یوم ماں،30برسوں میں کشمیر کی لاتعداد ماؤں کی گود خالی ہوچکی ہیں سلسلہ اب بھی جاری ہے

Published on May 14, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 1,448)      No Comments
سری نگر(یو این پی)یوم مادر کیلئے دنیابھر میں اگر چہ مختلف اصطلاحیں ہو سکتی ہے تاہم کشمیر ی ماؤں کیلئے اس کا الگ ہی معنی اور تعریفیں ہیں۔ وادی میں گزشتہ30برسوں سے لاتعداد ماؤں کی گود خالی ہوچکی ہیں،اور اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ماؤں کے دل پر لگے زخم اور جگر گوشوں کی بچھڑ جانے کا غم ان کیلئے ایسا درد ثابت ہو رہا ہے جس کو چاہتے نہ چاہتے بھی فراموش نہیں کر پار ہے ہیں۔خون کے دھبوں میں لپٹیں وادی میں یوم مادر بے بس اور اشکوں سے لبریز آنکھوں میں صرف اپنے جگر پاروں کیا یادیں لیکر آتا ہے،اور ان ماؤں کیلئے صبر کا دامن تھامنے کے سوا اور کوئی چارہ اور چارہ گر بھی نہیں۔1990سے ہی وادی میں ماؤں کی گود اجڑنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ان کے جگر بھی چھلنے ہوئے،اور ان زخموں پر سالہا سال گزر جانے کے بعد بھی زخموں پر مرہم نہ لگنے کی وجہ سے وہ ابھی بھی رس رہے ہیں۔2008کے بعد2010اوراب گزشتہ برس کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران زائد از300شہری جان بحق ہوئے جس میں اکثریت کمسنوں اور طلبہ کی تھی۔ طفیل متو،زاہد فاروق،وامق فاروق،عمر قیوم، دانش سلطان،مومن شفیع،جنید احمد سمیت درجنوں چھوٹے اور معصوم بچوں کے سینوں کو چھلنی کیا گیا اور انکی ماؤں کے ہاتھوں میں انکی لاشیں سونپی گئی۔ وادی میں گزشتہ برس حزب کمانڈر برہان وانی کے جان بحق ہونے کے بعد شروع ہوئی احتجاجی لہر کے دوران بیسوں طلاب جان بحق ہویں جن میں دانش سلطان ہار و نامی 7ویں جماعت کا طالب علم بھی شامل ہے۔اہل خانہ کے مطابق2ستمبر کو دانش باہر گیا تھا اور اس دوران کسی علاقے میں سنگبازی کے بعد پولیس اس علاقے میں داخل ہوئی اور چھوٹے بچوں کو پل پر دونوں اطراف سے گھیرے میں لیا،جبکہ3کمسنوں نے دریائے جہلم میں چھلانگ ماری دی۔2 نوجوان اگرچہ دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تاہم دانش کامیاب نہ ہوسکا اور غرقاب ہوا۔اہل خانہ کا الزام ہے کہ فورسز اور پولیس نے دریا میں بھی اس پر پتھرؤں سے وار کیا۔ دانش کی والدہ کیلئے یوم مادر اپنے جدا ہوئے لخت جگر کی یاد میں آنسوں بہانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔دانش کی کتابیں،وردی،جرابے اور جوتا آج بھی سلیقے سے رکھا گیا ہے،اور اس کی والدہ اپنے بیٹے کے ان چیزوں کو دیکھ کر خون کے آنسو بہا رہی ہے۔دانش کی والدہ کا کہنا ہے وادی میں طلبہ کے احتجاجی لہر کے بعد اسکول بند کھل بھی رہے ہیں اور بند بھی ہو رہے ہیں،تاہم اسکا معصوم بیٹا قبر میں ہے ،اسکول میں نہیں۔اسکا کا ماننا ہے کہ اب بھی انہیں اس بات کا حساس ہو رہا ہے کہ دانش ابھی گھر آئے گا۔دانش کے والد محمد سلطان نے بتایا دانش کی جدائی کے بعد اس کی والدہ نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہوگئی اور اسکا علاج اب بھی جاری ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر چہ میں اپنی اہلیہ کا دل بہلانے اور اس کی توجہ دیگر چیزوں کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہو،تاہم وہ صرف اپنے بیٹے کی رٹ لگائی بیٹھی ہے۔ دانش ہی نہیں بلکہ سعید پورہ سرینگر کے جنید کی والدہ بھی اپنے جگر پارے کی جدائی میں نڈھال ہے۔8اکتوب کو اپنی ہی گھر کے باہر پیلٹ بندوق کا نشانہ بنے جنید کی والدہ نے ضد کی کہ اس کے بیٹے کو مزار شہدا میں نہیں بلکہ علاقے میں ہی سپرد خاک کیا جائے تاکہ وہ اپنے معصوم کی قبردیکھا کرے ۔جنید کی والدہ کا کہنا ہے میری دنیا ہی اجڑ گئی اور میرے جینے کا سہار مجھ سے چھوٹ گیا دیگر بچوں کو اسکولی وردیوں میں ملبوس بیگ کندھے پر اٹھائے جنید کی والدہ انہیں دیدہ تر ہوکر دیکھتی ہے،شاید اس بھیڑ میں وہ اپنے بچے کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سرینگر کے ہارون علاقے سے تعلق رکھنے والا ناصر شفیع قاضی بھی17ستمبر کو پیلٹ کا شکار بنا۔7ویں جماعت کے اس طالب علم کی والدہ جہاں بیٹے کے جانے کے غم سے نڈحال ہے وہی،وہ دیوانہ وار اپنے جگر پارے کی جدائی کو محسوس کر رہی ہے۔ناصر کی والدہ کو جیسے یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بچھڑ گیا ہے،اور وہ اب روزحشر ہی اس سے ملاقی ہوگی۔طفیل متوکی ماں جہاں حصول انصاف کے انتظار میں دن گزا رہی ہے وہی 11ویں جماعت کے طالب علم جاوید ماگرے کی والدہ کا جگر افسپا کے نشتر سے چھلنے ہوا اور14برس کے بعد بھی اس کو انصاف نہیں ملا۔
Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog