ہمارا تعلیمی نظام

Published on February 20, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 276)      No Comments

\"i102\" 

۔تعلیم ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے دنیا بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے اگر ہم نے تعلیم میں جدت نہ دکھائی تو نہ صرف ہم دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے ہمارا نام ونشان مٹ جائے‘‘ یہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کا فرمان ہے جس کو جتنی اہمیت دی جائے کم ہے مگر ناجانے کیوں تعلیم کو کوئی وقعت حاصل نہیں رہی اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا گوارا نہیں کیا جاتا نہایت قلیل بجٹ کا رونا ہم شروع سے روتے آئیں ہیں اس میں اضافہ ہونا واقعی وقت کی اہم ترین حاجت ہے۔ کیونکہ پسماندہ ترین مُمالک بھی جی ڈی پی کا پانچ فیصداپنی تعلیم کے لیے مختحص کرتے ہیں اور تعلیم کے فعال کے لیے کوشاں رہتے ہیں مگر ہمیں اس پر سوچنا بھی پسند نہیں ۔میں یہ بات وثوق سے کہ سکتا ہوں اس خفیف سے بجٹ میں بھی ہم وہ بہتری لا سکتے ہیں جس کا تعین نہیں کیا جا سکتا بس چند دانشور درکار ہیں جو اس ضعیف نصابِ تعلیم میں کچھ جدت لے کر آئیں۔ تعلیمی نظام طالبعلم کی استعداد کے مطابق ہونا چاہیے مگر اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں کہ اسے روشن خیال تعلیم و تربیت سے بہت دُور رکھا جائے۔تعلیم کے میدان میں پیش رفت نہ آنے کی وجہ یہاں غیر تجربہ کار افسران کااس کی سرپرستی پر قابض ہونا ہے جن کی عدم توجہ نے ابھرتے ہوئے شاگردوں کی ذہنیت کو وسعت پانے سے روک رکھا ہے۔ ہمارا نصاب اخلاقی اقدار سے بِلکُل بھی روشناس نہیں یہ بہانہ کیا جاتا ہے کہ مطالعہ پاکستان سیکولر ہے جب کہ وہ ہماری تاریخ ہے جس میں ہمیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے مطلع کیا جاتا ہے اس بات کا انحصارفرد کی عقل پر ہے کہ وہ لبرلئزم اختیا ر کرے یا سیکولرئزم یہ کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں کے اس مضمون کو نصاب سے ترک کردیا جائے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ صحافی سہیل وڑائچ ایک ادارے میں گئے وہاں پر کسی ایک سوال پر انہوں نے طالبعلم کو شیلڈ دینا تھی مجھے شدید ہیرت ہوئی جب انہوں نے اس طالبعلم کو شیلڈ پیش کی جس کا سوال تھا کہ مطالعہ پاکستان کی ضرورت ہر گز نہیں اسے ہمارے نصاب میں کیوں شامل کیا گیا ؟۔چند سال پہلے پنجاب حکومت کی جانب سے پرائمری اور مڈل کلاس کے امتحانات کروانے کے لیے ایک نئے ادارے کا قیام وجود میں آیا جس کا نام پنجاب ایکزیمینیشن کمیشن ہے جس پر تمام ماہرِتعلیم شروع سے ہی عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں کیونکہ نہ تواس کا پیپر چیکنگ کا طور طریقہ شفاف ہے نہ ہی نظامِ نگرانی طلباء و طالبات بغیر پڑھے ہی اچھے نمبر با آسانی حاصل کر سکتے ہیں مزید یہ ہوا کہ پورا سال مطالعہ پاکستان پڑھایا گیا مگر جب ڈیٹ شیٹ آئی تو اس میں معاشرتی علوم نامی کوئی مضمون نہیں تھا۔یہ تو قصہ تھا (پی ای سی)کا اب بات کرتے ہیں (بی آئی ایس ای) کی جس نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالبِ علموں کو شدید خوار کیا کم کوالیفائیڈ پیپر چیکرز نے طلباء و طالبات کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کیونکہ ان چیکرز کو چند روپے فی پیپر چیکنگ ادا کیے جاتے ہیں یہ لوگ اپنے معاش کی فکر میں کوشش کرتے ہیں کہ جلد از جلدزیادہ سے زیادہ پیپرنمٹالیں ۔جب طالبِ علم ری چیکنک کے لیے ساڑھے سات سو فی پیپر فیس جمع کرواتے ہیں تو انہیں دور کی تاریخ دے دی جاتی ہے کئی دفعہ تو یہ ایکزیمنر احساس کر کے سہی طرح پیپر چیک کر لیتا ہے جب کہ کئی دفعہ وہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑ جاتا ہے کہ میں نے سہی چیک کیا ہے اور اسٹوڈنٹس کے پیسے اس ری چیکنگ کے ضمن میں ہڑپ کر لیے جاتے ہیں ۔دنیا بھر میں تعلیم کو معاشرتی سدھار کے لیے بطورِ ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہو رہا ہے یہاں بے مقصد کہانیاں ہمارے نصاب کا مقدر بنی ہوئی ہیں جو کہ ہمارے اباوُاجداد بھی پڑھ چکے ہیں بس فرق یہ ہے کہ ہمارے بڑوں کے زمانے میں معنی خیز اسباق بھی کتب کی زینت تھے جنہیں رفتہ رفتہ کتابوں سے خارج کیا جاتا ررہا جو کہ اب اِکا دُکا رہ گئے ہیں۔کیوں مسٹر چپس ،سٹیفین لی کوک پڑھایا جاتا ہے جو کہ خود تخلیق کردہ ٹریجڈی اور کامیڈی ہے کیوں خلفائے راشد نہیں پڑھائے جاتے ۔انگریزی سے کیوں اتنی محبت ہے کہ ان کے بے معنی و نامعقول سبق پڑھائے جاتے ہیں اگر انگریزی ناول یا اسباق پڑھانے ہی ہیں تو کیوں اس میں سے عمدہ چیزوں کا چناوُ نہیں کیا جاتا خدارا ٹیکسٹ بُک بورڈ زکے چیرمین ہوش کے ناخن لیں اور کچھ مثبت تبدیلی لے کر آئیں نہ کہ تھوک کے حساب سے نِصاب میں بتدریج اضافہ کرتے چلے جائیں ؟۔یکساں نظامِ تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں اب تک دو درجے پرورش پا رہے ہیں ایک انگلش میڈیم تو دوسرا اردو میڈیم خادمِ اعلیٰ پنجاب کا یہ قدم اس سال اہم رخ اختیار کرنے جا رہا ہے جو خوش آئند ہے اس کی کامیابی کے بعد ملک بھر میں اس نظام کو رائج کیا جائے گا۔اکثر تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی تنظیمیں کافی عرصے سے طلباء کے راستے میں روکاوٹیں حائل کرتی سرہی ہیں جس کے باعث تباہی اور انحطاط نے فروغ پایا اور حصولِ علم کے لیے سچا جذبہ رکھنے والے بھی سہی پرفارمنس نہ دے سکے۔آئے روزسرکاری اسکولز کو ٹھیکے پر دے دیا جاتا ہے یا یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے اوریہ کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب کی نیت چاہے نیک ہے مگر تعلیم کے منتظمین بدعنوانی کو روز بروز پروان چڑھا رہے ہیں جس پر جناب شہباز شریف صاحب کو فِل فور ایکشن لینا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ہماری بدقسمتی ہے کے ہم اب تک 1969 ء کے تعلیمی ایکٹ پر عمل پیرا ہے جب کہ دنیا کہاں کی کہاں نکل چکی ہے۔ چند سماجی ارتقاء کے ماہرین کو آگے لایا جائے جو کہ تدریس میں ممکنہ تبدیلی لے کر آئیں جس میں منفرددرس شامل ہو۔ اے سچ تجھے ہوا کیا ہے آخر اس مرض کی دوا کیا ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog