الف سے الو، ب سے بلی

Published on February 9, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 458)      No Comments

\"unnamed\"
الف ۔۔۔مردہ باد ۔۔۔۔۔۔۔ \”ب\” زندہ باد۔۔۔۔۔ \”ب\” قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔۔۔۔ \”ب\” تیرے جان نثار بے شمار۔۔۔۔۔اب راج کریگی \”ب\”۔۔۔۔۔جئے \”ب\”۔۔۔۔
یہ وہ نعرے ہیں جو ہم روزانہ سڑکوں پر، چوراہوں پر،پریس کلبوں پر،ریلیووں میں، جلسوں میں، جلوسوں میں اوردھرنوں میں سنتے ہیں اور ہمارا ذہن اسی کو سیاست تسلیم کرتا ہے مگر اس میں ہمارا قصور کیا ہے کیوں کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تو یہی چیزیں ہم نے سیاست کے نام پر سنی ہیں اور دیکھی ہیں ۔ آج بھی اگر کوئی ہم جیسے جاہل سے کہے کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں تو ہم فورایہی سمجھ لیتے ہیں کہ اس کا کام بھی شور وغل کرکے ماحول میں صوتی آلودگی پیدا کرنا ہے اوروال چاکنگ اور پوسٹروں کے زریعے شہر کی خوبصورتی پر کاری ضرب لگانے کا زمہ دار بھی یہی شخص ہے۔ مگر ایک بار پھر ہمارا کیا قصور ہے کیوں کہ ہم نے سیاست کو اتنا ہی ظالم دیکھا ہے۔ کیوں کہ جب بھی ہم نے سیاست کے اس\”الف\” اور \”ب\” کو مطالعہ کرنا چاہا ہے تو ہمارے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں جن کے جوابات ہمارے پاس نہ تھے اگر ہم نے ان سوالات کے جوابات جاننے کیلئے \”ب\” کے حامیوں(حرف عام میں کارکنوں)کے پاس جانے کی کوشش کی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔
اگر دوران مطالعہ ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ \”ب\” جمہوریت کا پاسدار ہے اور\”ب\”کے آباؤ اجداد نے جمہوریت کیلئے قربانی دی ہے اور\”ب \”بھی جمہوریت کیلئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے۔ تو یہ سوال بننا ایک غیر فطری عمل ہے نہ کہ \”ب\” اگر جمہوریت کیلئے جان قربان کرنے کو تیار ہے تو\”ب\” کے حامی وڈیرے کیوں اپنی ہاریوں(کسانوں) کو سالوں قید رکھتے ہیں؟ کیوں کراچی(ڈیفنس) کی جگمگاتی سڑکوں پر ظلم کا شکار بننے والے شاہ زیب کاوالد اپنے بیٹے کے قاتلوں کو فی سبیل اللہ معاف کر کے دنیاوی خداؤں کو خوش کرنے پر مجبور ہوا؟ کیونکہ ہمارے جگاڑی ( ٹوٹے پھوٹے) علم کے مطابق یہ افعال اور ان افعال کے پیچھے چھپے عوامل ہر گز جمہوریت کے عین مطابق نہیں ہیں۔۔
اگر ہم نے غلطی سے یہ سوالات \”ب\” کے کسی جیالے سے پوچھے تو ہمیں جواب ملنے کے بجائے وہ ہمیں \”الف\” کی جانب سے بھیجے جانے والے فدائی سمجھ کردھتکارا اور یہی سمجھا کہ اس نے پوری انسانیت کی خدمت اورانسانیت کوبڑی تبا ہی سے بچا لیا۔۔
اگر ہم جیسے جاہل کو یہ معلوم ہوجائے کہ \”ب\” تبدیلی کا سونامی لانا چاہتا ہے اور اس بوسیدہ نظام سے عوام کوچھٹکارہ دلانا چاہتا ہے۔ تو یہ سوال ذہن میں آناچاہیے ناکہ \”ب\” تبدیلی کی بات کرتا ہے تو \”ب\” کے چاہنے والے مختلف سیاسی تقریبات میں تقریب چھوڑ کر کھانے پر کیوں ٹوٹ پڑتے نظر آتے ہیں؟۔ اور دھرنے کے دوران \”ب\” کے حامی کیوں ڈرائیوروں سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں؟ اگر یہ سوالات ہم نے کبھی کسی سونامی کے چاہنے والے(کارکن) سے پوچھنے کی کوشش کی ہے تو جوابات ملنے کے بجائے اس نے فورا ہم پر یہی الزام لگایا ہیکہ ہم لفافہ خورہیں اور \”الف\” کی جانب سے ہمیں لفافے پہنچ چکے ہیں۔۔۔
اگر یہ معلوم ہو جائے کہ \”ب\” باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے کا پیروکار ہے اور اسی فلسفے کی تبلیغ کیلئے اس نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں تو پھر یہ سوال بھی بنتا ہے نا کہ پھر کیوں کراچی یا پشاور کے کسی کالج یا یونیورسٹی ( جس میں ان کے طلباء ونگ کا ہولڈ ہو) میں کوئی طالبعلم کوئی معمولی غلطی کر بیٹھے تو باچاخان کے عدم فلسفے کے پیروکار \”ب\” کے حامی ( کارکن)اس پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ گھر میں اس کی صحیح طریقے سے شناخت بھی نہیں ہو پاتی؟ اور اگر ہم نے کبھی یہ سوالات باچاخان کے حامی کارکن سے پوچھنے کی کوشش کی ہے توجوابات دینے کے بجائے اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ ہماری بھی حالت اس طالبعلم (Student) کی طرح بنائی جائے جس کی شناخت مشکل ہوگئی تھی۔۔
اگر یہ معلوم ہوجائے کہ \”ب\”بیرون ملک بیٹھا ہوا ہے اور وہ صرف اس وجہ سے ملک نہیں آرہے ہیں کیونکہ وہ مظلوموں کے ساتھی ہیں اور وہ 98%متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اگر وہ ملک آجائینگے تو ظالموں کے ظلم کا شکار بن جائینگے۔ تو پھر ہمارے ذہن میں یہ بات آنا ہماری غلطی نہیں ہے نا کہ \”ب\” مظلوموں کا ساتھی ہے تو \”ب\” کے حامی کیوں کھال نہ دینے کی صورت میں مظلوم کی کھال کھینچتے ہیں یا پھر اس مظلوم جانور ہی کی کھال کھڑکا دی جاتی ہے؟اگر ہم یہ سوالات کبھی \”ب\” کے کسی ساتھی سے پوچھنے کی کوشش کریں تو شاید نوبت ہمارے ہی کھال کھینچنے تک پہنچ جائے۔۔
(اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں) لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کی کیوں آخر باچا خان کا حامی باچا خان کے فلسفے سے ناواقف ہے اور اس پر علم پیرا نہیں ہے؟؟کیوں آخر جمہوریت کا جیالا جمہوریت کے اصل معنی سے نا آشنا ہے؟؟کیوں آخرمظلوموں کے ساتھی کا ساتھی مظلوموں کی کھال کھینچنے پر تلا ہوا ہے؟؟کیوں آخر تبدیلی کے سونامی کا خواہاں تبدیلی کی راہ پر چلنے کو تیار نہیں ہے؟؟کیونکہ سیاست، سیاسی جماعتیں اور سیاسی ادارے کسی بھی شخص کیلئے اسکول،کالج یا یونیووسٹی کے بعددوسری درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں پر مختلف نظریات پر تخلیقی بحث کی جاتی ہے۔ جہاں اختلاف رائے اور تعمیری تنقیدکو علمی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جہاں کارکن کی ذہنی، شعوری،علمی اور سیاسی پرورش اور نشونما کی جاتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاست ایک مخصوص طبقے کی مفادات کے تحفظ کے کھیل کو سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اختلاف رائے اور تعمیری تنقید کو دشمنی اور سازش سمجھی جاتی ہے۔ یہاں سیاست \”الف\” سے الو اور \”ب\” سے بلی کے مترادف مردہ باد اور زندہ باد کے گرد گھومتی ہے مگر اس \”الف\” سے الو اور \’ب\” سے بلی کے پیچھے راز کیا ہے یہ بات قوم کے سمجھ میں آج تک نہیں آسکی ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes