آؤ بیٹیاں جلا دیں

Published on January 14, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 392)      No Comments

تحریر۔۔۔امتیازعلی شاکر
عدل وانصاف صحت مند انسانی معاشرے کیلئے آکسیجن جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ ظلم کامعاشرہ قائم رہ سکتاہے پرناانصافی پرکوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔انصاف کسی ایک گروہ،ملک یاکسی ایک قوم کی ضرورت یاخواہش نہیں بلکہ کائنات کے تمام ملکوں،معاشروں،تہذیبوں،مذہبوں ،فرقوں ،قبلیوں کی بنیادی اورفطری ضرورت ہے۔دنیابھر میں خاص طورپرجمہوری ریاستوں میں محکومین کے جان ومال ،عزت وآبروکاتحفظ اورانصاف فراہم کرنا حکمرانوں کی اولین ذمہ داریاں ہیں۔ایک بہت مشہورکہانی کے مطابق ایک بادشاہ نے دوران سفر بہت سارے گدھوں کو سیدھی قطار میں چلتے دیکھاتوگدھوں کے مالک کمہار کو بلایا اور پوچھا یہ کس طرح سیدھے چلتے ہیں؟ کمہار نے جواب دیایہ ہماراکام کرنے کااصول ہے کہ جو گدھاقطار سے نکل کرخلاف ورزی کرے اسے فوری سزا دی جاتی ہے۔بادشاہ کمہارکی بات سن کربہت متاثرہوااور جرائم کے خاتمے وملکی امن و امان کی بحالی کیلئے کمہار سے مددمانگ لی۔بااصول کمہار نے اس چیلنج کوقبول کرلیا۔بادشاہ کمہارکواپنے ساتھ لے گیا۔دارالحکومت پہنچتے ہی عدالت لگا لی‘ کمہارکے سامنے چوری کا مقدمہ پیش کرکے بادشاہ نے فیصلہ کرنے کوکہا۔کمہارنے اپنے طریقے سے تصدیق کے بعد چوری کے الزام میں گرفتارشخص کومجرم قراردے کرچور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سناکرفوری عملدآمد کاحکم صادرکردیا۔ ہاتھ کاٹنے پرمعمورجلاد نے کمہار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ چور کو وزیراعظم کی سرپرستی حاصل ہے۔ کمہار نے پھر حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ وزیراعظم سمجھا شایدکمہار کو اشارے کی صحیح سمجھ نہیں آئی۔ وہ آگے بڑھا۔ کمہار کے کان میں کہا کہ یہ اپنا آدمی ہے۔ کمہار نے بطور جج فیصلے کا اعلان کیا چور کے ہاتھ کاٹے جائیں اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے بادشاہ نے کمہارعادل کے فیصلوں پرفوری عمل کرایا۔چورکے ہاتھ اورسرپرستی کرنے والے بااختیاروزیراعظم کی زبان کاٹے جانے کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔چور کے ساتھ وزیراعظم کوسزاکاسن کرجرائم پیشہ عناصر پرایسالرزہ طاری ہواکہ سب جرائم چھوڑ کرشرافت کی زندگی گزارنے لگے ۔آگ و خون کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک میں کمہار کے ایک فیصلہ سے ہی مکمل امن قائم ہو گیا۔یہ کہانی سنانے کامقصد یہ ہے کہ چورکے ہاتھ خاٹنے کے ساتھ اس کے سرپرست یاسفارشی کی زبان کاٹ دی جاے تو ریاست جرائم سے پاک ہوسکتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت سو،پچاس گاڑیوں کے قافلے میں مکمل پروٹوکول کے ساتھ سڑکیں بند کرکے سفرپرنکلتے ہیں۔کاش کبھی ہمارے بادشاہ سلامت بھی کہانی والے بادشاہ کی طرح عام لوگوں کودیکھیں اورکہیں سے کوئی بااصول کمہارڈھونڈ نکالیں۔انصاف کے متلاشی عوام خاص طورپربیٹیوں کے والدین یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ آخرزمانہ جاہلیت میں عرب اپنی بیٹیوں کوکیوں زندہ دفن کردیاکرتے تھے؟جب بیٹیوں کی عزتیں اورزندگیاغیرمحفوظ ہوں۔انصاف مانگنے والوں پرگولیاں برسائی جائیں تب کمزورمحکوموں کے پاس شائد یہی حل باقی رہ جاتاہے کہ ذلت ورسوائی سے قبل ہی اپنی بچیوں کوزندہ دفن کردیں۔وہ زمانہ جاہلیت تھایہ دورجدیدہے۔تب رسول اللہ ﷺ کا بیٹیوں پرشفقت فرماناباقی تھااب آپ سرکارﷺ بیٹیوں کے سروں پردست شفقت فرماچکے ہیں۔زمانہ جاہلیت میں عرب غیرمسلم اورعدل وانصاف کے تقاضوں سے بے خبرتھے آج اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلامی ملک ہے اوریہاں آئین اورآئین کی پاسداری کیلئے حکومتی ادارے موجودہیں پھرکیوں انصاف مانگنے والوں پر محافظ ادارے گولیاں چلارہے ہیں؟انصاف ناصرف مسلم بلکہ غیرمسلم معاشرے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔مسلمان خوش قسمت اُمت ہیں جن کے پاس عدل وانصاف فراہم کرنے والاقابل عمل اورآسان ترین ضابطہ حیات موجودہے۔مسلم ریاست اورخودکومسلم بیان کرنے والے حکمرانوں کی موجودگی میں ہماری بیٹیوں کوبے توقیرکیاجاتاہے،ننھی کلیوں کوبے دردی کے ساتھ مسل دیاجاتاہے اوراس پرظلم کی انتہاء دیکھوانصاف مانگنے والوں پرگولیاں چلادی جاتی ہیں۔ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ ہم ہرسانحہ پرکچھ عرصہ ماتم کرنے کے بعد کسی دوسرے سانحہ کی آمد پرپہلے کوبھول جاتے ہیں۔ننھی زینب بیٹی پرظلم ستم کی انتہاء اورپھردوشہریوں کاپولیس کے ہاتھوں قتل ایسادردناک سانحہ ہے جس کے بعد تادم تحریردل خون کی آنسورورہاہے۔موجودہ نظام سے انصاف ملنے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی ،ان حالات میں جناب ’منصور مانی‘صاحب نے جن الفاظ میں عوامی جذبات کی ترجمانی کی ہے ان میں دکھ،درد،تکلیف کے ساتھ حصول انصاف کیلئے عملی جدوجہدکیلئے قومی ضمیرکوجھنجھوڑکے رکھ دیاہے
آؤ بیٹیاں جلا دیں!
کہ شاید پھر انصاف ہو جائے!
میں اپنی مریم جلاتا ہوں
تم اپنی ماریہ جلا ڈالو!
بدن کو خاک کر ڈالو!
ناموس بچانی ہے
یا انصاف چاہتے ہو؟
لختِ جگر کو بھول نہیں سکتے
تو
بلکتی ممتا پر ترس نہ کھاو!
اگر انصاف چاہتے ہو!
تو گھر کے آنگن میں نہیں!
شہر کے بیچ
چوراہئے پر!
بیٹیاں جلا ڈالو!
کہ یہ انصاف کی راہ میں حائل
چند بھیڑیوں کی نظر میں ہیں!
یہ بھیڑیئے جو قابض ہیں!
ہماری قسمت پہ
یہ بھیڑیئے جوجھکا دیتے ہیں
عدل کے ترازو کو!
یہ بھیڑیئے جلا ڈالو!
یہ ترازو پھونک ڈالو!
ورنہ
میں اپنی مریم جلاتا ہوں
تم اپنی ماریہ جلا ڈالو
کہ شاید پھر انصاف ہو جائے
منصور مانی
اس سے زیادہ خطرناک حالات اورکیاہوسکتے ہیں کہ منتخب نمائندے اورمحافظ محکمہ پولیس عوام کااعتمادکھوچکے ہیں۔عوام کی جان ومال،عزت وآبروکی حفاظت اورفراہمی انصاف حاکم وقت کی اولین ذمہ داریاں ہیں۔میرے وطن کے حاکموعوام نے آپ کواپنے ووٹ سے جس اعتمادکے ساتھ منتخب کیاتھااُس اعتمادکومت توڑو

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress Blog