پردیسی کی عید 

Published on August 3, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 603)      No Comments

 چوہدری محمد بشیر شاد ایتھنز یونان 
اہل وطن اور تارکین وطن کی وابستگی قربتوں کی بجائے دوریوں کی داستانوں پر مشتمل ہے۔اپنے ماحول،رسم و رواج، خوشی اور غمی کے تمام تاثرات دوریوں میں دم توڑتے نظر آتے ہیں۔زرمبادلہ کمانے والے پردیسی شب وروز کی انتھک محنت،قبل ا زوقت چہروں کی شگفتگی کو زائل کر کے جھریوں سے ملبوس چہرے پردیس کی صعوبتیں سہتے سہتے لا غر اجسام سے جب وطن واپس لوٹتے ہیں تو اْن کی حالت پہ رحم آتا ہے۔دیارِ غیر میں مشینی گھنٹوں کا مسلسل وار صحت کی تباہی کا موجب بنتا ہے۔گھروالوں کے اخراجات پورے کرتے کرتے پردیسی اپنی خوراک،لباس،اور کبھی کبھار بنیادی ضروریات زندگی کے لوازمات تک پورے کرنے سے قاصر ررہتا ہے اور اْس پہ اْداسی چھا جاتی ہے۔وہ اپنے والدین،بہن بھائیوں دوست و احباب بیوی بچوں سے بات کرنا چاہتاہے تو اْسے اْن سہولیات سے عاری وطن عزیز کی ٹیکس پالیسی کا سامناکرنا پڑنا ہے۔وہ تو پہلے ہی زرمبادلہ ملک کو روانہ کررہا ہے۔جوکہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کر رہا ہے۔اْسی پر مزید کام پھر اْس پر مزید دباو کہ فون پر بات کر کیاپنے دل کی بات پر بھی مزید پابندی، دورانیہ کم بات کرنے کااور پیسے زیادہ، بیرونِ ملک کام کرنے والوں کے لیے ایک ستم اور جب انہیں کسی وجہ سے دیارِ غیر سے واپس وطن ڈی پورٹ کیا جاتاہے تو امیگریشن عملہ دونوں ہاتھوں سے اْن کی جیب پر دھاوا بول دیتاہے۔دن دھاڑے لوٹ مار ہوتی ہے اور مظلوم کی آواز اس طرح دب جاتی ہے جسیے منوں مٹی تلے مردہ جسم۔ہم پردیسی مردہ جسم ہی توہیں اہل وطن کے حکمرانوں نے پردیسیوں کے لیے کون سی پالیسیاں بنا رکھی ہیں جہاں اْن کو واپسی پر سہارا دیا جا سکے۔کون سے ا سکول کھول رکھے ہیں جہاں پردیسیوں کے بچوں کو تعلیمی زیور پہنایا جا سکے۔کون سے صنعت وحرفت کے مواقع اْسے دیئے جائیں گے۔ وہ خود وطن واپس نہیں آیا اْسے زبردستی وطن واپس بھیجا گیا ہے ایسے پردیسیوں کا جو ملک کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سربسجود ہوجاتے ہیںآنِ واحد اْن کو قیدیوں کے سیل میں پوچھ گچھ کرنے کا مقصد یہی ہے ناں کہ جب تک وہ کماتا رہا سب اْسے سراہتے رہے۔جونہی وہ واپس آیاتو اس کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔ملک کا شہری ہونے کی بنا پر اور دیارِ غیر میں اپنے دورانیے میں زرمبادلہ ملک کو بھیجنے والا خوش آمدید کا منتظر،اْلٹا اپنے مصائب میں پھنس جاتا ہے۔گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اہل خانہ کی نظریں اْسکے سوٹ کیس پر جمی ہوتی ہیں۔جن میں تحائف کی بجائے اْس کے چند ایک کپڑے نکلتے ہیں۔ساری رقم تو وہ گھر والوں کو روانہ کر دیتا تھااور جب کہ پوری دنیا میں معیشت گر چکی ہے۔کام تک نہیں ملتا وہ کون سے تحائف خرید کے لاتا۔بہت سے مسائل کا سامنا ہے وطن میں مہنگائی،بجلی،پانی،اور بنیادی ضروریات کا فقدان سب کنٹرول سے باہر ہے، وہ ان کا سامنا کیسے کرے۔
یونان دیوالیہ ہو چکا ہے یہاں کی حالت اس قدر خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے کہ تارکین وطن تو ایک طرف یہاں کے شہری تک اپنے مستقبل سے پریشان ہیں، بنکوں سے کارڈز پر رقوم ساٹھ یوروز سے اوپر نہیں نکل رہیں۔ پردیسی کیا کرئے جب اسے کام کرنے کی اجرتبروقت نہیں مل سکے گی تو وہ اپنے اہل خانہ کو کیا ارسال کرے گا۔ اپنی رہائش کا کرایہ، بجلی، پانی اور صفائی کے بل کہاں سے ادا کرے گا۔ اپنی پیٹ پوجا کہاں سے کرے گا۔ وطن عزیز میں خوشحال زندگی اسی پردیسی کے سر پر بسر کرنے والوں نے کبھی سوچا ہے کہ دیار غیر میں ایک پردیسی کے شب و روز کیسے بسر ہو رہے ہیں۔ کیا حکومت اس کی صعوبتوں اور مالی پریشانیوں کا کوئی حل نکال سکتی ہے۔ حکومت کو ان پردیسیوں پر کوئی رحم نہیں آتا۔ آج پردیس میں کسی کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے تو اس کی لاش کو وطن عزیز تک پہنچانے کے اخراجات نہیں ہوتے۔ گھر گھر جا کے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں اور لاش ہسپتال کے کسی سرد خانے میں بے یار و مددگار پڑی رہتی ہے۔ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یہاں اس پردیسی کو دفن کیا نہیں جا سکتا۔ اس کسمپرسی کی حالت میں آپ ہی بتایئے کس درپہ دستک دیں۔ مرنے والا ساری زندگی کی کمائی وطن روانہ کر چکا، اس کے پاس سوائے مجبوریوں کے اور ہے ہی کیا، جو وہ اپنی لاش تک کے اخراجات پورے نہ کر سکا۔ جب وہ زندہ لاش تھا تب تک وہ کام کرتا رہا کیا ایک ریاست کا یہ فرض نہیں بنتا کہ اپنے ایک شہری کی لاش کے اخراجات پرداشت کر سکے۔ مرنے والا تو مر جاتا ہے لیکن جو پریشانیاں برادری کو اٹھانی پڑتی ہیں وہ اہل وطن اور حکومت کو نظر کیوں نہیں آتیں۔ حکومتی اداروں کو دیار غیر میں محنت کشوں کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی عملی طور کرنی ہو گی اور اگر آج بھی اس جانب توجہ نہ دی گئی تو بہت ممکن ہے یونان کی طرح بہت سے دوسرے ممالک میں بھی پردیسیوں کی مشکلات بتدریج بڑھتی چلی جائیں گی تو اس وقت زر مبادلہ کی رنگت ماند پڑ جائے گی۔
پاکستان کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر کا یہ بیان کہ حکومت اگر ساتھ دے تو وہ نوے دن کے اندر اندر اتنی وافر مقدار میں بجلی پیدا کر دیں گے کہ وطن عزیز میں اجالا ہو جائے گا۔جب وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنا سکتے ہیں تو ان سے استفادہ کریں۔ جس ملک میں ایٹم بم بنانے کی پوریطاقت ہو وہاں کیا یہ ممکن نہیں کہ بجلی بھی پیدا کی جاسکے۔ ڈیم ویسے کے ویسے علاقائی تعصبات میں اپنی بنیادیں تک کی نشاندہی کھونے تک کی حدود میں پہنچ چکے ہیں۔ آج کے ایٹمی دور میں سرِ فہرست تو آپ آگئے لیکن ملک کے عام شہری کی زندگی دوبھرہوچکی ہے۔ان پر بھی توجہ دیں۔ نئی حکومت نئی نہیں اس سے پہلے بھی انہیں مواقع میسر آچکے ہیں۔اپنے سیاسی دور میں جومشاہدات کر چکے ہیں ان کو بروئے کار رکھتے ہوئے کوئی ایسا کام کرجائیں کہ رہتی دنیا تک آپکی بہتر خدمات کویاد رکھا جائے۔ملک کے غداروں کو تختہ دار پر سرعام پھانسی لگا دی جائے۔اجتماعیت کو درہم برہم کرنے والوں کی بیخ کنی کی جائے۔تعلیمی اداروں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جائیں۔جوان نسل کو بے راہ روی کی بجائے کاموں میں مصروف کرکے ملکی خدمات پر مامور کیاجائے

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题