پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات لمحہ فکریہ

Published on January 25, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 623)      No Comments

تحریر:اظہر اقبال مغل
آج اگر ہم پاکستان کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو پاکستان بہت سارے مسائل میں گرا نظر آتا ہے۔جن میں ایک اہم مسئلہ جو کہ دیکھنے میں آیا ہے وہ معصوم بچوں کا درندگی کی نظر ہونا ہے جس کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے اگر ایک رپورٹ کے مطابق جائزہ لیا جائے تو گذشتہ سال جنوری تا دسمبر بچوں پر جنسی تشدد کے کل 3508 واقعات رپورٹ ہوئے (روزانہ اوسطاً 10 بچے)۔ جبکہ سال 2013 کی نسبت 2014 میں ان واقعات میں17 فیصد اضافہ ہوا۔مطابق یکم جنوری سے 31 دسمبر 2015 تک ملک بھر میں بچوں پر جنسی تشدد کے کل 3768 واقعات ر یکارڈ کیے گئے اور ان بچو ں کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان تھیں۔’’زیادتی کے واقعات چاروں صوبوں، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان، وفاقی دارالحکومت اسلام اباد سے ریکارڈ کیے گئے جس میں پنجاب میں 2616، سندھ 638، بلوچستان 207، اسلام آباد میں 167، خیبر پختونخوا میں 113، گلگت بلتستان اور فاٹا سے تین، تین کیسز ریکارڈ ہوئے، بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد 1943 ان افراد کی ہے جو بچوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے کیسز ایسے ہیں جو کہ منظر عام پر نہیں آئے اس لیئے ان کا کو ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 17 بچے ہر روز جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں آخر اس کی کیا وجوہات ہیں کہ اس طرح کی ورداتوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی اس قوم کے بچے ہمارے مستقبل ہیں ان کاموں کی وجہ سے ہمارا مستقبل خطرے میں پڑتا جارہا ہے۔اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ کہا جاکر ختم ہو گا یا کہ اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔اس طرح کے واقعات آخر کیوں زور پکڑرہے ہیں؟ آخر اس کی اصل وجہ کیا ہے کہ ایسے واقعات رکنے کے بجائے بہت تیزی سیے بڑھ رہے ہیں۔اس کی سب سے جو بڑی اور میں وجہ ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں بلکہ اسلام سے بہت دور جا چکے ہیں۔جس کی وجہ سے انسانوں میں بیحسی میں خیرخواہ اضافہ ہورہا ہے۔انسانی قدریں دم توڑتی جارہی ہیں بے حیائی اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اس پر قابو پانا ناممکن سی بات لگتی ہے۔ بچوں سے جنسی روابط کے واقعات تو بہت ہیں لیکن معصوم بچوں کو ہوس کانشانہ بنانے کے بعد انھیں نے رحمی سے قتل کر دینا ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے۔جس کی اگر موت سے بھر کر بھی کوئی سزا ہو تو کم ہے۔کیونکہ ایک قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اور اس طرح درندگی سے تو کوئی جانور ہی قتل کر سکتا ہے۔انسانی فطرت میں درندگی شامل نہیں۔ایک انسان تب ہی درندہ بنتا ہے جب اس میں یہ احساس ختم ہو جاتا ہے جب جب ایک انسان کا دماغ ہوس کیا غلام بن جاتا ہے تو وہ اس طرح کی درندگی کر جاتا ہے کو جو آجکل ہمارے معاشرہ میں ہورہی ہیں ان واقعات کی جوبڑی وجہ سامنے آئی ہے وہ ہے بے حیائی اور بیہودگی کا حد سے زیادہ تجاوز کرنا جس کے نتیجے میں یہ واقعات رونماہورہے ہیں اگر قیام پاکستان سے اب تک کا بغور جائزہ لیا جائے تو جس قدر بے حیائی پھیل رہی ہے اس قدر اس طرح کے واقعات کو فروع مل رہا ہے۔ نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت پر غور کریں تو وہ کہتا ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔جو اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں یہ بے حیائی کا ہی ردعمل ہے۔جب ہماری نوجوان نسل عورتوں کو نازیبالباس میں ملبوس دیکھتی ہیں تو اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے کسی نے کبھی غور کیا۔اسلام نے کیوں عورت کو پردے کا حکم دیا ہے کہ اس معاشرہ میں بگاڑ نہ پھیلے۔اسی طرح ہمارا میڈیا اس میں کیا رول ادا کر رہا ہے بے حیائی سے بھرپور پروگرام دکھا کر جس میں نوجوانون کے جذبات بھڑک اٹھیں تو کیا رد عمل ہوگا۔ سوشل میڈیا پر فحش تصویر اور فحش ویڈیو اورسب سے بڑھ کر جو آجکل انٹرنیٹ پر چاٹ رومز ہیں بے حیائی پھیلانے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔جہاں ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں یہ سب بتانے کا مقصد تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ یہ اور بے شمار ایسے عمل ہیں جو کہ ایک انسان کو برائی کی طرف اکساتے ہیں،جب ایک انسان کو کچھ میسر نہیں ہوتا تو وہ انسان تو انسان جانوروں سے بھی برا فعل کرنے سے باز نہیں آتا ضرورت اس عمل کی ہے کہ اس کی روک تھام بہت ضروری ہے اس کیلیئے سب سے پہلے تو اسلامی تعلم عام کرنا بہت ضروری ہے دوسرے نمبر پرہماری حکومت کو اس پر بہت سخت قانون بنانا چاہیے تاکہ اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہو،اور پاکستان میں اس طرح کی تمام ویب سائٹ بلاک ہونی چاہیئے جو کہ بے حیائی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں جن میں چاٹ رومز آج کل بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کا بہت اہم رول ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے پاکستانی میڈیا کا بہت اہم رول ہے پاکستانی میڈیا کو اصلاحی پرو گرام پیش کرنے چاہیئے نہ کے بے حیائی بھرپور پروگرام پیش کرنے چاہیئے جو کہ شعلوں کو ہوا دینے کے مترادف ہو۔یہ سارے عمل ایسے عمل ہیں اگر ان کا مشاہدہ کیا جائے تو ان کی کڑیاں واسظہ یا بلاواسطہ ایسی واردتوں سے ضرور جا ملتی ہیں جو کہ پاکستان میں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔انسان میں جو اصل چیز ہوتی ہے وہ احساس ہوتا ہے جب انسان میں احساس کی کمی واقع ہوتی ہے تو وہ انسان سے حیوان بن جاتا ہے اس لیئے ایک انسان میں احساس پیدا کرنا ہوگا کہ وہ حیوان نہ بنے۔اس کیلیئے ہر ممکن کوشش کی اشد ضرورت ہے۔ جوکہ عمل میں لانی ہو گی۔تاکہ اس قسم کے واقعات کو روکا جاسکے۔بچوں کو سیکس ایجوکیشن کی بجائے یہ احساس دلایا جائے ایک عورت کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ایک مرد کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ایک بچے کے ساتھ کیسے پیش آنا سیکس کی تعلیم تو پہلے ہی عام ہے جس نے ناقص ذہنوں کو بری طرح متاثر کر کے رکھ دیا ہے یہ ایک لمحہ فکریہ بات ہے کہ کیسے اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جائے؟۔اور کیسے اس ملک کو ان درندوں سے پاک کیا جائے؟ آنے والے وقتوں میں کس حد تک اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ہمارے بچے جو کہ اس طرح کی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں سیکس کیاایجوکیشن ان واقعات کو روکنے میں معاون ثابت ہو گی؟یہ سب قابل غور باتیں ہیں ان سب کا شائد ایک ہی جواب دینا بہتر ہوگا

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题