تحریر۔۔۔ محمد ثاقب شفیع
زہریلا اسموگ جو پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کے دونوں ا طراف کے شہروں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے جس سے فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے عوامی صحت خاص طور پر بچے اور بوڑھوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں، یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیاء میں تقریباً 600 ملین بچے فضائی آلودگی سے نقصان دہ حد تک شکار ہوتے ہیں، جن میں سے نصف اموات بچپن میں نمونیا سے ہوتی ہیں انکا تعلق ماحولیاتی آلودگی سے ہے۔ جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، خاص طور پر لاہور، پاکستان اور نئی دہلی، بھارت دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ نومبر 2024 تک، دونوں شہرعالمی ادارہ صحت حدوں کو تجاوز کرتے ہوئے شدید فضائی آلودگی کی حد ترین سطح تک جا پہنچے ہیں۔ لاہور دنیا کا دوسرہ آلودہ ترین شہر جبکہ نئی دہلی میں 1 نومبر کو ایئر کوالٹی انڈیکس دنیا کا سب سے آلودہ ترین ریکارڈ کیا گیا، جس کے نتیجے میں نئی دہلی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر بن گیا۔
فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات سنگین ہیں۔ ”دی لینسیٹ” کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں فضائی آلودگی سے سالانہ 2 ملین اموات ہوتی ہیں، جن میں سے 1.6 ملین فضائی آلودگی کے باعث ہیں۔ بھارت دنیا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ 2019 میں بھارت میں 2.3 ملین قبل از وقت اموات ہوئیں، جن میں 1.6 ملین فضائی آلودگی سے ہوئیں۔ عالمی سطح پر فضائی آلودگی ہر سال 90 لاکھ اموات کا سبب بنتی ہے، جبکہ صرف بھارت میں فضائی آلودگی سے سالانہ 10 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔(بی بی سی انڈیا 2022)۔
پاکستان میں بھی آلودگی کا مسئلہ سنگین ہے،شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، خاص طور پر لاہور میں جہاں آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت کی محفوظ حد سے تجاوز کر گئی ہے، جس سے اوسط عمر 7.5 سال کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 22,000 اموات بیرونی فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں اور 28,000 اموات اندرونی آلودگی سے۔ مزید برآں، پاکستان میں اندرونی فضائی آلودگی فی 100,000 ٓفرادمیں 30 اموات اور بیرونی آلودگی فی 100,000 افرادمیں 25 اموات کا سبب بنتی ہے۔(ڈبلیو ایچ او)۔
آلودگی کی وجوہات میں گاڑیوں کی گیسیں، صنعتی دھواں، اور فصلوں کا جلانا شامل ہیں۔ موسمی تبدیلیاں، خاص طور پر سردیوں میں، آلودگی کو مزید بڑھاتی ہیں، اور لاہور میں سموگ کا زیادہ تر سبب بھارت سے آنے والی فضائی آلودگی ہے، جو سردیوں میں شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی ماحول میں عدم اعتماد کی فضا ہے، اور کسی بھی تعاون کی تجویز کو تاریخی تنازعات اور قوم پرستی کے جذبات کے دائرے میں لانا آسان نہیں۔ مزید یہ کہ فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بڑی مالی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اور دونوں ممالک کے معاشی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ ایک مشکل امر ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ، دونوں ممالک میں زرعی طریقے بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔ کھیتوں کی صفائی کے لیے فصلوں کے باقیات کو جلانے کی عادت فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی ہے۔ دونوں ممالک میں یہ عمل رائج ہے، مگر بھارت میں اس کی شدت زیادہ ہے کیونکہ وہاں بڑی زرعی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مربوط کوشش کی ضرورت ہے جس میں دونوں ممالک کو مشترکہ وسائل کے ساتھ پائیدار زرعی طریقوں کی ترویج کرنی ہوگی۔
ظاہر ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لئے بھارت سے بات چیت ایک اہم عمل ہے لیکن اس کے علاوہ پاکستانی حکومت کو بھی خود سنجیدگی سے بہت سارے جامع منصوبے بنانے ہونگے، پاکستان کو ذاتی طور پر خو کفیل ہو کر اس مسلے کا حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے نہ کہ بھارت پر منحصر ہو کر کوئی لا حہ عمل بنایا جائے جیسا کہ انجینئر محمد رمضان آصف اور انجینئرعثمان رفیق جو کہ دہائیوں سے لند ن کے مقیم ہیں انکا کہنا تھا کہ سموگ کو کم کرنے اور صحت عامہ کے تحفظ کے لیے پاکستان حکومت خاص طور پر پنجاب حکومت کو اہم اقداما ت کرنے ہونگے ہمارے خیال میں ایسا کرنا اتنا مشکل نہیں جس کی ایک جیتی جاگتی مثال لندن کے مئیر صادق خان ہیں جنہوں نے کاربن ایمشن کو کم کرنے کے لیے لندن شہر کو صاف ستھرا، سرسبز و شاداب اورپائیدار میٹروپولیٹن سٹی میں تبدیل کرنے کا ایک پرجوش ایجنڈا طے کیا جس کا مقصد 2030 تک لندن کے کاربن کے اخراج میں زبردست کمی لانا شہر کو عالمی آب و ہوا کے معیار کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس منصوبے کا ایک بنیادی پہلو ہوا کے معیار کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر الٹرا لو ایمیشن زون کی توسیع،جو کہ اب گریٹر لندن تک بڑھا دیا گیا ہے، جسکا مقصد پرانی، زیادہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں سے فضائی آلودگی سے نمٹنا اور عوام کے لیئے صاف ستھری آب و ہوا میسر کرنا، زیرو ایمیشن ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا، بشمول الیکٹرک گاڑیوں کے انفراسٹرکچر کو پھیلانا اور صاف ستھرا پبلک ٹرانزٹ میں منتقلی کی حمایت کرنا،لندن کی سبز جگہوں کو بڑھانے اور حیاتیاتی تنوع کو بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کر نا، نئے پارکس، گرین زونز کا قیام شامل ہے، ماحولیاتی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرکے ہزاروں نوکریاں پیدا کی جائیں گیں،موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور لندن کے تمام شہریوں کے لیے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر، پلان اور شہر کو ماحولیاتی پائیداری میں عالمی طور پر عمدہ درجہ فراہم کرے گا۔
اس طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کو بھی اپنے ماحولیاتی اہداف مقرر کرنا ہونگے ان اہداف سے حکومت کو آمدن کا حصول بھی ممکن ہوگا جبکہ نو جوانوں کے لئے گرین ماحولیاتی پروجیکٹس کے ذریعے ہزاروں نوکریاں بھی مہیا کی جا سکتی ہیں، صوبائی حکومت کو سخت فیصلے لینا ہونگے، عوام کو مستقبل کے خطرات سے بچانے کے لئے خاطرخواہ کوششیں کرنی ہونگی،جیسا کہ ہوا کے معیار کی نگرانی اور سموگ الرٹس جاری کیے جائیں،ریئل ٹائم آلودگی کی نگرانی کی جائے، شہری اور صنعتی علاقوں میں آلودگی کی سطح کو ٹریک کرنے کے لیے ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے اسٹیشنوں کی تنصیب۔صوبہ میں ہنگامی بنیاد پر سیٹلائٹ سرویلنس کی جائے، صوبے بھر میں سموگ کے ذرائع اور آلودگی کے رجحانات کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے، اے ایل پیشن گوئی کے ماڈل استعمال کئے جائیں تاکہ سموگ کے نمونوں کی پیش گوئی کرنے لیے مصنوعی ذہانت کا فائدہ اٹھایا جا سکے تاکہ کسی بھی خطرناک صورت حال کے لیے موئثرتدابیر کی جاسکیں۔
صحت عامہ کے اقدامات کرنا،آگاہی مہم جوئی کی جائے، عوام کو سموگ کے صحت کے خطرات سے محفوظ بنانے کے لئے مفت ہیلتھ کلینکس اور میڈیکل کیمپ لگانا اور سموگ سے متاثرہ کمزور آبادیوں کو مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنا، خاص طور پر آلودگی کے عروج کے موسموں میں۔: شہری علاقوں میں درخت لگانا آلودگی کو جذب کرنے اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے۔سموگ سے پاک زونز کا قیام،قدرتی ہوا صاف کرنے کے لیے گرین بیلٹس اور پارکس کا قیام، لاہور جیسے شہروں میں سموگ کے ارتکاز کو کم کرنے میں مدد کرنا۔سخت ضابطے اور جرمانے: فصلوں کی باقیات کو جلانے والے کسانوں کے خلاف جرمانے اور قانونی کارروائیاں کرنا۔متبادل کے لیے سبسڈیز: صفر تک کاشتکاری اور بائیو ماس کٹائی کے آلات کے لیے سبسڈی فراہم کرنا۔فصل کے باقیات جلانے کے مضر اثرات کے بارے میں کسانوں کو تعلیم دینا اور ماحول دوست طریقوں کو فروغ دینا۔کارخانوں کے لیے اخراج کے لئے سخت مینجمنٹ پلان،اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت ضابطوں کا نفاذ، خاص طور پر لاہور جیسے زیادہ آلودگی والے علاقوں میں، اینٹوں کے بھٹوں اور دیگر صاف ٹیکنالوجیز کے لیے زگ زیگ ٹیکنالوجی کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنا۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے، نقصان دہ اخراج کو کم کرنے کے لیے سبسڈی اور مراعات مہیا کرائی جائیں، سختی سے اس بات کو یقینی بنانا کہ صرف ان گاڑیوں کو چلانے کی اجازت ہے جو اخراج کے معیارات پر پورا اترتی ہیں۔ وفاقی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے ساتھ مل کر کام کرنا (مثلاً، سلفر کے مواد کو کم کرنا) اور ملک گیر ماحولیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا۔
لاہور اور نئی دہلی پر چھائے اسموگ کا بحران جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کے سنگین مسائل کی طرف توجہ دلانے کا ایک اہم موقع ہے۔ اگرچہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات میں مشکلات ہیں، لیکن یہ مشترکہ ماحولیاتی چیلنج دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اور تعاون کا ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔ پاکستان کی موسمیاتی سفارت کاری کے لیے شروع کردہ اقدام یہ ظاہر کرتا ہے کہ فضائی آلودگی کے بحران کا حل صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی ضرورت بھی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان مل کر کام کریں تو وہ اپنے شہریوں کے لیے صحت مند مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اور عالمی ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔
پاکستان بھارت کے ساتھ ماحولیاتی ڈپلومیسی کو جاری رکھے لیکن اس حد تک بھارت پر مکمل اعتماد مت کریں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اس معاملے میں تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائے گا اور پاکستان کے ساتھ یقینی طور پر اس مسٗلے کا حل تلاش کرے، بہت سے منصوبے و معاہدے کرے،کیونکہ بھارت ہمیشہ ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے،لیکن پاکستانی حکومتی خاص طور پر پنجا ب حکومت یقینی بنائے کے جس طرح بھارت میں ماحولیاتی آلودگی،فضائی آلودگی سے شرح اموات کی بد ترین صورت حال ہے جس میں زیادہ تر بچے شامل ہیں جو کہ پوری دنیا کے لئے تشویش کا باعث ہے اس خطرے سے پاکستانی عوام کو محفوظ بنانے کے لئے سر توڑ محنت کرے، پاکستانی عوام کو بنیادی طور پر فضائی آلودگی سے دور کرنے سموگ سے نجات دلانے کے لیے بروقت جلد از جلد کچھ اہداف طے کرے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستان کا شہر لاہور دنیا کے اوسطََ کم فضائی آلودگی والے شہروں میں شمار ہوسکے۔