ہم مر جائیں گے،بوسنیا کے پناہ گزیں کیمپ میں موجود لوگوں کی دہائی

Published on December 27, 2020 by    ·(TOTAL VIEWS 137)      No Comments

بوسنیا (یواین پی) سینکڑوںمہاجرین بلکتی زبانوں اور ٹھٹھرتے جسموں کے ساتھ برفیلی زمین پر بارڈر کنارے آپ کو للچائی نگاہوں سے تکتے نظر آئیں گے۔یہاں موجود ہر بچے اور بڑے کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے”ہم مر جائیں گے“۔یہ بوسنیاکا بارڈر ہے جہاں کا ٹیمپریچر اچانک منفی ہو گیااور برفیلی ہواﺅں کے ایسے جھکڑ چلے کہ بدن میں رواں خون بھی منجمد ہو گیا۔ان پناہ گزیں کیمپوں میں موجود افراد نے اچانک آنے والی اس شدید سردی کی لہر سے خود کو محفوظ کرنے کے لیے اپنے آپ کو کمبل،رضائیوں یہاں تک کہ ان رضائیوں کے کورز میں بھی لپیٹ لیا۔بوسنیائی حکومت ان مہاجرین کے لیے رہائش کا بندوبست کرنے میں ناکام نظر آتی ہے یوں قریباً ایک ہزار افراد اس خون جما دینے والی سردی میں دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔برفباری عروج پر ہے،درجہ حرارت صفر سے نیچے جا رہا ہے ا ور سردی کی شدت میں موت کی حد تک اضافہ ہونے لگا ہے۔آگ جلانے کو لکڑی نہیں اور پیٹ بھرنے کو کھانا نہیں۔یوں سردی اور بھوک مل کر ہماری جانیں لے رہی ہیں۔یہ الفاظ تھے پناہ گزیں کیمپ میں موجود ایک بے بس عورت کے جو اپنے معصوم بچوں کے چہروں کو تکتے ہوئے آنسو بہا رہی تھی۔مہاجرین کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن کے چیف نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا”بوسنیا میں انسانی ڈزاسٹڑ دیکھنے کو مل رہا ہے،اس حالت میں کسی انسان کو بھی نہیں رہنا چاہیے،ہمیں جلد از جلد اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔“یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بوسنیا کے اس پناہ گزیں کیمپ میں آگ بھی بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں کئی مہاجرین کی موت بھی واقع ہو گئی تھی اور اب جب برفباری کا سلسہ بھی عروج پر ہے تب بھی بوسنیا کی حکومت مہاجرین کی جانیں بچانے کے لیے اقدامات کرتی نظر نہیں آتی۔یوں بھوک اور سردی کی شدت سے خوف میں مبتلا افراد عالم انسانیت کو اپنی زندگی کی بقا کی دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题