تبدیلی کے وعدوں پر عمل ہی روشن پاکستان کی ضمانت

Published on September 7, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 211)      No Comments

تحر یر۔امبرین بلوچ
ہمارا اب تک کایہی المیہ رہا ہے کہ اسلامی، جمہوری، فلاحی معاشرہ کی تشکیل کیلئے بانی پاکستان قائداعظم کے حاصل کردہ اس ملک خداداد میں ان کی وفات کے ساتھ ہی اشرافیہ کلچر نے غلبہ حاصل کر لیا تھا جس کے باعث شرف انسانیت کے تقاضوں کے تحت استحصالی نظام سے برصغیر کے مسلمانوں کو نجات دلانے کا تصور شروع دن سے ہی غارت ہو گیا۔ قائداعظم نے تو تشکیل وطن کے بعد شہریوں میں کسی بھی قسم کی تفریق کا تصور تک نہ پنپنے دیا۔ اقتدار کے ایوانوں میں سرکاری وسائل اور قومی خزانے کے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال، ناجائزاسراف اور لہو و لعب سے دوری کیلئے اپنی ذات کو مثال بنایا، وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں سرکاری خرچے پر عیاشانہ خوردو نوش کی سختی سے ممانعت کئے رکھی اور میرٹ کا بول بالا کیا۔ ان کے ذہن میں فی الحقیقت ملکِ خدا داد کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا تصور تھا اور اسی تناظر میں انہوں نے ذاتِ باری تعالی کے ودیعت کردہ ضابطہ حیات قرآن مجید کو پاکستان کا آئین قرار دیا تھا۔ وہ اس کتاب ہدایت کی روشنی میں ہی پاکستانی معاشرے کو استوار کرنا چاہتے تھے اور انگریز و ہندو کے مسلط کئے گئے استحصالی نظام کے باعث اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے حاصل کئے گئے الگ خطہ ارضی کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست کے قالب میں ڈھال کر ہی ان کی فلاح کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔قائداعظم مزید کچھ عرصہ تک بقید حیات رہتے تو بلاشبہ یہ مملکت خدا داد ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھل جاتی مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قوم کو داغ مفارقت دے گئے جس کے بعد انگریز اور ہندو کے پروردہ عناصر نے قومی سیاست و معاشرت پر غلبہ حاصل کر لیا اور عوام کو اسی استحصالی نظام میں جکڑ لیا جس سے خلاصی کیلئے بانیان پاکستان قائد و اقبال نے اسلامیان برصغیر کیلئے الگ خطہ ارضی کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اس استحصالی نظام کو جرنیلی آمروں کے ادوار میں زیادہ فروغ حاصل ہوا جبکہ ان کی چھتری کے نیچے پرورش پانے والے سیاستدانوں نے بھی اس نظام کو مستحکم بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نتیجتا عوام غریب سے غریب تر اور حکمران اشرافیہ طبقات منتخب ایوانوں میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے اور قومی وسائل و دولت کی لوٹ مار کرتے ہوئے امیر سے امیر تر ہوتے گئے جبکہ ان مراعات یافتہ طبقات کی گرفت کیلئے ریاستی قانون بھی بے بس نظر آنے لگا۔ قومی وسائل کی لوٹ مار اور حکومتی اختیارات کے ناجائز استعمال کی یہ داستان لیاقت علی خان دور میں ناجائز کلیموں سے شروع ہو کر میاں نوازشریف کے گزشتہ دور میں پاناما لیکس تک جا پہنچی جس میں بے وسیلہ عوام کیلئے استحصالی شکنجہ درازکرنے اور قومی وسائل کواپنے اقتدار کے زور پر شیر مادر کی طرح چاٹنے کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہی وہ حالات ہیں جن میں عمران خاں قوم کیلئے امید کی کرن بن کر قومی سیاست میں داخل ہوئے اور عوام کو فرسودہ استحصالی نظام، موروثی سیاست اور کرپشن کلچر میں لتھڑے انتخابی اور عدالتی نظام سے نجات دلانے کا عزم باندھا۔ اس حوالے سے ریاست مدینہ کا تصور ہی ان کیلئے زاد راہ تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے کٹھنائیوں کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور سسٹم کی تبدیلی کے عزم پر کار بند رہے۔ آج اگر کرپٹ عناصر اور قبضہ مافیاز کیخلاف اقتدار کے ایوانوں کی جانب سے عملی مہم شروع کی جارہی ہے جس کی وزیراعظم عمران خان خود نگرانی کررہے ہیں تو اس سے ملک اور عوام کا مقدر سنورنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب روایات سے ہٹ کر تھا۔ انہوں نے روایتی طور پر تقریر پڑھنے کے بجائے قوم کے ساتھ فی البدیہہ مکالمہ کیا اور چند ایک کے سوا قوم و ملک کو درپیش ہر ایشو پر بات کی۔عمران خان نے جو وعدے اور دعوے دہرائے قوم کو جو امید دلائی اس پر پورا اترنے کیلئے گو ٹارزنی صلاحیت درکار ہے مگر عزم و ارادہ اور کمٹمنٹ ہو تو جو کچھ بھی کہا گیا ناممکنات میں ہرگز نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو وعدے کئے وہ پورے کرتے ہیں تو یہ ملکی استحکام اور قوم کی خوشحالی اور نئی نسل کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہوگی۔ عمران خان کے ایجنڈے کی تکمیل سے ملک میں نرم انقلاب کی راہ ہموار ہوگی۔ عمران خان کو کام نہ کرنے دیا گیا یا وہ اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے میں کامیاب نہ ہوسکے تو سٹیٹس کو برقرار رہے گا۔ سٹیٹس کو برقرار رہنے کا مطلب مہنگائی بے روزگاری اور اربوں کھربوں کی کرپشن کا جن یونہی دندناتا رہے گا۔ غریب پر علاج اور اسکی اولاد پر تعلیم کے دروازے بند رہیں گے غیرمعیاری خوراک سے کروڑوں بچوں کی مناسب نشوونما نہ ہونے سے وہ کارآمد شہری بننے کے بجائے قوم پر بوجھ بنتے رہیں گے۔ رشوت اور چور بازاری جاری رہے گی اور آلودہ پانی سے بیماریوں میں مبتلا ہو کر بے وسیلہ لوگ مرتے رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے پینے اور فصلوں کیلئے پانی کی زور دیکر بات کی ۔ انہوں نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا۔ بھاشا اور مہمند سمیت ہر ڈیم کی اپنی اہمیت ہے انکی بلاتاخیر تعمیر و تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رہنی چاہیے مگر اس حقیقت سے اغماز نہیں برتا جا سکتا کہ مجوزہ تمام ڈیم مل کر بھی کالاباغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتے۔۔ وزیراعظم کو صاف ستھرے کردار کی حامل اپوزیشن جماعتوں اور رہنما ؤں کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہیے جس سے جمہوریت کے استحکام میں مدد ملے گی۔ ملک کی خو شحالی و ترقی کیلئے سب کو ایک قوم بن کر کردار ادا کر نا ہوگا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Themes