ہمیں انصاف کون دے گا ؟

Published on September 29, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 189)      No Comments

تحریر شیخ توصیف حسین
قسط نمبردو
گزشتہ شمارے میں بندہ نا چیز نے تحریر کیا تھا کہ میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ رہا تھا کہ اس ملک کے بااثر ارباب و بااختیار ایک منظم طریقے سے لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے ملک وقوم کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں اور اگر کوئی سچائی کا دامن تھام کر ان کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرتا ہے تو یہ ناسور جو اوپر سے لیکر نیچے تک سب ایک ہیں متحد ہو کر اُسے اس قدر ہراساں کر دیتے ہیں کہ جیسے کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپوزیشن اور رشوت خور بیوروکریٹس کے ہاتھوں ہو رہا ہے بس میں انہی سوچوں میں مبتلا تھا کہ اسی دوران چند ایک افراد میرے دفتر میں داخل ہو کر بڑے غصے کے عالم میں مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگے کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جسے پیغمبری پیشہ اور ملک کا چو تھا ستون سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس پیشے سے وابستہ متعدد افراد نجانے کس مصلحت کے تحت ان بااثر ارباب و بااختیار کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر نے کے بجائے انھیں صادق امین تحریر کر نے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں جس کے نتیجہ میں آج ملک بھر کے تقریبا تمام ادارے راشی و نااہل ارباب و بااختیار کی آ ماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے عدل و انصاف اور انسانیت کا رفتہ رفتہ دم گھٹ رہا ہے مذکورہ افراد کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ انھیں کیا معلوم کہ صحافت جیسے مقدس ادارے سے وابستہ افراد کے کتنے دشمن ہوتے ہیں اگر صحافی کسی ادارے کے سر براہ کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرتا ہے تو مذکورہ ادارے کا سر براہ دشمن اور اگر مذکورہ صحافی عوام کو اپنی ذمہ داریوں کے بارے آ گاہ کرتا ہے تو عوام اُس کی دشمن اور اگر مذکورہ صحافی محکمہ پولیس میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرتا ہے تو پولیس اُس کی دشمن اور اگر وہ محکمہ پولیس کے اعلی افسران کے حق میں لکھتا ہے تو پولیس ٹاﺅٹ کہلواتا ہے اور اگر مذکورہ صحافی مفاد پرست مذہبی و سیاسی افراد کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرتا ہے تو مذکورہ صحافی ملک دشمن عناصر کہلواتا ہے اور اگر مذکورہ صحافی ان کی تعریف میں چند ایک الفاظ تحریر کر دیتا ہے تو عوام اُسے لفافہ صحافی کہتی ہے اور اگر مذکورہ صحافی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے رنگین امزاج افراد کے چہروں کو بے نقاب کرتا ہے تو اُس کے ہتک و ہرجانے کے دعوے مقدر بن جاتے ہیں اور اگر مذکورہ صحافی لا قانونیت کا ننگا رقص کرنے والے قانون شکن افراد کے خلاف تحریر لکھتا ہے تو قانون شکن عناصر جن کو رشوت خور بیوروکریٹس کی سر پرستی حاصل ہوتی ہے اُس کے جانی دشمن بن جاتے ہیں اور اگر مذکورہ صحافی اپنے ضلع کی تباہ حالی کے بارے تحریر کرتا ہے تو ضلع بھر کے تمام افسران یکجا ہو کر اُسے اور اُس کے عزیز و اقارب کو جسمانی و ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ اُس ضلع کی عوام سب کچھ سمجھنے کے باوجود خاموش تماشائی بن کر رہ جاتی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بندہ ناچیز نے گزشتہ شمارے میں ضلع بھر کی تباہ حالی کے بارے میں تحریر کیا جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ کے تمام ارباب و بااختیار جس میں سر فہرست خالق داد نامی چیف آ فیسر میو نسپل کارپوریشن جھنگ ہے نے اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے میرے ایک عزیز جو کہ مذکورہ کارپوریشن میں عرصہ تقریبا چھ سال سے بغیر کسی چھٹی کے اپنے فرائض و منصبی ادا کر نے میں مصروف عمل ہے کو اپنے دفتر بلا کر ذہنی و جسمانی اذیت سے دو چار کرتا رہا یاد رہے کہ مذکورہ آ فیسر اس دوران میرے عزیز کو یہ باور کرواتا رہا کہ جب تک تمھارا بزرگ یہاں میرے دفتر میں آ کر مجھ سے معافی نہیں مانگ لیتا میں تمھارے ساتھ اسی طرح اذیت ناک سلوک کرتا رہوں گا جس کے نتیجہ میں میرا عزیز ذہنی و جسمانی اذیت کو برداشت نہ کرتے ہوئے گھر واپسی پر گر کر شدید زخمی ہو گیا جسے چند ایک خداترس افراد نے وہاں سے اُٹھا کر سٹی ہسپتال جھنگ پہنچا دیا جہاں پر مو جود ڈاکٹر و دیگر عملہ نے فوری طبی امداد کے بعد میرے عزیز کو تشویش ناک صورت کے پیش نظر ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ صدر ریفر کر دیا جہاں پر مو جود جھنگ کے معروف آ ر تھو پیڈک سر جن ڈاکٹر یسین بھٹی اپنے دیگر ڈاکٹر ساتھیوں کے ہمراہ مذکورہ مریض کی دیکھ بھال میں مصروف عمل ہو کر رہ گیا ہے میں اسی اذیت ناک سوچ میں مبتلا تھا کہ اسی دوران ایک گرجدار آ واز میرے کانوں سے ٹکرائی کہ تم کن سو چوں میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہو اگر تمھیں معلوم نہیں تو ہم تمھیں یہ باور کرواتے ہیں کہ ضلع بھر کے افسران کی طرح خالق داد نامی چیف آ فیسر میو نسپل کارپوریشن جھنگ کی ہٹ دھر می نااہلی اور بے شرمی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی آ وارہ گردی کے دوران رات ایک سے چار بجے تک ایک شادی شدہ خاتون جو نہ تو وزیر اعلی پنجاب چیف سیکرٹری پنجاب سیکر ٹری لوکل گو رنمنٹ پنجاب کمشنر فیصل آ باد ڈویژن اور نہ ہی مذکورہ خاتون ڈپٹی کمشنر جھنگ محمد طاہر وٹو ہے کو اپنی رات بھر کی کارکردگی کی فوٹیج ارسال کرتا رہتا ہے جس کا اظہار مذکورہ خاتون نے فیس بک پر بر ملا اپنے بیان کے دوران کیا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ آ فیسر رات بھر جاگنے کے سبب اپنے دفتر ہذا میں آ ئے روز صبح نو بجے کے بجائے تقریبا دو بجے کے قریب آ تا ہے جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ کی عوام جو پہلے ہی لا تعداد پریشانیوں میں مبتلا ہے مذید بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر مذکورہ آ فیسر کے دفتر ہذا سے واپس ہو کر چلی جاتی ہے جس کے اس مجر مانہ اقدام کے متعلق عوامی اور صحافتی حلقوں نے مذکورہ آ فیسر سے در یافت کیا کہ میں رات بھر عملہ صفائی کی نگرانی کرتا ہوں بس اسی لیے اپنے دفتر ہذا میں دو بجے کے قریب آ تا ہوں جس پر مذکورہ عوامی اور صحافتی حلقوں نے مذکورہ آ فیسر کو یہ بات باور کرواتے ہوئے کہا کہ عملہ صفائی کی نگرانی ہی آپ کے فرائض و منصبی میں شامل نہیں جبکہ باقی ماندہ فرائض و منصبی سے آپ بری الذمہ ہیں جس پر مذکورہ آ فیسر نے بڑی ڈھٹائی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میری مرضی میں جو چاہوں گا وہی کروں گا لہذا آپ یہاں سے چلے جاﺅ ورنہ میں تمھارے خلاف سرکاری کاموں میں بے جا مداخلت کے تحت ایف آئی آر درج کروا دوں گا تمھیں معلوم نہیں کہ میری سر پرستی چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب قاضی طاہر خورشید کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آپ تو کیا میرے خلاف انتظامیہ جھنگ بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ میں نے گزشتہ روز اپنے خلاف اُٹھنے والی آ واز کے خلاف تھانہ سیٹلائٹ ٹاﺅن جھنگ صدر میں مختلف دفعات کے تحت سعید نامی شخص اور اُس کے دیگر متعدد ساتھیوں کے خلاف مقدمات درج کروا دیئے ہیں اور وہ بھی انتظامیہ جھنگ کی سر پرستی میں اور ویسے بھی مجھے یہاں کے بلوچ خاندان کے افراد طارق خان بلوچ اور حسن خان بلوچ وغیرہ جو دن رات میرے سرکاری و غیر سرکاری کاموں میں میری معاونت کرتے ہیں جن کی مکمل حمایت کے بعد میں ایم پی اے جھنگ معاویہ اعظم اور ایم این اے غلام بی بی بھروانہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد اُن کے احکامات کو سگریٹ کے دھواں کی طرح ہوا میں اُ ڑا دیتا ہوں جس کے چر چے ہر زرو زبان پر عام ہیں ۔۔۔جاری ہے

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme