اہلسنت والجماعت کے اندر سازش کی ایک افسوسناک داستان

Published on December 2, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 726)      No Comments

تحریر۔۔۔ شاہدجنجوعہ
تحریک لبیک کا آغاز ہوا اسکے قیام کا مقصد بہت ہی مقدس تھا اور ہے لیکن مذہبی قیادت کے روئے نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی سخت مایوس کیا۔ مذہبی راہنماؤں کو اپنے نام کے ساتھ سابقے لاحقے لگانے کے ساتھ ساتھ قبلہ، شیخ ، امیر المجاہدین، کنزالعلماء اور قائد انقلاب کہلوانے کا بڑا شوق ہے۔ ہماری تاریخ گواہے ہے جب بھی ایسی تحریکیں شروع ہوتی ہیں، کارکن قربانیاں دیتے ہیں، تحریک اپنے جوبن کو پہنچتی ہے اور پھر تحریک کے قائدین اپنی تجوریاں بھر کر کارکنوں کو سر راہ چھوڑ کر گھروں کی راہ پکڑتے ہیں یا ملک سے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا ہے اور بیچارے سادہ عوام ہر بار قیادت کے مفادات کی بھینٹ چڑھے۔ یہاں تو عوام کے جذبات ابھارنے، خون گرمانے، انہیں اشتعال دلانے، تشدد کروانے، ان کو بیوقوف بنانے، ان کو لوٹنے غرض کہ ہر ایک کام کے لئے ان کی دین کے ساتھ غیر معمولی وابستگی اور محبت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی اور راستہ نہ بچے دین کے نام پر لوگوں کو استعمال کر لو یہ عام طریقہ ہے ۔ ریلی کا صدر کون،ہوگا، تِحریک کا چیرمین کون ہوگا ؟ مزہبی جماعتوں کی قیادت تو ان باتوں پر ایک دوسرے کے درپے ہو جاتی ہے۔ مذہبی قیادت میں اتفاق و اتحاد کی بہت ہی کمی واقع ہوئی ہے۔ جزباتیت بہت ہے اسی وجہ سےآج ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر الگ بیٹھا ہے اور یہی خامیاں اس طبقے سے عوام کا اعتماد اٹھنے کا سبب ہیں ۔
اسے آپ میڈیا کی کارستانی کہیں یا ایجنسیوں کا کھیل یہ سب اپنے دل کو تسلی دینے کی بات ہے۔ اہلسنت کے اتحاد میں رکاوٹ کوئی اور نہیں یہ علماء کا اپنا رویہ اور عہدوں کا لالچ ہے۔ آج تحریک لبیک کے دوقائدین علامہ خادم حسین رضوی اور ڈاکٹر اشرف جلال کے مزاج اور طریقہ کار میں بہت فرق ہے جو بڑی حدتک متاز قادری شہید کے چہلم پر کھلکر سامنے آگیا تھا۔ دونوں بزرگ طبعا غیر سیاسی اور سخت مزاج ہیں۔ لیکن خادم رضوی صاحب کے قافلے میں بزرگ راہنماء پیر افضل قادری صاحب اکثر خود پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے اور کمیرے کے سامنے وہ باتیں کہہ جاتے ہیں جو بند کمرے میں بھی آہستہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انکے علاوہ علامہ اویس نورانی صاحب سیاسی لحاظ سے بہت گجے ہوئے ہیں مگر وہ اپنی ذات کے حصار سے کبھی باھر نہیں نکل پائے ۔ معاملات کو سمجھتے ہیں وہ ایک اچھا کردار اداکرسکتے ہیں لیکن علماء میں انکی پزیرائی کم ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انکے خلاف صاحبزادہ زبیر ابوالخیر زبیر کو کھڑا کرکےاسی طرز پر ایک گہری سازش اور بغاوت کروائی گئ جس طرح تین دھائیاں قبل علامہ الشاہ احمد نورانی کیخلاف جنرل ضیاءالحق مرحوم نے خود طاہرالقادری کو کھڑا کیا اور اہلسنت والجماعت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اوراسوقت سے لیکر آجتک اہلسنت والجماعت پاکستان میں سیاسی قوت نہ بن سکی ۔ بعین اسی طرح ممتاز قادری رھائی تحریک کی پگ جب ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب کے سر پر رکھی گئ تو ڈاکٹر اشرف جلالی نے علماء کی موجودگی میں اس شرط پر اسے قبول کیا تھا کہ انہیں سیاست میں آنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن ابھی ممتازقادری کا جنازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ عوام کا جم غفیر دیکھ کر تحریک رہائی ممتازقادری کو ایک سیاسی جماعت میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا گیا جس میں علامہ خادم رضوی اور مفتی حنیف قریشی شامل تھے تاہم مفتی حنیف قریشی جلد اس سے الگ ہوگئ۔ مینارپاکستان میں ایک کانفرنس کے دوران علامہ خادم حسین رضوی کے کچھ معتقدین نے ڈاکٹر اشرف جلالی کیساتھ کچھ غیراخلاقی حرکت کی جن سے انکے درمیان دوریاں بڑھنے کا آغاز ہوا اور اسکا نتیجہ آج ڈاکٹر اشرف جلالی کا سوشل میڈیا پر آجکا پیغام ہے کہ انکا خادم رضوی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈاکٹر اشرف جلالی ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں تاہم ضدی پن ہمارے ہاں علماء کا عوامی مزاج ہے وہ دھرنے کے بعد ایک معاہدہ کرکے باعزت واپس آئے اب پھر دھرنا دیا ہوا ہے ۔انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انکا موقف درست ہے مھر اسکا حل صرف دھرنا ہی نہیں، علمی بحث،مزاکرے اور سیمنیار بھی ہوسکتی ہے ۔اب کی بار دھرنے سے وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بجائے کھو رہے ہیں ۔ انہیں اکیلا بیٹھا دیکھر کر دل کڑہتا پے ۔ یہ اتحاد اہلسنت ایک سنہری خواب ہے مگر شاید یہ کبھی پائہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اسوقت بھی سازشوں کے مراکز وہی ہیں ۔ صاحبزادہ ابوالخیر کو طاہرالقادری اویس نورانی صاحب کیخلاف استعمال کررہے ہیں تاکہ اہسلنت والجماعت نورانی گروپ سیاسی طورپر غیر منظم و غیر مستحکم رہے اور لوگ عوامی تحریک کو بریلوی مکتبہ فکر کی جدید تنظیم کے طور پر قبول کریں جو پتھر پر لکیر ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوپائے گا اسکی وجہ طاہرالقادری کا آمرانہ مزاج، انکی تحریک کے مالی معاملات ، طاہرالقادری کی صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کی پالیسی، فتوے میں مسلمان دشمنوں کا ذکر تک نہ کرنا. موروثیت پرستی اور ہرجگہ اپنے بیٹوں کو پروموٹ کرنے کی دھن ہے۔ انکے کئ کارہائے نمایاں بھی ہیں جنکا انکار مقصود نہیں وہ بلند پایہ مقرر ہیں۔ اچھی انگریزی میں گفتگو کرلیتے ہیں مگر ناموس رسالت پر انکا دہرا موقف اور فتنہ قادیانیت سے یکسر کنارہ کشی کی وجہ سے وہ سیاسی موت مرچکے ۔ انکے مقابلے میں مزیبی مقام پر علامہ ثاقب رضا مصطفائی آگئے ہیں جنکی تقاریر عام فہم اور انسانی زندگی کے عملی پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوتی ہیں ۔ سیاست میں انکی جگہ علامہ خادم حسین رضوی ایک نئ امید بنکر سامنے آئے ہیں اور بلاشبہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدا اور علماء انکی جرات مندانہ کاوشوں اور انداز خطابت ہر ناقد ہونے کے باوجود انکی مداح ہے۔ فیض آباد دھرنے میں ان کے اپنے دونوں بیٹے عوام میں مسلسل بغیر کسی پروٹوکول کے موجود رہے جو کہ طاہرالقادری کے عمل کا بلکل الٹ ہے ۔ خادم رضوی کی تحریک لبیک پاکستان نے حالیہ الیکشن میں اپنوں کی بیوفائی، شدید نکتہ چینی اور میڈیا کے مکمل بائیکاٹ کے باوجود جتنے ووٹ لئے پاکستان

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Premium WordPress Themes