خطبۃ حجۃالوداع

Published on December 26, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 365)      No Comments

\"Madni\"
خطبۃ حجۃالوداع کواسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔خطبۃ حجۃالوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے پہلامنشورانسانی حقوق ہونے کااعزازہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔ ذی قعدہ ۰۱ہجری میں آپ ﷺنے حج کاارادہ کیایہ حضورﷺ کا پہلااورآخری حج تھا۔ اسی حوالے سے اسے \” حجۃالوداع \”کہاجاتاہے۔یہ ابلاغ اسلام کی بنیادپر’حجۃالاسلام‘،’حجۃ التمام‘اور’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی موسوم ہے اس حج کے موقع پرآقاء نے جوخطبہ ارشادفرمایااسے’’ حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔آپ ﷺ کے حکم سے قصوء اونٹنی پرکجاواکساگیااورآپ ﷺ قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت اآپ ﷺکے گردایک لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزارانسانوں کاسمندرٹھاٹھیں ماررہاتھاآپ ﷺنے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کیاجارہاہے تاکہ مصطفی کریمﷺکے ان ارشادات کا مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کاجوتذکرہ کیاگیاہے،اس کا بنظرغائر مطالعہ کریں۔
آپ ﷺنے اللہ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔’’اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیںیہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔سنو!اللہ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اللہ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اللہ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔

اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اللہ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی کی سنت۔اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمھیںیہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔کسی عمل کوصرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواللہ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس ا?تی ہے اس حال میں وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان سے ان کو کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اللہ کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ جملہ سرکار دوعالمﷺنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حضورﷺپڑوسی کو وارث نہ بنادیں)اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکارکے لیے پتھر۔جو شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد)
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہآپ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضورﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:اے اللہ!توبھی گواہ رہنا،اے اللہ!توبھی گواہ رہنا،اے اللہ!توبھی گواہ رہنا‘‘۔(بحوالہ:ضیاء النبی،ج۴،ص۳۵۷تا۸۵۷،سیرت مصطفی۹۹۳،سیرت رسول اکرم۷۷۲)۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Weboy