شہر خانیوال کووارث کی تلاش 

Published on October 7, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 251)      No Comments

تحریر۔ میاں عبدالوحید عمرانہ
خانیوال جسے لاوارثوں کا شہر کہا جاتا ہے عرصہ دراز سے اسے اپنے تمام دیرینہ مسائل کے حل کے لئے ایک قابل اوراہل وارث کی تلاش ہے ۔باریاں بدل بدل کر اس مظلوم شہر کو ہر کوئی نظر انداز کرتا رہا ۔اپنے مخصوص چمچوں اور مالشئیوں کو نوازتا رہا ۔سرکاری گرانٹوں کو مال مفت دل بے رحم کے مصداق اللے تللوں میں خرچ کرتا رہا ۔نام کے ضلع کی تمام تحصیلیں ترقی یاب ہوتی رہیں لیکن خانیوال کی تقدیرپرلسی پڑی رہی اور اس کی عوام کے نام پر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے منتخب ہونے کے بعد اپنے تمام وعدے قسمیں اور سبز باغ الیکشن میں جو دکھائے تھے انہیں حسب روائیت بھول گئے ۔الیکشن کے دنوں میں غریب فضلو کوفضل بھائی ۔کملو کو کمال بھائی ۔بچوں کو بیٹا اور خواتین کو اماں اور بہن کہنے والے الیکشن کے بعد ایسے بدل گئے جیسے گرگٹ رنگ بدلتا ہے ۔فضل بھائی ایک بار پھراوئے فضلو اور خواتین بوڑھی ہوتو او مائی اور جوان ہو تو او کاکی اور او کڑیے بن جاتے ہیں ۔کسی سیاسی گرگٹ سے تنگ آئے شاعر نے شائد ایسے موقع پر ہی کہا تھا کہ 
میرے دیس کی سیاست کاحال مت پوچھو ۔ گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں 
خانیوال سمیت پورے ملک میں سیاست اور سیاستدانوں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔الیکشن آ جائے تو ویران ڈیرے آباد ہو جاتے ہیں نوکر چاکر چمچے اور مالشئیوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں نوٹوں کی ہڈی پر جھپٹنے والے نام نہاد سیاسی ناخدا تجوریوں کا منہ کھول دیتے ہیں ۔الیکشن کے دنوں میں ان سے زیادہ مخلص ۔ ہمدرد اور عوامی حقوق کا رکھوالا اور انسانیت کا خیر خواہ کوئی نہیں ہوتا ۔کوئی مر جائے کسی کی قل خوانی ہو یا چہلم ۔ہر جگہ کلف لگے سوٹوں والے چمچوں کے ساتھ آوارد ہوتے ہیں ۔افسوس کے لئے چہرے پر افسردگی کے بادل ایسے پھیلا لیتے ہیں کہ جیسے ان کا اپنا باپ فوت ہوا ہو ۔چند لمحوں کے بعد اسی چہرے پر چالاکی اور عیاری کی خوشی اور طمانیت ایسے آجاتی ہے جیسے ووٹر کا ہرفرض پورا کرکے سر خرو ہو گئے ہوں ۔ الیکشن کے دنوں میں روٹھے ہوئے یاروں ۔سپورٹروں اور ووٹرز کو منانے کے لئے مخصوص خوشامدیوں کا ٹولہ رکھا ہوتا ہے ۔جو ان کی طرف سے راہ ہموار کرتا ہے غصہ کے گھنے بادلوں کو ہٹا کر اور نفرت کو مٹا کر خیر سگالی کی فضا کو بنانے کے بعد عوامی حقوق کے نمبردار کو بلاکر ملاقات کرائی جاتی ہے گلے شکوے دور کرا کر الیکشن میں حمائیت کا اعلان کروایا جاتا ہے بعد ازاں الیکشن میں اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد اسے ایسے بھلا دیتے ہیں جیسے قرض دینے والا رقم کی واپسی کو بھول جاتا ہے ۔اور ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے غریب کے اچھے دن ۔بارہا عوام سے یہ سنا گیا کہ ’’ ہن میں کسے وڈیرے نوں ووٹ نئیں دینڑا ‘‘ ایہہ خود غرض تے مفاد پرست ہوندے نیں ۔ ایہناں دا کوئی اعتبار نئیں ۔ ’’ مطلبی تے طوطا چشم ہوندے نیں ‘‘ ۔’’ ووٹ منگن لئی ڈرامے کردے نیں ووٹ منگن والے فقیر نیں ‘‘لیکن بے بس اور مجبور عوام وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ان چاپلوسوں کی چرب زبانی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور پھر کئی سالوں تک ذلیل و خوار ہونے کے لئے اپنی قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں ۔اب آئندہ نئی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد نئے بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالنے جا رہی ہے ۔نیا بلدیاتی نظام موجودہ بلدیاتی نظام سے یکسر مختلف ہے۔موجودہ بلدیاتی نظام میں کئی ابہام پائے جاتے ہیں لیکن نئے بلدیاتی نظام میں عوام کو یقینی طور پر گراس روٹس لیول تک مسائل کے حل کی گارنٹی دکھائی دیتی ہے ۔یونین سطح پر اختیارات کی تقسیم سے ووٹرز کے مسائل میں کمی اور وسائل میں بتدریج اضافہ ممکن ہوگا ۔اس نظام میں ایم این اے اور ایم پی اے کے لامحدود اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے ۔اس متوقع نئے بلدیاتی نظام میں نئے چہرے بھی رونما ہو رہے ہیں ۔ضلعی نظامت کے لئے سابق ایم این اے بیرسٹر رضا حیات ہراج ۔ بیرسٹر سید عابد امام ۔احمد ندیم بودلہ اورچوہدری ضیا ء الرحمان ۔سابق ضلع ناظم سردار احمد یار ہراج اور حاجی عرفان خان ڈاہا سابق وزیر ٹرانسپورٹ متوقع امیدوار ہونگے ۔جبکہ خانیوال کی تحصیل نظامت کے لئے کانٹے دار مقابلہ ہوگا ۔ موجودہ ایم پی اے نشاط احمد خان ڈاہا کے بھانجے موجودہ چئیرمین بلدیہ مسعود مجید خان ڈاہا ۔ رانا عبدالرحمن ۔ محمد حسین بھٹی سابق امیدوار صوبائی اسمبلی۔ رانا سلیم حنیف سابق امیدوار صوبائی اسمبلی ۔ مہر عمران پرویز دھول سابق ایم پی اے ۔راؤ انتظار احمدخاں آف نانک پور ۔ شیخ احتشام ۔حاجی شیخ فتح علی ۔ راؤ عبدالرشید آف نانک پور۔ حاجی فضل الرحمان رحمانی ۔راؤ سرفراز احمد خاں ۔ ہمایوں خان اور خانیوال کی معروف سماجی اور سیاسی شخصیت ڈاکٹر شفیق الرحمن کمبوہ بھی متوقع امیدوارں کی دوڑمیں شامل ہو چکے ہیں ۔خانیوال میں ضلعی نظامت کے لئے بیرسٹر سید عابدامام اور سردار احمد یار ہراج کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا اگر بیرسٹر رضا حیات ہراج بھی الیکشن میں حصہ لیتا ہے تو پھر بیرسٹر سید عابد امام کی کامیابی یقینی ہوگی اور اگر صرف ون ٹو ون مقابلہ ہوتا ہے خواہ احمدیار ہراج ہویا رضا حیات ہراج تو ایسی صورت حال میں سید کے مقابلہ میں ہراج کی کامیابی سو فی صد کنفرم ہے ۔خانیوال میں اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث تحصیل نظامت کی سیٹ ہو رہی ہے ۔ تحصیل نظامت کا تاج کون پہنے گا اس کے لئے عوامی حلقوں میں متعدد نام گردش کر رہے ہیں ان میں تو کچھ ایسے ہیں جو اندھیری میں اڑنے والے شاپروں کی طرح الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی اڑ جائیں گے ۔ عوامی حلقوں میں قابلیت ۔ شرافت اور اہلیت کے لحاظ سے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ عوامی دکھ سکھ میں شریک ڈاکٹر شفیق الرحمن کمبوہ کی انٹری کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے ۔ قبل ازیں بلدیہ کے کرتے دھرتوں نے بلدیہ کو سیاسی اکھاڑہ بنایا ہوا تھا ہر سیاہ و سفید کے ان داتا بنے ہوئے ہیں ۔چیئرمین تو چیئرمین بلدیہ کا ہر چہیتا کونسلراور سویپرسے لے کر بلدیہ کے چیف آفیسر تک سب کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ بلدیہ میں لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کی لوٹ مار عروج پر ہے ۔ماما جتنا کرپشن کے خلاف ہے بھانجا اتنا ہی کرپشن نواز دکھائی دیتا ہے ۔جن پر کھلم کھلا کرپشن کا الزام لگاتا ہے پھر چند دنوں کے بعد انہیں سے بغل غیر ہو جاتا ہے ۔اس کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کیا کرپٹ شخص نے کرپشن چھوڑ دی ہے یا کرپشن چیئرمین کی نظر میں کوئی برائی نہیں ۔شائد یہی وجہ ہے کہ ناجائز ترقیاں اوراختیارات کا ناجائز استعمال دھڑلے سے جاری ہے اور ہر انکوائری کو کھڈے لائیں لگانا مجبوری بن چکا ہے ۔بلدیہ میں من مانیوں سے پرائے تو پرائے اب اپنے بھی بھانجے کی سیاسی بساط لپیٹنے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہیں ۔چند مخصوص درباری عوام کے ساتھ ناروا رویہ اورنا اہل مشیروں اور جی حضورئیوں کی وجہ سے غلط فیصلے نشاط خان ڈاہا کی آئندہ ڈولتی کشتی کو سہارا نہیں دے سکیں گے ۔آئندہ متوقع بلدیاتی نظام میں لوگ موجودہ مسیحاؤں سے ذہنی طور پر بدظن ہو چکے ہیں وہ کسی ایسے نجات دہندہ کے منتظر ہیں جو اس خانیوال کی زندہ لاش کی آخری سانسوں کی ہچکی کو سہارا دے سکے اور شخصی غلامی کی زنجیریں توڑ کرحانیوال کی عوام میں روائیتی سیاستدانوں کی سیاسی چالوں سے نجات دلا کرخانیوال کانجات دہندہ بن سکے ۔اس وقت موجودہ عوامی رہنماؤں میں صرف اور صرف ڈاکٹر شفیق الرحمن کمبوہ ہی ایک ایسی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے جو موروثی وڈیرہ شاہی کی غلامی کا طو ق ا تارنے اورخوغرضی کا لبادہ اوڑھنے والوں کی مفاد پرستی کی زنجیریں توڑکرعوام کی سوئی ہوئی تقدیر کو جگائے ان کے دیرینہ مسائل ۔ صاف پانی ۔ گندے پانی کا نقاص ۔ صفائی کا مسئلہ ۔بے روزگاری ۔ ترقیاتی سکیمیں ۔ناجائز ترقیاں ۔ کروڑوں رچپے کی لوٹ کھسوٹ ۔اخلاقیات سے عار ی سٹاف کی چیرہ دستیوں سمیت قبضہ مافیا اور مالش مافیا کو تابوت میں بند کرکے سیاسی طور پر کلین بولڈ کر سکے ۔ایسے میں باشعور اور غیرت مند کونسلرزکی اکثریت کا دبے لفظوں ڈاکٹر شفیق الرحمن کمبوہ کی حمائیت اور قائد ڈاہا گروپ حاجی عرفان خا ن ڈاہاکی آشیرباد کے بعد عوام میں ڈاکٹر کا گراف اپنے نام کی طرح شفیق اور مہربان مزاج اور ہمدردانہ رویہ ان کی کامیابی کی دلیل بنتا جارہا ہے ۔سیاست کو عبادت اورعوام کی خدمت کو مشن سمجھنے والے عملی طور پر خود بھی ایک مسیحا ہیں اورڈاکٹر کے روپ میں اپنے پیشہ کے ساتھ انصاف کرکے دکھی انسانیت کے لئے راحت اور سکون فراہم کرتے ہیں ۔متعدد کونسلرز۔سماجی و سیاسی شخصیات ۔مذہبی نمائندے ۔ وکلاء ۔ ڈاکٹرز۔صحافی ۔ مزدور اور کسان سمیت سفید پوش طبقہ عالمی تبدیلی کی طرح مقامی تبدیلی کے بھی خواہاں ہیں ۔ایسے میں شہر کے معززین کی اکثریت اگر حق و سچ پر ڈٹ جاتی ہے توپھرہروڈیرے کو خانیوال شہر کی عوام لوہے کے چنے چبوا دے گی ۔اورعوام اپنا نمائندہ اپنی مرضی سے منتخب کرا کر جھوٹ ۔ منافقت ۔خودغرضی ۔ مطلبی اور مفاد پرستی کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک کرعوامی حکمرانی کی اصل بنیاد ڈاکٹر شفیق الرحمن کمبوہ کی جیت سے رکھ دے گی ۔ 

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes