پانامہ کیس کا غلط انداز میں کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے؛نواز شریف

Published on August 26, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 284)      No Comments


 لاہور(یو این پی) سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وکلاء کے سامنے بارہ سوالات رکھ کر جواب مانگتے ہوئے کہا کہ پانامہ کیس کا غلط انداز میں کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ میں کئی سالوں سے عوام کی بڑی عدالت میں عوام کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، عہدے سے ہٹنے کے باوجود غلط فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے۔ ایوان اقبال لاہور میں مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کا خواب دیکھنے اور ملک آزاد کرانے والے قائد اعظم بھی وکیل تھے، وکلاء کی جدوجہد آمریت کے خاتمے اور انصاف کی حکمرانی کے لئے تھی، آج بھی وکلاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ علامہ اقبال کی فکر اور بانی پاکستان کی جدوجہد کے مطابق جمہوریت کی بقاء کے لئے اپنا کردار ادا کریں، نواز شریف نے کہا کہ پانامہ پیپرز کے بعد میں نے خود کمیشن بنانے کے لئے رضاکارانہ اپیل کی، ہم نے پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی مگر اصل مسئلہ تھا کہ معاملے کو گلیوں اور سڑکوں پر لا کر ایسی فضاء پیدا کی جائے جس سے انارکی پھیلے، انہوں نے کہا کہ ایک فیصلہ 20 اپریل اور دوسرا فیصلہ 28 جولائی کو سامنے آیا، ان فیصلوں کے بارے میں ماہر قانون ہی نہیں عام شہری بھی حیران ہیں، نواز شریف نے وکلاء کے سامنے بارہ سوالات رکھتے ہوئے جواب مانگے کہ ان کا ہاں یا ناں میں جوب دیں۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کبھی ایسا ہوا کہ واٹس ایپ کال کے ذریعے پراسرار طور پر تفتیش کاروں کا چناؤ کیا گیا ہو؟ کیا اس قسم کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی؟ کیا قومی سلامتی اور دہشت گردی کے ہٹ کر معاملات کی خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو تحقیقات سونپی گئیں؟ کیا سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کی کارروائی کی ہمہ وقت نگرانی کی؟ کیا کسی پٹیشنر نے دبئی کمپنی پر نااہلی کی استدعا کی تھی اس کے باوجود مجھے نااہل کر دیا گیا، کیا کبھی مروجہ ملکی قوانین کو نظر انداز کر کے مطلب نکالنے کے لئے ڈکشنری کا سہارا لیا گیا؟ کیا کبھی ستر سالہ تاریخ میں ایسا ہو ا کہ ایک کیس میں چار فیصلے سامنے آئے ہوں؟ کیا وہ جج صاحبان پھر سے حتمی فیصلے والے دن بنچ میں شامل ہوئے جو پہلے فیصلہ دے چکے ہوں؟ کیا ججز کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا اختیار تھا جنہوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھی نہ بحث سنی نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے؟ کیا پوری عدالتی تاریخ میں نیب کی کاروائی بلکہ ٹرائل عدالت کی مانیٹرنگ کے لئے ایسا جج تعینات کیا گیا جس نے پہلے ہی فیصلہ سنایا ہو؟ کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ کا جج آزادانہ کام کر سکتا ہے؟ کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر تحقیقات کی ہدایت کی جا سکتی ہے؟ کیا پانامہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر مبنی ہے؟۔ وکلاء کی جانب سے ان سوالات کا ناں میں جواب آنے پر نواز شریف نے کہا کہ یہ سوالات ہر شہری پوچھ رہا ہے، انہوں نے غلط انداز میں کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے۔ ہم نے فیصلہ پر عملدرآمد میں تاخیر نہیں کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس طرح کے فیصلہ کو تسلیم کیا جائے۔ ہماری تاریخ میں ایسے فیصلے موجود ہیں جن کو عزت و توقیر نہیں دی گئی، وکلاء سمیت عوام نے اس فیصلے پر اپنا ردعمل دے دیا ہے یہ فیصلہ پبلک پراپرٹی بن چکا ہے۔ مستقبل میں یہ فیصلہ بھی اس الماری میں ہو گا جو فیصلے ماضی میں بے توقیر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ منتخب وزرائے اعظم جیلوں میں سڑتے اور پھانسیوں پر چڑھتے رہے لیکن آج تک کسی آمر کو سزا نہیں دی گئی۔ فیصلے سے قانون کی من پسند تشریح کر کے ملکی ترقی کا راستہ بند کر دیا گیا، کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی، میں پوچھتا ہوں کہ ستر برسوں میں لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر کی شہادت اور میری نااہلی تک کسی ایک کی بھی نہیں بنی، انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں، اس فیصلہ کا ملکی ترقی اور خوشحالی پر اثر پڑے گا۔ فیصلے وہ ہوتے ہیں جس میں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس کیس میں قدم قدم پر انصاف ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا، جس نے عدلیہ پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے وکلاء کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں بے پناہ محبت سے نوازا۔ نواز شریف نے کہا کہ وکلاء کی حمایت اور عوام کی پرجوش استقبال نے مجھے حوصلہ دیا۔ نواز شریف نے کہا کہ ہماری عدالتیں آمروں کے اقدامات کو شرف قبولیت بخشتی رہیں اور انہیں من پسند ترامیم کرنے کی کھلی چھٹی دیتی رہیں۔ آئینی حلف سے انحراف کیا اور آمروں کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی توہین کرنے والے کئی سال حکومت کرتے رہے لیکن سیاست دانوں کو گھر بھیجا جاتا رہا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ہمیں ان سوراخوں کو بند کرنا ہو گا جہاں سے سیاستدانوں کو ڈسا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ بنانے اور ملک چلانے کا اختیار عوام کو ہے۔ عوامی حق حاکمیت کی بحالی چاہتا ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے لئے تحریک پاکستان کی طرح اب نئی تحریک کا آغاز کر رہا ہوں، وکلاء، اساتذہ، دانشور، تاجر، سول سوسائٹی اور ملک کے تمام طبقات اس تحریک میں بھرپور شریک ہوں۔ کنونشن میں شریک وکلاء نے نواز شریف کی آمد پر پرجوش نعرے بازی کی اور ان کا پرتپاک استقبال کیا، ملک بھر سے وکلاء کی بڑی تعداد کنونش میں شریک ہوئی، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ، صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، آصف سعید کرمانی، پرویز رشید کے علاوہ ملک بھر کے وکلاء رہنما اور عہدیداران بھی شریک ہوئے۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes