صنعتی انقلاب

Published on September 12, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 253)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ
ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں متعدد ترقیاتی منصوبے تشکیل دئییگئے ۔ ملک کی صنعتی ترقی کے لئے صوبائی اور وفاقی صنعتی کارپوریشنیں بھی وجود میں لائی گئیں ۔ پرائیویٹ صنعتی اداروں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لے کر بھوکے بھیڑیوں کے سپرد کر دیا گیا ۔ قومی ملکیت میں لینے کا تجربہ بڑی بُری طرح ناکامی سے دو چار ہوا۔ بیوروکریسی نے ہی نہیں ورکروں کی تنظیموں کے لیڈروں نے بھی ان اداروں میں خوب لوٹ مار مچائی ۔ کام چوری ،وقت پر ڈیوٹی نہ آنا آکر تاش کے زریعے جواء کھیلنا ان کا شیوہ رہا۔ افسروں نے بھی ان کی لگامیں اس لئے کھلی چھوڑ دیںتا کہ وہ ان کی لوٹ مار کے کھیل کو جاری رہنے دیں۔ ان دنوں صوبائی صنعتی ادارے بورڈ آف انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کی تشکیل ہوئی ۔ اس بورڈ کے اغر اض و مقاصد نئی صنعتی یونٹوں کی تعمیر کرنا انہیں چلا کر فروخت کرنا تھا ۔ شوگر ٹیکسٹائل ، گتہ فیکٹریوں کے علاوہ رائس انڈسٹریل یونٹوںں کی تعمیر و تشکیل بھی کی گئی ۔ پنجاب میں تیار ہونے والے صنعتی یونٹوں کو بھی لوٹنے کا پروگرام جاری رہا ۔ان دنوں میں نے دوآبہ رائس ملز کے سرانوالی پر اجیکٹ کو بطور ڈرائیر اور ملز انچارج کے طور پر جوائن کیا ۔دوآبہ رائس ملز رواں دواں تھیں ۔ان ملوں کے پراجیکٹ انچارجوں میں سے ایک دو دیانت دار تھے۔ باقی سب لٹیرے ۔انہوں نے خوب مال پانی ایک کیا۔ آہستہ آہستہ ہمارے ساتھی بھی ان سے ملتے گئے حتیٰ کہ ایک عام واچ مین اور ہیلپر سے لے کر آفیسر تک۔
ان اداروں میں نصب ہونے والی مشنری جاپانی اور جرمن کی تھی ۔پانچ پلانٹ جرمن اور ایک جاپان سے درآمد کیا گیا اور یہ پلانٹ بھی کیپسٹی پوری نہیں دے رہے تھے ۔ بعد ازاں نئی انتظامیہ نے انکی کیپسٹی پوری کروانے کی متعدد بار کوشش کی۔مگر لٹیروں اور چوروں ڈاکوئوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ ان ملوں کو فروخت کرنے کی کئی بارکوششیں کی گئیں مگر حکومتی مشینری کو فرصت ہی نہیں مل رہی تھی ۔مزدوروں کی مزاحمتی طاقت بھیبڑھتی جارہی تھی آخر کار میاں نوازشریف نے فوجی افسروں کی طاقت سے ان اداروں کو فروخت کر ڈالا ۔مزدواور ملازموں کو گولڈ ہینڈ شیک دے دیا گیا ۔مگر یہی ادارے ایک ایک کر کے بند ہوتے گئے چند ایک کے سوا سب اداروں کے مالکان نے اداروں کی اراضی فروخت کر کے مزے لوٹے ۔ حالانکہ کئی ایک پرائیویٹ ملیں چاول سونے کے بھا وایکسپورٹ کر رہی تھیں۔ بلاشبہ دوآبہ رائس ملیں فروخت ہونے سے پہلے فروخت ہونے والے رائس سے خزانے بھر رہی تھیں ۔ مگر چوروںلٹیروں اور ڈاکوئوں نے بھی کرپشن کا اتوار بازار لگا رکھا تھا۔ میں ان اداروں میں انتظامی معاملات بھی نپٹارہا تھا۔میں وثوق سے لکھتا ہوں کہ آج یہ ملیں سرکاری ملکیت میں ہوتیں تو خزانے بھر جاتے اور پنجاب انڈسٹریل بورڈ صرف ان ملوں کے خزانے سے مزید ملیں تعمیر کرتا رہتا۔مگر افسوس کہ لمحہ فکر یہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست دان اور افسران کرپٹ ہونے کی وجہ سے نقصانات کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے۔ میرٹ پہ بھرتی نہ ہونا ۔سیاسی مداخلت ہونا ۔ کرپٹ انتظامیہ بھرتی کرنا افسران کا اپنے بھانجے بھتیجوں کو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرنا ۔میرگہرامشاہدہ ہے کہ سرکاری اداروں کی تباہی و بربادی ان اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ کرپٹ افسران سے میری لڑائی آخری دم تک رہی ایک پراجیکٹ مینجرا جمل چوہدری نے مبارک پور پراجیکٹ پر کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے ۔ میری اس سے جنگ ہوگئی وہ میری نوکری کے پیچھے ہاتھ د ھو کر پڑ گیا ۔ یہ رپورٹ جب اس وقت کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اعجاز احمد کے پاس پہنچی تو اس نے مجھے ہیڈ کواٹر طلب کر لیا اور کہا کہ میرے پاس جو رپورٹ ہے وہ انتظامیہ کے خلاف جارہی ہے ۔بہتر ہے کہ تم منڈی فیض آباد (دھوکہ منڈی )تبادلہ کروا لواگر تم راضی ہو جائو تو ابھی آرڈر کروائے دیتا ہوں اس وقت کے ویجی لینس مینجر کرنل قدیرگِل نے مجھے یہاں سے ٹرانسفر ہو جانے کا مشورہ دیا اور میں نے فیض آباد جڑانوالہ روڈ پر اجیکٹ جوائن کر لیا ۔ وہاں جب تک دیانتدار پراجیکٹ مینجر افضل چوہدری صاحب رہے سکون سے نوکری کرتا رہا جب انکی جگہ افضل سرویا آیا تو اس ظالم سے میری جنگ شروع ہوگئی افسوس کہ سب چورڈاکواسکی حمایت میں چل پڑے آخر مجھے اس نوکری سے استعفےٰ دینا پڑا یہ سچی حقیقت ہے کہ ہمارے سب ادارے کرپشن کی وجہ سے تباہی وبربادی کا شکار ہیں ۔ جب تک انتظامیہ دیانتدار،وقت کی پابند،نظم وضبط کی عادی نہیں ہوگی ادارے شکست و ریخت سے دوچار ہوتے رہیں گے وزیر اعلیٰ پنجاب سے میرا مشورہ ہے کہ وہ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن اور ٹیوٹاکو ایسے ادارے بنائیں تا کہ صوبے میں صنعتی انقلاب برپا کرنے میں آسانی ہو کیونکہ ان اداروں کی ترقی صوبے کی ترقی و خوشحالی ہو گی میں آخر میں کہوں گا کہ فنی تعلیم صنعتی انقلاب کی اساس ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Premium WordPress Themes