ارمان ِ دل

Published on March 8, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 730)      No Comments

Uzma
قسط نمبر  7
رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا
یہ کھانا کہاں لے کر جا رہی ہو؟؟؟؟مسکان کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے پوچھنے لگی۔
امی۔۔۔وہ۔۔۔!!رک رک کر بولتے ہوئے۔
وہ ۔۔۔۔گڑیا کے لیے۔۔۔!!
سمجھا دینا اسے اس لڑکے سے بات چیت ختم کر دے تو ہی بہتر ہے،ورنہ میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گی۔۔۔وہ غصہ سے کہتے ہوئےخود سونے کے لیے کمرے میں چلی گئیں۔
شکر ہے۔۔۔۔۔
دادا،دادی نہیں ہیں یہاں۔۔۔
ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا۔۔۔۔!ثریا کے جانے کے بعدخاموشی سےخود سے باتیں کرنے لگی۔۔۔!
مسکان۔۔۔!!
اس وقت یہاں۔۔۔!!صبا تہجد کے لیے وضو کرنے لے لیے اٹھی تھی اسے سیڑھیوں کے پاس کھڑے دیکھ کر پوچھنے لگی۔
ہاں۔۔۔۔!اپنی سوچوں سےآزاد ہوتے ہوئے۔
میں بس گڑیا کے لیے کھانالے کر جا رہی تھی۔۔۔۔ٹرے پکڑتے ہوئے اندر کمرے میں جانے لگی۔
رکو۔۔۔!صبا نے اسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔
آج جو بھی ہوا،بہت برا ہوا۔۔۔
مجھے افسوس ہے امی نے جو کچھ تمہیں کہا۔۔۔وہ تاسف سے بولی۔
کوئی بات نہیں۔۔۔!سنجیدہ ہوکر کہتے ہوئے۔
اچھا۔۔۔۔
سنو۔۔۔!تم جانتی ہو نا۔۔۔کہ۔۔۔
وہ عیسائی مذہب سے ہے۔۔۔۔
سمجھاؤ اس کو۔۔۔!!
جیسا اس نے آج کہا،بہت غلط کہا۔۔۔۔!!
جیسا وہ سوچتی ہے ،ویسا ممکن نہیں۔۔۔
کیونکہ وہ مذہب نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔
تم سے بہت اٹیچ ہے۔۔۔سمجھاؤ اس کو۔۔
پلیز۔۔۔۔۔۔!مسکان خاموشی سے صبا کی ساری باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔!
جی۔۔۔۔۔۔!بے فکر رہیے۔۔اور ٹرے لے کر کمرے میں آنے لگی۔
٭٭٭٭
ویسے۔۔۔!!شرارتی انداز میں۔
اچھی خاصی بے عزتی کی تھی اس لڑکی نے تمہاری۔۔۔شکیل اسے ایک ماہ پہلے  کی بات یاد کرواتے ہوئے ہنس رہا تھا۔
اچھا ۔۔۔۔۔بس۔۔۔بس۔۔
مس انڈرسٹیندنگ ہو گئی تھی انہیں۔۔۔!!وہ اسے وضاحت دینے لگا۔۔۔
انہیں۔۔۔۔۔!!!
واہ ۔۔۔!واہ۔۔۔۔!!!
انہیں لفظ پر زور ڈالتے ہوئے وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
اتنی عزت۔۔۔۔۔!!!!خیر تو ہے نا!!!شرارتی انداز میں پوچھتے ہوئے۔
تم بکواس نہ کرو اب ۔۔۔!!زچ ہو کر ارمان اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہا تھا۔
بکواس۔۔۔۔۔!!یہ بکواس ہے؟؟؟؟؟حیرانگی سے کہتے ہوئے۔
ہاں۔۔۔۔کافی کا کپ منہ کو لگاتے ہوئے۔۔۔۔
یار۔۔۔۔
تم بھی نا۔۔۔!!کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے عجیب نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
کیا دیکھ رہے ہو؟؟؟اس کو یوں اپنی جانب متوجہ  ہوتے ہوئے دیکھ کر اس نے پوچھا۔
کچھ نہیں۔۔۔۔!
بس دیکھ رہا ہوں کہ تم  دور کیوں بھاگتے ہومحبت سے ؟؟؟سنجیدہ ہو کر اس نے پوچھا۔
ویسے محبت سے ڈرتے ہو یا لڑکی ۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے لڑکیوں سے۔۔۔فوراََشرارتی لہجے  میں پوچھنے لگا۔۔۔!
آپس کی بات بتاؤں۔۔۔۔!!
دونوں سے۔۔۔۔!!!!آنکھ مارتے ہوئے  قہقہہ لگا کر اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے وہ بسکٹ کو چائے  کے ساتھ کھانے لگا۔۔۔!
اف ف ف ف ف ف ۔۔۔!!!اس کی بات سن کر شکیل بھی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
اچھا۔۔۔مسکراتے ہوئے  اس نے کہا۔
شام کو ملاقات ہوتی ہے اب۔۔۔!
 بہت کام ہے ابھی۔۔۔۔اس نے فائلز کو پکڑتے ہوئے کمپیوٹر آن کیا۔
اوکے۔۔اوکے۔
تم اور یہ کام۔۔۔!مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
عجیب پاگل انسان ہے۔۔۔!مسکراتے ہوئے اس کی بات کو ذہن میں لیے ارمان خود سے باتیں کرنے لگا۔
٭٭٭٭
میں امی سے کروں گی بات۔۔۔!!
بے فکر رہو۔۔۔!!!
مگر وعدہ کرو تم کل والی حرکت اب کبھی نہیں دہراؤگی۔۔۔!!اسے سمجھاتے ہوئےوہ بولی۔
وعدہ نہیں کر سکتی میں۔۔۔وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہو کر بولی۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔مسکان قدرے خفگی سے بولی۔
پھر میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔!!
گھر ہی بیٹھو تم۔۔۔ناراض ہوتے ہوئے۔
چھوڑ دو کالج ۔۔۔!پڑھائی سب کچھ۔۔۔۔!!
آپی ۔۔۔!
آپی ۔۔۔گڑیا مسکان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہوئےبولی۔
اچھا۔۔
ٹھیک ہے۔۔
میں کوشش کروں گی۔۔۔!آخر گڑیا نے اتنا ہی بولا۔
کوشش؟؟؟وہ حیرانگی سے بولی۔
نہیں۔۔۔!!!
تمہیں وعدہ کرنا ہو گا مجھ سے۔۔۔۔!
ٹھیک ہے۔۔!!گڑیا مسکان کی بات مان تو گئی تھی مگر مسکان اندر  ہی ا ندر سے پریشان ہو نے لگی۔۔۔
خوش اب۔۔۔!!مسکان سے پوچھتے ہوئے گڑیا نے سوالیہ انداز میں کہا۔
ہاں۔۔۔!!مسکان مسکر ائی۔
بس آپی۔۔۔!!
آپ مجھ سے ناراض مت ہوا کریں۔۔!وہ نمی والے لہجے میں بولی۔
اچھا۔۔۔
ٹھیک  ہے۔۔۔
نہیں ہوتی ناراض۔۔۔!!!اس نے اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے اسے گلے لگایا۔
٭٭٭٭
امی۔۔۔
آپ اس کے کالج جانے پر توپابندی عائد مت کریں۔۔۔!!
پلیز۔۔۔وہ ثریا کو سمجھاتے ہوئے  اس سے بات کرنے لگی جبکہ ثریا  اپنا منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئی۔
امی۔۔۔۔!!
پلیز۔۔۔۔!وہ ثریا کے بالکل سامنے آکھڑی ہوئی ۔
دیکھیں نا!
وہ مان گئی ہے۔۔۔۔۔۔وہ نہیں بات کرے گی کاشف سے۔۔!
پلیز ۔۔!
امی!مان جائے نا۔۔۔!بار بار ضد کرتے ہوئے اسے منا رہی تھی جبکہ صبا بیسن پر ہاتھ دھوتے ہوئے ان دونوں کو دور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
امی ۔۔۔!پلیز۔۔۔!
صبا۔۔۔تم ہی سمجھاؤ نا امی کو۔۔!دور سے صباکو آتا دیکھ کر اس سےدرخواست کرنے لگی۔
امی۔۔۔۔چھوڑیے ناغصہ۔۔۔!
وہ بے چاری دو دنوں سے بہت رو رہی ہے۔۔۔۔!!صبا اسے منانے کی کوشش میں آخر کارکامیاب ہو ہی گئی۔۔!
اچھا۔۔۔!اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔!
لیکن کل کو کوئی مسئلہ ہوا تو ذمہ دار تم ہی ہو گی مسکان۔۔!اس کو اس کا نام لے کر کہتے ہوئے ثریا نے دھمکایا۔
امی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔۔۔!مسکراتے ہوئے اس نے یقینی  الفاظ میں کہا۔
شکریہ امی۔۔۔!دھیما دھیما سا مسکراتے ہوئے کہنے لگی ،کیونکہ وہ خوش تھی کہ وہ مان گئیں ہیں۔
٭٭٭٭
زندگی بھی نا! نجانے کتنے کتنے اسبا ق دیتی ہے۔
کتنے غم ۔۔۔کتنی تکلیفیں۔۔۔!
مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ زندگی کو خود  کتنا کچھ جھیلنا پڑا ہو گا ان غم اور تکلیفوں کے بیچ میں۔
ہر کوئی محبت کے لیے ہی  زندگی  کو اپنا تا بھی ہےاور بعض  اوقات بدگمان بھی ہو جاتا ہے ۔۔۔!
جیسے میں نے امی کی محبت کی خواہش کے لیےزندگی کو اپنایا اوروہ مجھ سے بدگمان ہیں۔۔۔!
لیکن میں بھی کیا سوچ رہی ہوں۔۔!
انہیں تو مجھ سے محبت ہی نہیں۔۔۔۔
جہاں بدگمانیاں ڈیرے ڈال لیں وہاں محبت کی گنجائش بھلا کب نکلتی ہے ۔۔۔!مسکان لیمپ کی روشنی میں  کرسی پر بیٹھی میز پر ڈائری  رکھے قلم سے اپنے احساسات تحریر کر رہی تھی۔
امی کو سوتیلے پن کے طعنوں  سے فرصت نہیں ملتی اور دوسری طرف گڑیا ۔۔۔!!اس نے لکھتے لکھتے ایک نظر گڑیا پر ڈالی جو بیڈ پر سوچکی تھی۔۔۔۔!
کتنی محبت کرتی ہے نا مجھ سے۔۔۔۔۔۔
میرے لیے اپنی محبت  کو قربان کر دیا۔۔۔
آج میری بات مان کر مجھ سے وعدہ کرکے ،گڑیا نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی ہےکہ میں بیان نہیں کر سکتی۔۔۔!!لکھتے لکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے۔۔۔
نجانے امی ۔۔۔!!کب یہ سوتیلاپن کا لیبل ہٹائیں گی مجھ سے۔۔۔!!
نجانے کب۔۔۔؟؟؟؟؟؟بڑا سا سوالیہ نشان ڈالتے ہوئے ڈائری کو بند کرکے آنسوؤں کو صاف کرنے لگی۔۔۔!
٭٭٭
سوری ۔۔۔مس مسکان۔۔۔!!
سوری کہ میں نے  اتنے غصہ میں  آپ  سے بات کی۔۔۔!مسکان کے اس کے کمرے میں آتے ہی جواد نے شرمندگی سے اٹھ کھڑا ہوا اور معذرت کرنے لگا۔
اٹس او کے ۔۔۔!وہ بات کو جلد ی سے ختم  کرتے ہوئے وہاں سے جانے لگی۔۔۔!
بیٹھیئے ۔۔!!مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔!اس کو آواز لگاتے ہوئے وہ تیزی سے بولا۔
جی۔۔۔۔!
میں ٹھیک ہوں یہاں۔۔۔۔
آپ کہیئے۔۔۔!وہ وہیں کھڑی رہی۔
اس کا مطلب ہے ۔۔۔آپ نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔!وہ اس پر گہری  نظر ڈالتے ہوئے  کہنے لگا۔
نہیں۔۔!!
ایسی بات نہیں ہے۔۔!!مسکان بمشکل مسکراپائی تھی۔
٭٭٭
آپی ۔۔!!اس کو گہری سوچوں میں دوبا دیکھ کر  گڑیا اس کو پکارنے لگی۔۔۔!!
آپی ۔۔۔۔۔۔!!اس کا جواب نا پا کر  وہ دوبارہ پکارنے لگی۔
آپی۔۔۔۔۔۔!!اس کو ہاتھ لگا کر ہلانے لگی۔
ہاں۔۔۔!
ہاں۔۔۔۔!!وہ اپنی سوچوں  سے آزاد ہوئی۔
کیا ہوا؟؟؟؟
کہاں گم ہیں آپ؟؟؟اس سے جواب طلب کرتے ہوئے
کچھ نہیں۔۔۔۔!!!
بس آج تھک بہت گئی ہوں۔۔۔!!تھکن کا اظہار  کرتے ہوئے اس نے انگڑائی لی۔
اچھا۔۔۔۔
چائے پئیں گی؟؟؟پیشکش کرتے  ہوئے وہ مسکرائی ۔
نہیں!کافی بنا لاؤ۔۔!بالوں کو باندھتے ہوئے  منہ پر  ہاتھ پھیرنے لگی۔
اچھا۔۔۔!!
ابھی لائی۔۔۔۔!مسکراتے ہوئے گڑیا  وہاں سے چلی گئی۔
مسکان۔۔۔۔ثریا  اس کے کمرے میں آتے ہی اس سے مخاطب  ہوئی۔
امی۔۔۔۔!مسکراتے ہوئے وہ بولی۔
آپ۔۔۔۔!آئیے ۔۔۔!بیڈ پر پاؤں سمیٹ کر  بیٹھتے ہوئے اس نے اسے  بیٹھنے کے لئے جگہ دی۔
کیسی ہو میری بچی۔۔۔!!وہ مکروفریب سے میٹھا لہجہ استعمال کرتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
  جی۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔!وہ اس کی میٹھی گفتگو کو سمجھنے  کی کوشش کرتے ہوئےاسے  بغور دیکھ رہی تھی۔
وہ ۔۔۔۔مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی میری بچی۔۔
جی۔۔۔!!امی۔۔۔۔!!!
کتنے پیسے؟؟؟وہ جواباَََ پوچھنے لگی۔۔
کچھ زیادہ نہیں۔۔
یہی کوئی  دس ہزار۔۔۔!!وہ سنجیدہ ہو کر بات کو عام سمجھ رہی تھی۔
دس ہزار ۔۔۔!!حیران ہوئی
ہاں!!
اصل میں صبا کے سسرال والے دن مقرر کرنے آرہے ہیں۔۔۔
اب کپڑے دینے اور باقی دوسرے کاموں میں تو پتہ ہی نہیں لگنا پیسے کہاں گئے۔۔
پیسے بھلا کب کچھ بناتے ہیں۔۔۔!!وہ خود کو مجبور پیش کرتے  ہوئے کہہ رہی  تھی۔۔۔
جی۔۔۔!!مگر امی۔۔ابھی تو نہیں ۔۔۔وہ معذرتانہ لہجہ مہں کہنے لگی۔
 دس دن تک سیلری آئے گی پھر۔۔۔!  
ارے۔۔۔!بی بی۔۔۔۔!
تم سیدھا اور صاف صآف کہو کہ تم دینا ہی نہیں چاہتی ۔۔۔!!اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ ذرا تلخ  لہجےمیں بولی۔
امی۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔!!
پہلی سیلرے ساری آپ کو ہی دے دی تھی۔۔۔!!
اب دس ہزار  تو نہیں ہیں صرف دو ہزار ہی ہیں گاڑی کے کرائے کے لئے ۔۔۔
کہتی ہیں تو یہ دے دوں؟؟؟وہ بیگ میں سے روپے نکالتے ہوئے اسے پکڑانے لگی۔
رکھو تم یہ پاس۔۔۔۔!!
میری غلطی جو تم سے کہنے کے لئے آگئی  ۔۔۔وہ خود کو مجبور پیش کرتے ہوئے غصہ  سے کہہ کر اس کے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئی ،جبکہ مسکان کی آنکھوں   میں آنسو  بہنے لگے تھے۔۔۔۔!
یہ لیجیئے گرما گر م کافی۔۔۔!ٹرے لے کر آتے ہوئے گڑیا مسکرا رہی تھی۔
کیا کہہ رہی تھیں امی۔۔۔!مسکان   سے  پوچھتے ہوئے  اس نے   اسے کپ پکڑیا ۔
کچھ نہیں۔۔۔!!!کافی کا کپ پکڑتے ہوئے  وہ بمشکل مسکرائی ۔
ام م م ۔۔۔
تو اتنی سنجیدہ کیوں ہیں آپ؟؟؟؟
کچھ تو کہا ہے انہوں نے  جو آپ بتا نہیں رہیں۔وہ اس کی سنجیدگی   کو جانچ  کر سوال کرنے لگی۔۔۔!!
کچھ نہیں گڑیا۔۔۔!وہ زچ  ہو کر بولی اور گڑیا اس کا لہجہ دیکھ کر خاموش  سی ہو گئی ۔
خیر۔۔۔!!خود کو نا رمل کرتے ہوئے مسکان نے مسکرانے کی کوشش کی۔
کافی بہت مزے کی بنائی ہے  تم نے ۔۔بات  کو بدلے ہوئے  اس کی تعریف کرنے لگی ،جس سے  گڑیا قدرے دل سے مسکرائی ۔
شکریہ۔۔۔۔شکریہ۔۔۔۔گہری مسکراہٹ لئے  وہ  خوش ہوئی۔
٭٭٭
ارمان بھائی۔۔۔!!!شاہ میر نے اس کو  سیڑھیوں سے اوپر جاتا دیکھ کر آواز لگائی۔
ہاں!!!وہ مڑتے ہوئے مسکرایا۔
کیا بات ہے؟؟؟؟
بھائی۔۔۔۔!!
وہ۔۔۔ہچکچاتے ہوئے  شاہ میر  رک رک ک بولنے لگا۔۔۔
اوہ۔۔!ہو۔۔۔!!
خیر تو ہے نا؟پریشان ہوکر اس نے پوچھا۔
جی۔۔۔۔!
وہ اصل میں آپ کی گاڑی کا ٹائر پنکچر کر دیا۔۔۔۔!!وہ ذرا ڈرتے ڈرتے اور ذرا دھیما سا مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ٹائر پنکچر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟حیران ہوتے ہوئے وہ یکدم چونکا۔
ابھی میں خود ڈرائیو  کر کے ہی آیا ہوں۔۔۔!!
یہ 5 منٹ میں۔۔۔۔!وہ  بات کی وجہ جاننے کے لئے وضاحت  دینے لگا۔۔۔
5 منٹ میں تو کیا 5 سیکنڈ میں بھی کچھ  بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔حیا  قہقہہ لگا تے ہوئے  ہنستے ہوئے کوریڈور میں داخل ہوئی ۔
ارمان  نےایک نظر شاہ میر  کی طرف  ڈال کر حیا کی      طرف دیکھا جو زور زور  سے ہنس رہی تھی۔۔
مطلب؟؟؟ وہ جواب لینے کی غرض سے پوچھ رہا تھا۔
مطلب یہ کہ ۔۔۔۔!!!ہنس ہنس کر بات مشکل سے کر رہی تھی۔۔۔
رات کو۔۔۔۔!!
اچھا۔۔۔۔!!حیا کی بات کاٹتے ہوئے ارمان ان دونوں کی  شرارت کو سمجھنے کے بعد ان دونوں سے مخاطب ہوا۔
اب سمجھا۔۔۔
یہ تم دونوں کی حرکت   ہے۔۔۔
رات کو ٹریٹ نہیں  دی تو یہ۔۔۔۔۔!!!
تم لوگوں نے بدلا پورا کیا؟؟؟وہ خفگی سے بول رہا تھا۔
جی۔۔۔۔بالکل۔۔۔۔
اب آپ کو منہ لٹکانے کی ضرورت  نہیں۔۔۔!!حیا منہ چڑھاتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔
حیا  کی بچی۔۔۔۔!
آج میں ضرور دیتا ٹریٹ ۔۔۔۔!!
مگر اب تو بالکل بھی نہیں ۔۔۔!وہ ان دونوں کو ڈانٹ رہا تھا۔۔۔
ٹھیک  ہے۔۔۔!
اب آفس ۔۔۔بس میں جائیے ارمان حسن ۔۔۔حسن انٹرپرائز  کے لخت جگر۔۔۔۔شاہ میر قہقہہ   لگا کر ہنسا اور حیا نے بھی  اس کا بھر پور ساتھ دیا۔
چھوڑوں گا نہیں تم دونوں کو۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولا۔
تو کون کہہ رہا ہے چھوڑیں ۔۔۔۔حیا ہنستے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔!
  کر دیں گے ۔۔۔ اینی وے ۔۔۔ہم آپ کو ڈراپ
اگر آپ۔۔۔!وہ شرطیہ گفتگو کررہی تھی۔۔
کیا؟؟؟؟وہ “اگر” کہنے کی وجہ جاننے لگا۔۔۔
۔۔۔simple
آج بیچ پر بھی لے کر جانا ہو گا اور ہوٹل بھی۔۔۔!!
شاہ میر اس کی بات کا جواب دینے لگا۔۔۔
کمینے ہو تم لوگ۔۔۔!!
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔!!
  میں لیپ ٹاپ لے کر آتا ہوں۔۔۔!وہ فوراَََسے سیڑھیاں چڑھتے  ہوئے مسکرانے لگا۔۔۔
ویسے ۔۔۔۔
تم لوگ خود بھی جا سکتے تھے۔۔۔۔
   بیچ اور ہوٹل ۔۔۔۔۔وہ لیپ ٹاپ لے کر نیچے اترتے ہوئے ان دونوں  سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔!!
ہاں۔۔۔شاہ میر ارمان کی طرف دیکھنے کے بعد  حیا کی طرف  دیکھ رہا تھا۔۔۔
مگر مفت میں جانے کا مزہ ہی اور ہے۔۔۔!!دونوں ہنستے ہوئے ایک دوسرے  کے ہاتھ پر یاتھ مارتے ہوئے باہر گیراج کی طرف جانے لگے ۔۔ارمان ان دونوں کی ملی بھگت پر مسکرائے جا رہا تھا۔
٭٭٭
جاری ہے
 

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme