی باتیں سنا رہا تھا چاچا نتھو نے یہ بات کر کے اس کی بولتی بند کر دی۔۔اب یہ لطیفہ بذریعہ سوشل میڈیا پنڈ سے ہجرت کر کے شہر میں بھی آگیا ہے سوشل میڈیا پر اس لطیفہ کو خوب پذیرائی مل رہی ہے۔
لیکن تھوڑے لمحہ کے لیے اپنے آپ کے بارے سوچیں اپنے بچوں کے بارے سوچیں اپنے آنے والے کل کے بارے سوچیں بحثیت قوم بن کر سوچیں کم از کم ہم نام کے مسلمان تو ہیں ہی ہم ریاست مدینہ کو ہی پڑھ لیں اسی کو سوچ لیں ہم انگریزوں کی مثالیں نہیں دیتے حضرت عمرؓ کو پڑھ لیں ہم نہیں کہتے مغرب بہت ترقی کر گیا عمر بن عبدالعزیز کو پڑھ لیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے یہاں بھی ہمار ا دہرا معیار ہے ۔لطیفہ سنانے والی بھی کمی سننے والا بھی کمی اور جس کے لیے سنایا جارہا ہے وہ بھی کمی اور ہم اس لطیفہ پر سب خوش بھی ہیں ہمیں کب عقل آئے گی یہ کمی اور چوہدری کی لائین انگریز ہی کھینچ کر گیا تھا کہ کمی کے بیٹے کو سرکاری عہدہ نہیں دینا کمی کے بیٹے کو کمی ہی بنانا ہے ۔ہم انگریزوں سے نفرت کر تے ہیں لیکن انہی کی باتوں پر عمل کر تے ہیں اسی طرح ہم نے اپنے مذہب میں بھی دہرے معیار رکھے ہوئے ہیں جب نکاح ہونے لگے تو شرعی حق مہر کا شور و غوغا اور جب جہیز کی باری آئے تو ہر ایک کے چوائس کی اپنی لسٹ نکال کے بیٹھ جاتے ہیں پھر ہمیں یا د نہیں آتا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کیسے بیٹیاں بیاہی۔ ہم اپنی بیٹیوں کو دوسرے کے گھروں میں ملکہ کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنے گھر میں آنے والیوں کو نوکرانی کے روپ میں۔ہم ہیر رانجھا کی فلم دیکھ کر قیدو کو گالیاں دیتے ہیں اور کوئی گھر سے ہیر بن جائے تو پھر خود قیدو بن جاتے ہیں بالکل اسی طرح ہی ہماری عقلوں پہ پردہ ڈالا ہوا ہے کہ چوہدری بننے کے لیے برہمن خاندان سے فرد کا سامنے آنا ضروری ہے میرے دوست جو چوہدری ہیں ان سے معذرت کے ساتھ کہ ہمارے معاشرے میں ہندؤں کی طرح ہی آج کے چوہدری کہلانے والے برہمن جیسی عزت رکھتے ہیں اور مجھ جیسے کمی آج بھی شودر سمجھے جاتے ہیں۔چلیں یہ تو معاشرتی بیماریاں کسی نہ کسی صورت کہیں نہ کہیں چل رہی ہوتی علم کی کمی شعور کی کمی ہوسکتی ہے لیکن وہ جو منبر کے متولی اور اسلامی فلاحی ریاست کے دعوے دار ہیں وہ تو عقل سے کام لیں یہاں پر کئی مولانا منبر پر ہوں گے تو چو رکی سزا ہاتھ کاٹنے کی حدیثیں سنائیں گے اور جب آقاؤں کے پہلو میں ہوں گے تو آئین اور شریعت کے تناظر میں سب کچھ حلال قرارد دے دیں گے۔میرا خیال تھا پڑھے لکھے اور خود کو عالم کہنے والے ہی باشعو ر ہوتے ہیں لیکن ان خیالات کے نفی میں نے اس وقت کی جب بڑے بڑے منبر و محراب کے وارث چوروں کی پشت پناہی کر تے نظر آئے اور چوری چھپانے کے لیے خود ساختہ بیان دینے سے بعض نہیں آرہے۔اپنا مطلب ہوگا تو خاتون سے ہاتھ ملانا بھی جائز اور جب کسی اور کو دیکھا جہنمی ہونے کے فتوے جڑ دیئے۔
ہمیں پارٹی بازی ،تعصب ،رنگ ، نسل زبان کے فرق کے تعصب سے باہر نکلنا ہوگا ہمیں ایک قوم بننا چاہیئے پارٹی ، پارٹی کھیل کر ہم اپنے حقوق پر سودے بازی کر جاتے ہیں۔جو قوم یہ سوچ کے بیٹھی ہے کہ پنڈ کا چوہدری تو اس کے خاندان سے ہی بنے گا اس سے بڑی جاہلیت اور ناامیدی کی کون سی صورت ہوسکتی ہے ۔آج ریڑھی بان پھل فروش جوتے پالش کرنے والے کے بچے پڑھائی میں نام پیدا کر رہے ہیں لیکن ہم چوہدری کے بیٹے کو ہی پنڈ کا چوہدری کابنانے کا سوچ رہے ہیں اور چوہدری بننے کے لیے ہمارے ہاں معیار کیا ہے جو سب سے بڑا غنڈہ ہو جس کے پروٹوکول میں دائیں بائیں بندوقچی ہوں جو ہر بات کے ساتھ گالی دے۔جو آئے تو سناٹا چھا جائے جو بولے تو ہم اپنا مذہب مسلک تک تبدیل کر لیں یہ میری قوم کا المیہ ہے کہ ان چوہدریوں کا منتخب کر کے اسمبلیوں میں ہم پہنچاتے ہیں اور وہ کچھ نہ پڑھ کر بھی وزیر تعلیم بن جاتے ہیں اور کمی کے بیٹے پڑھ کر بھی نوکر ی کے دربدر پھرتے ہیں جناب والا ہمارے ملک کا چوہدری تھا نواز شریف اور اٹھارہ کروڑ عوام تھی کمی اسی لیے تو شہباز شریف ہی بنے گا نیا چوہدری اور کمی کے بیٹے وزیر اطلاعات و نشریات بن کر مراثیت کو زندہ رکھنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر تے رہے ہیں گے اور جب وقت کے عالم ہمیں وہی لطیفہ سناتے رہیں گے یہ چوہدری یوں ہم پر مسلط رہیں گے۔اسی لطیفہ کا ہی کمال ہے کہ 14بندوں کا قاتل ہم وزیر اعظم چن رہے ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes