صنعتی یونٹوں کی خرید و فروخت کا۔ کار کردگی پر منفی اثر

Published on December 10, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 200)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ
صنعتی یونٹوں اور انڈسٹریل فرموں کی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ فروخت یا ایک صنعتی ادارے کے کسی دوسرے ادارے میں انضمام سے نا صرف صنعتی کا ر کردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ اس سے اداروں کے ملازمین کی بے روزگاری کے اندیشے بھی جنم لیتے ہیں اس عمل سے جہاں صنعتی یونٹ کی خرید و فروخت کرنے والوں کو خوف و خطرات اور دیگر پریشانیوں سے واسطہ پڑتا ہے وہاں ان اداروں کے مینجر لیول کے افراد سب سے زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں اگر ان تینوں طبقوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تو آنے والے مسائل و مشکلات سے صبر آزما مقابلہ کرنے میں کافی حد تک آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس طرح صنعتی یونٹ بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہتاہے اور اس سے صنعتی کا ر کردگی کو نہ کوئی زَک پہنچتی ہے اور نہ ہی ملازمین کو فوری چھانٹی کا خطرہ محسوس ہوتا ہے شو مئی قسمت کہ ہمارے یہاں صنعتی یونٹ کی خرید و فروخت کے مکمل معاہدے کے فوری بعد نئے مالکان صنعتی یونٹ کو کسی نہ کسی بہانے بند کر کے ملازمین کی چھانٹی کے عمل میں مصروف ہوجاتے ہیں اور کافی عرصہ من پسند کا رکنوں اور مینجروں کی تلاش میں گنوادیتے ہیں جس سے وقتی طور پر حکومت کو بھی پریشانیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے یوں تو وطن عزیز میں اس قسم کی کئی مثالیںموجود ہیں لیکن پنجاب انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بورڈ کی طرف سے نجی سیکٹر میں فروخت کی جانے والی پارس ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ بہاولپور کی بندش کی مثال ابھی تک ہم سب کے سامنے ہے اس مِل کو انتہائی کم داموں میں فروخت کیا گیا لیکن مالکان نے وہی حربہ استعمال کیا جو ہمارے ہاں اکثر کیا جاتا ہے اس کے بر عکس مثال ہڑپہ ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ ہڑ پہ کی ہے جو پی آئی ڈی پی نے چند بر س قبل فروخت کی ہے اور بعد میں دوسرے ہاتھوں فروخت ہوئی نئے مالکان نے اس ملز کے پروسیسز کوٹہ کو نہ صرف جاری و ساری رکھا بلکہ ملازمین کو کسی قسم کی مالی پریشانیوں سے بھی دو چار نہیں ہونا پڑا وقت پر دیگر ادائیگیوں نے بھی کسی قسم کی رکاوٹ یا تا خیر نہیں ہونے دی حقیقت میں مضبوط و توانا اور ممتاز صنعتکار کبھی ایسی پریشانیاں پیدا نہیںکرتے جن سے مزدوروں کے حقوق غصب ہوں اور حکومت کو بھی مظاہروں اور جلوسوں کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صنعتی یونٹوں کی خرید و فروخت کے عمل سے اعلیٰ سطح کی انتظامیہ کو جس میں جنرل مینجر چیف انجینئر اور اکاﺅنٹنٹس شامل ہوتے ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اس قسم کی صورتحال سے تیسری دنیا کے ممالک ہی دو چار نہیں ہیں بلکہ بہت سی یوررپی فرموں اور صنعتی اداروں کو بھی یہی مسئلہ در پیش ہے ان کے ہاں صنعتی ادارے یا فرم کی خرید و فروخت کے معاہدوں کے بعد ملا زمین کی چھانٹی کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی جرم گردانہ جاتا ہے جب کہ ہمارے یہاں اس کے با لکل ہی بر عکس صورتحال ہوتی ہے بلکہ نئے مالکان جان بوجھ کر چھانٹی کا عمل تیز کرتے ہیں صنعت کا ر کے اس بھونڈے عمل سے متاثرہ ملازمین کے ہاتھ میں بے روزگاری کا کا سہ لیے دوسرے اداروں کے دروازوں پر صدا دیتے نظر آتے ہیں بعد ازاں اس ضمن میں پید اہونے ولی خرابیوں سے نپٹنے کے لئے کئی ایک حکومتی اداروں کو بھی ملوث ہونا پڑتا ہے بعض ادارے ایسے بھی ہیں جو عدلیہ کے فیصلوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اس طرح چھانٹی سے متاثرہ افراد تنخواہوں کے لئے ان کے در و دیوار کے گرد کئی کئی چکر لگاتے نظر آتے ہیں صنعتی یونٹ کی فوری خرید کے بعد نئے مالکا ن کی یہ کوشش نہیں ہونی چا ہئیے کہ وہ فوری طور پر ٹاپ مینجمنٹ کے ساتھ مختلف کھاتوں کے سربراہان کو بھی خارج کر کے نیا عملہ بھرتی کرے اس عمل سے جہاں صنعتی عمل متاثر ہوگا وہاں آنے والے عملے کو کام کرنے میں کئی قسم کی رکاوٹیں پیش آئیں گی لہٰذا درست طریقہ یہ ہے کہ نئے مالک کو چاہئیے کہ چھانٹی کے عمل کو یک دم شروع نہ کرے اگر وہ ایسا کرنا اپنی کوئی مجبوری تصور کرتا ہو تو ایسے افراد کو فارغ کرے جو کھاتوں میں ضرورت سے زائد ہیں ورنہ صنعتی کارکردگی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی نیا عملہ پُرانے کھاتوں کے عمل کو جاری رکھنے میں فوری طور پر اس لئے بھی کامیاب نہ ہو سکے گا کہ ان کھاتوں کے ورکروں اور کاریگروںکو آنے والے انچارج سے ہم آہنگی اور بے تکلفی پیدا کرنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا اور نئے انچارج کو بھی ورکروں کاریگروں اور کھاتوں میں کاموں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا بلا شبہ صنعتی یونٹوں کی تعمیر و تنصیب کے بعد فروخت کرنا ایک اچھا کاروباری عمل ہے لیکن کسی چلتے کاروبار کو دوسروں کے ہاتھ فروخت کرنا اور نئے مالک کا پھر سے مشکلات سے دو چار ہونا نہ صرف نئے مالک کے لئے اچھا نہیں بلکہ ملازمین کے لئے بھی دردِ سر ہوتا ہے بعض اوقات صنعتی ورکروں کی تنظیموں کی پیشہ ور لیڈروں کے پیدا کردہ مسائل کے پیشِ نظر صنعت کار ذاتی خواہشات کے بالکل بر عکس بھی فیصلے صادر کر دیتا ہے جس سے نہ صرف صنعتی یونٹ بند ہوتا ہے بلکہ مزدوروں کی ایک کثیر تعدا د بے روزگار ہو کر رہ جاتی ہے صنعتی یونٹوں کی فروخت کی چند اور بھی وجوہات ہیں مثلاً فرم کے مالک کے انتقال کے بعد ٹیکس کی ادائیگی میں دشواریاں اور نا قابلِ عمل منصوبہ بندی ، کمزور مالی پوزیشن، ناقص انتظامی مشینری ، فیملی پرابلم، شراکت داروں میں بد نظمی ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان پرانے کاروبار سے عدم دلچسپی اور نےئے کاروبار کی طرف رغبت وغیرہ ایک اندازے کے مطابق صنعتی یونٹوں کی خرید فر وخت یا ایک دوسرے میں اد غام کی پاکستان میں سالانہ شرح تقریباً چھ فیصد ہے جبکہ یورپ میں تین اعشاریہ تین فیصد ہے یونین سازی کے خوف سے آج کا صنعتکار بھاری صنعتی یونتوں کی بجائے چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹوں کی تعمیر و تنصیب میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے بعض صنعتکار ایسے لائٹ ورکس یونٹ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں کارکن اور مردوں کی بجائے خواتین بھرتی ہوں اس کی حقیقی وجہ خواتین میں یونین سازی میں کم دلچسپی ہے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Premium WordPress Themes