کاش مسلم حکمران بھی اپنے پیغبرؐ کی شان میں ریلی نکالتے

Published on January 17, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 359)      No Comments

Afsar-Mir1
پیرس میں فرانس کے ہفتہ وار جریدے چارلی ایبڈو پر حملے کے خلاف دنیا کے چالیس صلیبی ملکوں کے سربراہوں نے ریلی نکالی۔ اس ریلی میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ٹھیک ہے دہشت گردی چاہے کسی بھی مذہب کے افراد کریں وہ دہشت گردی ہے ۔ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ بس دہشت گرد ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کرنے والوں کے نام اسلامی تھے جس کی وجہ سے ان کی شنا خت اسلام کے نام سے ہوئی۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے ہم اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے شکار ہونے والوں سے ہمدردی کرتے ہیں۔ اتوار کو پیرس میں لاکھوں افراد نے احتجاجی مارچ میں شرکت کی۔یہ احتجاج پیرس میں توہین آمیز خاکہ شائع کرنے والے ہفت روزہ چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے، جس میں ۱۲؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔دو افراد نے نقاب پہنے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ فرار ہوتے ہوئے پولیس سے جھڑپ کے دوران دو اہلکار بھی ہلاک ہو گئے۔سیکورٹی اداروں نے فوراً سرچ آپریشن شروع کر دیا اور متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ اُدھر فرانس کے صدر نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ اس فرانسیسی ہفت روزہ رسالے نے ۲۰۱۳ء میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی کارٹون شائع کیے تھے۔جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدیدر دِ عمل کا اظہار کیا تھا۔مذکورہ رسالے کے دفتر پر ۲۰۱۱ء میں بھی ایسی ہی حملے کی کوشش کی گئی تھی۔نہ جانے صلیبیوں کو کب سمجھ آئی گی کہ اللہ کے سارے پیغمبر ؑ سب دنیا کے لیے قابل احترام ہیں۔ اسلام میں تو پیغمبروں ؑ کو ماننے کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ۔کجا کہ کوئی ان کی شان میں گستاخی کرے۔ رشدی نام کے ملعون نے پیغمبر ؐکے خلاف زبان بازی کی اور کتاب چھاپی جس پر امام خمینی ؒ نے اس کے قتل کا فتوا جاری کیا تھا جو آج تک ایگزسٹ کرتا ہے۔ اس کو مسلم سوسائٹی سے خارج کر دیا گیا ہے اب تک چھپ کر زندگی گزار رہا ہے۔ اس طرح بنگال کی تسلیمہ نسرین نے بھی ایسی ہی گستاخی کی تھی ۔ ا س کو بھی مسلمان سوسائٹی سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ملالہ نے جب ان دونوں کے لیے اپنی کتاب میں کچھ کلمات لکھے تو وہ بھی اسلامی سوسائٹی میں ناپسندیدہ ٹھیری ہے۔ اسی حرکت کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت اس سے نفرت کرتی ہے۔ چاہے صلیبیوں نے اسے نوبیل انعام سے ہی کیوں نہ نواز دیا ہو۔ صلیبی اپنی آزاد سوسائٹی میں ایسے لوگوں پر گرفت نہیں کرتی۔ اس لیے آ ئے دن یہ اللہ کے رسولؐ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں۔ آخری رسولؐساری دنیا کے لیے رسولؐ بناکر بھیجے گئے تھے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں نفرت اور اشتعال پھیلانا ہر گز آزادی اظہار خیال نہیں بلکہ مجرمانہ فعل ہے۔یورپ میں یہودیوں سے متعلق ہولو کاسٹ پر بات کر نا جرم اور قابل سزا ہے ۔ جب کہ اس میں مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ کیا مسلمانوں کو ہی اتنا کم تر سمجھ لیا گیا ہے کہ آئے دن اللہ کے آخری پیغمبرؐ کی شان میں گستاخیاں کی جائیں۔ صلیبیوں کو یاد رکھنا چاہیے کی ڈیڑھ ارب مسلمانوں نے نہ پہلے ایسی گستاخی کو برداشت کیا ہے نہ آیندہ برداشت کرے گی۔ مسلمان رسول ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا آخری دم تک پیچھا کرے گی انہیں چین سے نہیں رہنے دی گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف سمتوں سے اخبارات میں یہ خبریں بھی لگ رہیں ہیں کہ کہیں یہ بھی ۹؍۱۱ والی چال تو نہیں ہے۔ جس کی آج تک تحقیقات سامنے نہ آ سکیں۔اس واقعہ کے وقت بش نے کہا تھا کہ صلیبی جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پھراس وقت سے لے کر آج تک دنیا کے جادوگر یہودی؍صلیبی میڈیا نے مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا میں کوئی بھی ناروا حرکت ہوتی ہے تو اسے مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ نیٹ پر بھی مسلمانوں کے خلاف مواد ڈال دیاگیا ہے ۔ وکی مسلم کے نام سے ایک پوسٹ نیٹ پر تھی۔اب نہ جانے کس نے ہٹا دی۔ اس کے ۶۰ صفحے کے فوٹو اسٹیٹ میرے پاس موجود ہیں جس میں کہیں بھی دنیا میں کچھ بھی ہوا ہو، کسی نے بھی کیا ہو، اسے مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔ یورپ میں حجاب کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ مساجد پر حملے ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ عدالت کے اندر چاقو کے وار کر کے ایک حجاب پہنے مسلم خاتون کو ظلم کے ساتھ ایک صلیبی وحشی نے شہید کر دیا تھا ۔ کیا آزادی سے اپنی اپنی مذہب؍تہذیب پر عمل کرنے کا حق چھیننا بے انصافی نہیں؟ کیا صلیبی اسی کو تہذیب یافتہ سوسائٹی کہتے ہیں؟کیا ہی اچھا ہو کہ تمام دنیا اس بات پر متفق ہو جائے کہ کسی کی بھی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی اور دل آزاری کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کو چاہیے کہ وہ دوسرے
مذاہب کے سرکردہ لوگوں سے مل کر کوئی ایسی دستاویز تیار کریں جس میں ایک دوسرے کے عقائد اور پیغمبروں ؑ کے باہمی احترام پر مبنی ہو۔ اس مسودے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے اور اسے منظور کرایا جائے۔ کیا دنیا چین سے نہیں رہنا چاہتی؟ کیا دنیا میں انصاف صرف ترقی یافتہ قوموں کے لیے ہے کمزور قوموں کے لیے نہیں؟کیا اقوام متحدہ صرف صیلیبیوں کی لونڈی ہے یا سب کے لیے برابری کا احساس رکھتی ہے؟ اگر انصاف ہے تو سب کے لیے ہے۔ اسلام دشمن رسالے، جس نے ہمارے پیغمبر ؐکی شان میں ناروا خاکے چھاپ کرگستاخی کی اس کی مہذب دنیا کو اس کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ اس کے رد عمل میں اس پر حملہ ہوا۔ ۱۲؍ افراد ہلاک ہوئے جو ایک دہشت گردی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ درست ہے ۔ ان ہلاکتوں پر ان سے یکجہتی کے لیے جو چالیس ملکوں کے سربراہوں کی زیر قیادت لاکھوں نے ریلی نکالی وہ بھی درست ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ وہ اقوام متحدہ سے اس بات کامطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے پیغمبر ؐ کی شان میں گستاخی کیوں کی گئی؟ اس کا جوب دیا جائے اور آیندہ گستاخی نہ کی جائے۔ کاش ڈیڑھ ارب آبادی والے ۶۵مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اپنے پیغبرؐ کی شان میں ریلی نکالتے! اس سے پیغمبر ؐاسلام سے اظہار یک جہتی ہوتا۔ مل بیٹھ کر اس کی پلاننگ کرتے۔ اور دنیا پر واضع کرتے کہ ہم اپنے پیغمبرؐ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے۔ ہم کبھی بھی ایسی گستاخی اور توہین آمیز خاکے برداشت نہیں کریں گے۔ اگر ایسی حرکتیں نہ روکی گئیں تو پھر ایسے گستاخی کرنے والوں کو نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کو بھر پور احتجاج کرنا چاہیے۔ قانون کا احترام ہونا چاہیے۔ تیش میں آکر کسی کی جان نہ لینی چاہیے۔ یہی ہمارے پیارے پیغمبر ؐ کی تعلیمات ہیں۔ قرآن کہتا ہے کسی ایک انسان کی جان لینا ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات پر عمل کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں مذمتی قرداد پیش کی گئی جسے اکژیت سے منظور کر لیا گیا ۔ اس قرارداد کو یورپی ممالک کے سفارت خانوں اور اقوام متحدہ کوبھیجا جائت گا۔یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے ایسے واقعات روکنے کی درخواست کی گئی۔ قومی اسمبلی کے ارکین نے شاہ راہ دستور پر ایک ریلی بھی نکالی گئی۔ جماعت اسلامی اور دینی جماعتوں کی طرف سے ملک بھر میں بھر پور احتجاج بھی کیا گیا۔ جماعت اسلامی کی طرف سے کراچی میں سیکڑوں جگہوں پر مظاہرے ہوئے۔ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے فرانس کے کونصل خانے کو پر امن طور پور قرارداد پیش نہ کرنے دی۔ یہاں بھی لاہور جیسے ایک گلو نے سادہ کپڑوں میں مظاہریں پرڈاریکٹ فاہر کئے جس کو الیکٹرونک میڈیا نے اسکرین پر دکھایا۔ لوواٹر کینن استعمال کی گئی۔آنسو گیس استعمال بھی کی گئی۔ جس سے دو صحافی شدید زخمی ہوئے۔ کئی کارکن بھی زخمی ہوئے ۔درجنوں کورکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题