مسیحاوں اور عوام میں بڑھتی خلیج

Published on November 11, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 464)      No Comments

تحریر:مہر سلطان محمود
مسیحائی تین قسم کی ہوتی ہے روحانی،جسمانی اور نفسیاتی،ماضی میں جسمانی مسیحا ؤں کی کچھ تعداد یہ تینوں کام کرنے کی خدادادصلاحیتوں سے مالامال تھی پھر فی زمانہ ترقی کاجادو سرچڑھ کر بولنے لگا مسیحائی بھی تقسیم ہوگئی پہلے گنتی کے چند مسیحا سرکاری ہسپتالوں میں میسر ہوتے تھے باقی کاکام حکماء ومساجد کے خطباء ا و ر اماموں نے خوش اسلوبی سے سرانجام دیا مگر شعور کی ترقی نے مسیحائی کو بھی تقسیم کردیا۔سرکاری ہسپتالوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ مسیحاؤں کی تعداد میں بھی اچھا خاصا اضافہ دیکھنے کو ملاہے فی زمانہ مشکلات ومصائب کی ماری عوام اپنی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کے علاج معالجہ کیلئے سرکاری وغیر سرکاری علاج گاہوں کا رخ کرتی ہے بدقسمتی سے دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے جبکہ ہم جوں کے توں فی زمانہ زہنی غلامی سے باہر نکل کر سوچنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں سرکاری ہسپتال چاہے وہ ایک بنیادی مرکز صحت (ڈسپنسری گاؤں والوں کیلئے ہسپتال کی مانند)ہو یا رورل ہیلتھ سنٹر مع تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال و ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے لیکر ملک بھر کے بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں تک رسائی کے متعلق ہماری عوامی سوچ ان اداروں کے نام کے ساتھ ہی فوراً کسی تعلق واسطے کو ڈھونڈے بغیر آگے بڑھنے کا تصور کرناہی اول درجے کی بیوقوفی گردانتی ہے، ڈاکٹرز تک رسائی کے بعد عوامی امیدیں ڈاکٹری نسخے پرہوتی ہیں عوامی سوچ بالکل درست بھی ہے لیکن اس میں بعض قباحتیں آڑے آتی ہیں جن کا نزلہ متعلقہ ڈاکٹرز پر ہی گرتاہے اور ایڈمنسٹریشن اسی بلی چوہے کے کھیل میں پیچھے بیٹھ کر تماشادیکھتی ہے جس کارزلٹ آخر کار مریضوں ولواحقین ا ورطبی عملے کے دوران لڑائی جھگڑوں کی صورت میں خبروں کی زنیت بنتاہے قصواروار پالیسی ساز ہیں چند اہم پوائنٹس جن کی مدد سے عوامی سوچ وڈاکٹرز کے رویئے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی قارئین کے گوش گزارکرتاہوں میری08 سالہ صحافت کے قیمتی تین سال جو میرے کچھ نوجوان مسیحاوں کی قربت میں گزرے اور حقیقت کو مکمل گہرائی میں جاکر دیکھنے کا سنہری موقع ملا اس حقیقت کو آج پالیسی سازوں وعوام الناس سمیت طبی عملے کے گوش گزارکرنا قرین انصاف ہوگا شاید سسٹم وہماری سوچ میں تبدیلی سے مشکلات میں کمی واقع ہوسکے۔چونکہ سرکاری اداروں میں سہولیات درمیانے درجے تک بہتر ہیں اس لیے ان اداروں کا رخ کرتے وقت عوام الناس کو مندرجہ بالا باتوں کو زہن نشین کرناہوگا کہ سب سے پہلے سفارشی کلچر کی زہنی غلامی سے خود کو آزاد کروائیں،دوسرا ڈاکٹرز کاکام مریض کو بلا تفریق سہی معنوں میں مسیحائی کی اخلاقی شرط کو پوراکرتے ہوئے مکمل چیک کرکے نسخہ یا طریقہ علاج تجویز کرناچاہیے،ڈاکٹری چیک اپ کے بعد کے مراحل بقیہ سہولتوں کو فراہم کرنا جس میں تجویز کردہ طریقہ علاج سے متعلقہ سازو سامان کی فراہمی انتظامیہ کی زمہ داری ہے نہ کہ ڈیوٹی پر بیٹھے ڈاکٹرز کی،ہماری سوچ سرے سے غلط نقطے پر اٹک جانے سے مسائل کم یا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں ڈیوٹی پر بیٹھے ڈاکٹرز کا یہ کام نہیں ہے کہ ڈسپنسری سے نسخے پر لکھی گئی تمام ادویات فراہم کرے یا کروائے،ایمرجنسی میں آکسیجن سلنڈر سمیت ای سی جی کے رول معہ تمام تر دیگر لوازمات پورے کروائے البتہ اگر تمام تر لوازمات پورے ہیں تب فراہم نہ کرنے والے عملے کی مجرمانہ غفلت پر ان کے خلاف سخت تر کاروائی کیے بغیر قبلہ درست کرنا دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ڈاکٹرز کاکام مریض کی بروقت تشخیص و علاج تجویز کرناہے نہ کہ باقی لوازمات پورے کروانا۔کچھ ذمہ داریاں ہمارے مسیحاؤں پر بھی لازم ہیں سب سے پہلے بروقت ڈیوٹی پر پہنچنا پھر مریضوں کو حوصلے ودلجمعی سے چیک کرنا چونکہ اکثر وبیشتر سامنے آنے والی عوامی شکایات میں سرفہرست شکایات عدم دلچسپی سے مریضوں کو چیک کرنا اور دوسرا موبائل فون کے استعمال کی ہیں جو خبروں کی زینت بنتی ہیں رش کی صورت میں ڈاکٹرز حضرات مریضوں کی مشکلات وشور شرابے سمیت دیگر عوامل کو سامنے رکھ کر رش کم کرنے کیلئے سپیڈ پکڑتے ہیں جس کی وجہ سے انٹرنیشنل ہیلتھ رولز کو مکمل نظرانداز کرنا مسیحاؤں کی مجبوری ہوتاہے نتیجے کے طور مریض ولواحقین کی اکثریت ڈاکٹری چیک اپ سے مکمل غیر مطمئن ہوتی ہے نتائج میں لڑائی جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں بعض دفعہ ڈاکٹرز وطبی عملے کی لاپرواہی بھی شامل ہوتی ہے جو اچھا کام کرنے والوں کی اچھائی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پالیسی سازوں کی جانب سے ہر قسم کی سہولیات کی آبادی کے تناسب سے عدم فراہمی میں سب کچھ شامل ہوجاتاہے جس کانزلہ مسیحاؤں پر گرتاہے مسیحاؤں کے مسائل میں سینئرز کی جانب سے عدم تعاون یا من پسند کو نوازنے سے اصل حقدار کی حق تلفی بہت سارے مسائل کو جنم دیتی ہے پیرامیڈیکل سٹاف کا عدم تعاون یا کام چوری بھی انہیں کے کھاتے میں پڑتی ہے مسیحاؤں کی اکثریت طالب علمی کے مراحل سے گزررہی ہے مہنگی تعلیم فی زمانہ معاشی تنگی وخاندانی ذ مہداریوں جیسے مسائل  نفسیاتی مسائل کا گنجلک بن کر اپنا رنگ دکھاتاہے ساتھی مسیحاؤں کی کام چوری،انتظامیہ کی جانب سے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی سمیت بااثر کو موج مستی کرنے کی کھلی چھٹی دینا،دوران ٹریننگ فیلڈ کے چیلنجز سے نمٹنے کی تربیت کی عدم فراہمی مثال کے طور اخلاقی تربیت،سرکاری پروٹوکول،صحافتی پروٹوکول سمیت ویلا پروٹوکول سے نبرد آزماہونے کا طریقہ اور میڈیکل لیگل میں قانونی پیچیدگیوں سے بطریق احسن کیسے سامنا کرنا ہے نہ سکھایا جانا مسائل کی جڑ ہے،پیرامیڈیکل سٹاف میں شامل مرد و خواتین جو بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں میں کام بطریق احسن کرتے ہیں مگر ڈسٹرکٹ وتحصیل ہیڈ کوارٹرز میں ان کی اکثریت ہٹ دھرمی وکام چوری اور پھر سینہ زوری کرتی ہے جس کا سہارا کثر اوقات کام چور مسیحابھی لیکر ایڈمنسٹریشن وساتھی مسیحاؤں کو بلیک میل کرکے کام کرنے والوں کیلئے مسائل کو جنم دیتے ہیں کامل تحقیق کے مطابق اب مافیاء کا روپ دھار چکے ہیں۔(یہ سلسلہ قسط وار جاری رہے گا)

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog