شہید اعتزاد حسین ایک ہیرو ایک محسن

Published on January 12, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 513)      No Comments

\"Umar
ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے وہ ایک کامیاب انسان بن کر دنیا کے سامنے پیش ہو۔ لیکن بچپن کادور بھی عجیب ہوتا ہے نہ کوئی پریشانی نہ زیادہ گھریلو معاملات کی فکر بس کھیل کود ۔سکول ۔مدرسہ اور گھر۔اسی طرح بچپن کے دور کی حدود کو پار کرتے ہوئے اور جوانی میں قدم رکھتے ہوئے 16سالہ اعتزاد حسین بھی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا ۔جو ابراہیم زئی ہنگو میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا اور پاکستان کے نام کو انچ نہ آنے کا جذبہ لیے پھرتا اور 14اگست قریب آتے ہی وہ بھی پاکستان کے پرچم کو لہراتا اور اپنے سینے پر سجاتا ۔اس کا باپ اس بہت دور دبئی میں محنت مزدوری کرتے سوچتا میرے جوان ہوتے بیٹے جلد ہی میرے بڑھاپے کا سہارا بنے گے ۔ہر کسی کے ساتھ محبت سے پیش آنے والااعتزاد نہیں جانتاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک بڑے مقصد کے لیے چنا ہے ۔وہ اعزاز اعتزاد حسین کے حصے میں آرہاتھا جس کے لیے بڑے بڑے لوگ اللہ سے دعائیں کرتے رہیے ۔6جنوری کی صبح بھی اعتزاد حسین اپنے سکول جانے کے لیے گھر سے تیار ہوا۔گھر والے ہمیشہ دعاوٰں کے ساتھ رخصت کرتے ۔کیونکہ ہنگو کے حالات کافی عرصہ سے امن امان کے حوالے خراب چلے آ رہے ہیں ۔آئے روز دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی واقع ہو جاتاہے جس سے اہلیان صوبہ خیبر پریشان ہیں ۔حکومت امن اومان کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے ۔لیکن امریکہ اسرائیل اور انڈیا جو پاکستان کاوجود دل سے قبول کرنے کو ہی تیار نہیں وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی پل بھی ضائع نہیں جانے دیتے اور پاکستان کو اندرنی غداروں کے ذریعے جن کو چند ٹکوں ۔لالچ یاڈرا کر اپنے مقاصدکاحصہ بنالیتے ہیں 6 جنوری کو اعتزاد حسین کو بھی گھر کے مکینوں نے سکول کی یونیفارم پہناکر مستقبل کے سہانے خوابوں کے ہمراہ سکول بھیجا۔اعتزاد اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنی منزل اپنی درسگاہ کی جانب رواں دواں ہیں۔راستے میں وہی سوچیں جو ایک جوانی میں قدم رکھتا ہوا لڑکا سوچتاہے کہ میں بھی ایک دن اچھا استاد ایک اچھا فوجی ایک اچھا بزنس مین بنوں گا اور گھرکی امیدوں پر پورا اتروں گا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے وطن عظیم کی بھی ہر طرح خدمت کروں گا ۔اتنے میں ابراہیم زئی کا یہ سپوت اپنے سکول کے قریب پہنچتاہے۔جہاں ہر روز کی طرح ابتدا تلاوت،،لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ،،اور قومی ترانے سے ہوتی۔آج بھی سکول کے ایک ہزار کے لگ بھگ قوم کے مستقبل کے ستارے احاطے میں جمع تھے ۔تاکہ تلاوت دعا اور قومی ترانے کے بعد اپنی تعلیمی سرگرمیاں شروع کریں۔اتنے میں اعتزاد حسین سکول کے دروازے کے قریب پہنچتاہے ۔تو ایک نامعلوم آدمی کو وہاں موجود پاتاہے ۔اعتزاد بھی دوسرے بچوں کی طرح خاموشی سے گزرجاتا لیکن وہ وطن کی محبت سے شرشار ایک بلند حوصلہ جوان تھا ۔اس لیے اس نے نامعلوم آدمی سے پوچھنا چاہاکہ کس غرض سے آئے ہو ا ۔تو وہ بزدل چھوٹے سے اعتزاد سے ڈر گیا اور سکول کی جانب بڑھا ۔جہاں ایک ہزار بچے موجود تھے۔اعتزاد حسین سمجھ گیا ضرور کوئی خطرناک بات ہے اور اس نامعلوم آدمی کے پیچھے بھاگااور اسے پکڑ لیا ۔اس سکول کے اندر بھاگنے کی بہت کوشیش کی لیکن اعتزاد کی مظبوط گرفت سے نا بچ سکا اور اپنے آپ کو وہاں ہی بارود سے اڑادیا۔اوراعتزاد حسین بھی ساتھ ہی شہیدہوگیا اورساتھ میں ایک ہزاربچوں کی جان بچاکر اور اپن�آپ کو وطن پر قربان کرکے یہ پیغام ہم سب کے لیے چھوڑگیا ہمت بہادری اور حوصلے کے ساتھ ہم وطن کابھرپور دفاع کرسکتے ہیں وزیراعظم پاکستان نے بھی اس بہادر کے لیے ستارہ شجاعت کا اعلان کیا ہے۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题