صاحب جی

Published on January 27, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 200)      No Comments

تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک دن میرے ایک جاننے والے شخص جو کہ سونے کے زیورات کا کاروبار کرتا تھا نے مجھے ٹیلی فون پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ سن کر انتہائی خوشی ہو گی کہ میں اس بار پھر حج پر جا رہا ہوں اور وہ بھی بغیر کسی خرچ کے یہ سن کر میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ اس مہنگائی کے دور میں حج اور وہ بھی بغیر کسی خرچ کے بہرحال میں نے اُس سے پو چھا کہ یہ معجزہ آپ کے ساتھ کیسے رونما ہوا تو اُس نے بڑی عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال جب میں حج کی ادائیگی کے بعد واپس اپنے کاروبار پر پہنچا تو اسی دوران ایک غریب شخص جس کی دو بیٹیاں تھیں نے بڑی عاجزی کے ساتھ مجھ سے کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دے تو میں آپ کی دوکان کے فٹ پاتھ پر پھٹہ لگا کر کوئی چھوٹا مو ٹا کاروبار شروع کر دوں چونکہ میرے اہلخانہ اکثر میرے کاروبار کے نہ ہو نے کے سبب رات کو بھو کے سو جاتے ہیں یہ سن کر مجھے اُس شخص پر بڑا ترس آیا اور میں نے بڑے کھلے دل کے ساتھ اُس شخص کو اپنی دوکان کے فٹ پاتھ پر پھٹہ لگانے کی اجازت دے دی لیکن میں نے اس دوران اُس سے چند ایک شرائط طے کر لی کہ آپ مجھے ہر ماہ بیس ہزار روپے بر وقت کرایہ ادا کرو گے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو تین لاکھ روپے بطور سیکورٹی جمع کروانی ہو گی اور ہاں اگر تمھارے پاس نقد تین لاکھ روپے نہ ہوں تو پھر آپ میرے پاس بطور امانت زیورات وغیرہ رکھ دو یہ سن کر وہ شخص کچھ دیر مجھے بڑی اداس نظروں سے دیکھتا رہا اور پھر بالآ خر اُس نے مجھے کہا کہ ہاں میرے پاس کچھ زیورات ہیں جو میں نے اپنی بیٹیوں کی شادیوں کیلئے بنوائے تھے وہ میں آپ کو دے دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا اور کچھ دیر بعد جب وہ واپس آ یا تو اُس کے پاس چند ایک زیورات تھے جو اُس نے یہ کہہ کر میرے پاس جمع کروا دیئے کہ ان کا خاص خیال رکھنا چونکہ میں نے دن رات کی محنت کے بعد انھیں بنوایا تھا قصہ مختصر اُس شخص نے دن رات محنت کی لیکن اُس کا کاروبار ٹھہیک طریقے سے چل نہ سکا جس کے نتیجہ میں وہ شخص حسب شرائط اپنا ماہانہ کرایہ بر وقت ادا نہ کر سکا جس کے نتیجہ میں وہ شخص میرا لاکھوں روپے کا مقروض ہو گیا جبکہ دوسری جانب خداوند کریم نے میری حج کی درخواست قبول کر لی اب میں اُس شخص کی بیٹیوں کے زیورات فروخت کر کے حج پر جا رہا ہوں اُس کی ان غلیظ باتوں کو سن کر میں نے اُس پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا کہ تم ایک غریب شخص کی بیٹیوں کے جہیز کیلئے تیار کردہ زیورات کو فروخت کر کے حج پر جا رہے ہو خداوند کریم تم پر اور تمھاری آل پر لعنت بھیجے گا بالکل اسی طرح مجھے یہاں ایک اور واقعہ یاد آ گیا ایک غریب شخص نے محنت مزدوری کر کے تھوڑی سی رقم اپنی بیٹی کی شادی کیلئے جمع کر کے اپنے علاقے کے بااثر شخص جو کہ حاجی صاحب کے نام سے مشہور تھا کے پاس یہ کہہ کر رقم جمع کروا دی کہ جب میں اپنی بیٹی کی شادی طے کروں گا آپ سے واپس لے لوں گا کچھ عرصہ کے بعد اُس غریب شخص کی بیٹی کی شادی طے پا گئی تو وہ اپنی مطلوبہ رقم حاجی صاحب سے واپس لینے اُس کی دوکان پر پہنچ گیا جب اُس شخص نے اپنی مطلوبہ رقم کا مطالبہ کیا تو حاجی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے حاجی غفور کو دیکھتے ہوئے کہا کہ دیکھو بیٹا حاجی غفور یہ شخص کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے خداوندکریم کا عذاب نازل ہو اس پر یہ ہم پر کتنا بڑا الزام لگا رہا ہے اس بے ایمان شخص نے نہ کبھی ہمیں کوئی رقم دی تھی اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی معلوم ہے اچھا میرے بیٹے حاجی غفور یہ بتاﺅ کہ کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں نہیں ابا حضور آپ نے تو کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں آپ تو ایک سچے مسلمان ہے آپ تو لوٹ مار ظلم و ستم اور غاصب افراد پر ہمیشہ لعنت بھیجتے ہیں ان باتوں کو سننے کے بعد مذکورہ غریب شخص بے بسی و لا چارگی کی تصویر بن کر آ سمان کی طرف منہ کر کے زارو قطار رونے لگ گیا کہ اسی دوران حاجی صاحب کا ایک اور بیٹا مو قعہ پر پہنچ گیا جس کو دیکھتے ہی اُس بے بس شخص نے حاجی صاحب کے اُس بیٹے کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں اپنی مطلوبہ رقم حاجی صاحب کو جمع کروائی تھی آپ بھی اُس وقت موجود تھے کیا میں آپ کے والد پر الزام لگا رہا ہوں یہ سن کر حاجی صاحب کے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ نے حاجی صاحب کے پاس کچھ رقم جمع کروائی تھی جسے سن کر بڑے حاجی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے حاجی غفور کو بڑی غصیلی آ واز میں کہا کہ ایک تم فوری طور پر اس شخص کو اس کی مطلوبہ رقم واپس کر دو اور دوسری فل الفور اپنے اس چھوٹے بھائی کی حج کی درخواست دے دو اگر آج ہم حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو اس ملک کے مذہبی و سیاسی رہنما تاجر پرائیویٹ سکولز کے مالکان ادویات ساز کمپنی کے مالکان ڈاکٹرز لیبارٹری ٹیسٹ مالکان قومی و صوبائی بیوروکریٹس یہ سب کے سب حاجی صاحبان ہیں جو اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک وقوم کا خون چوس رہے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک بھر کے تمام اضلاع کا ڈپٹی کمشنر صرف ایک شخص نہ صرف اپنے اپنے اضلاع بلکہ وہاں کی عوام کی قسمت کا سکندر بن جاتا ہے کاش ہمارے ملک کے حکمران اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ان کے کالے کرتوتوں کی معلومات حاصل کرتے تو انشاءاللہ تعالی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران ایسا کرنے میں قاصر ہیں جس کے نتیجہ میںآج ملک بھر کے تمام ادارے لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی آ ماجگاہ بن کر رہ گئے جبکہ متعدد اضلاع تباہ و بر باد ہو کر رہ گئے ہیں جو کہ مذکورہ ڈپٹی کمشنر صاحبان کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ہاں یہاں یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس نفسا نفسی کے شکار معاشرے میں بعض آ فیسر ایسے بھی ہیں جو اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کر رہے ہیں جن کے بارے میں تو میں یہی عرض کروں گا کہ اگر آج یہ ملک آ باد و شاد ہے تو یہ بس انہی ایماندار افسران کی بدولت ہے تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوایوں کہ گزشتہ دنوں جب میں علیل تھا تو اسی دوران مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد میری عیادت کیلئے آتے رہے کہ اسی دوران چوہدری کالونی کے رہائشی افراد نے آ گاہ کیا کہ گزشتہ ایک ماہ قبل نامعلوم چوروں نے ہمارے علاقے کا جر نیٹر چوری کر لیا جس کے نتیجہ میں ہمارا علاقہ غلاظت کے انبار جبکہ مختلف موذی امراض کا مرکز بن کر رہ گیا تو ہم چند ایک افراد وفد کی صورت میں میو نسپل کارپوریشن جھنگ کے ایکسین اکرام اشرف کے پاس پہنچے اور اُسے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا لیکن افسوس کہ اُس نے ہماری پریشانی کو حل کرنے کے بجائے یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ ہم آپ کے علاقے میں اُس وقت تک جرنیٹر نہیں لگائے گئے کہ جب تک تم تحریری طور پر جر نیٹر کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں دے دیتے یہ سن کر ہم حیران و پریشان ہو کر مذکورہ آ فیسر کی طرف دیکھنے لگ گئے جو شکل و صورت سے ہمیں ابھی ریگروٹ لگ رہا تھا کہ ہر دور حکومت کی عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹا بہنا شروع ہو گئی ہے مذکورہ آ فیسر ہم سے اپنے جر نیٹر کے تحفظ کی ذمہ داری عوام سے مانگ رہا ہے قصہ مختصر کہ ہم مذکورہ آ فیسر کی اس غیر اخلاقی اور غیر شائستہ گفتگو سننے کے بعد واپس آ گئے ہیں مذکورہ افراد کی اس اذیت ناک گفتگو کو سننے کے بعد میں انسانیت کے ناطے علیل ہونے کے باوجود چیف آفیسر میو نسپل کارپوریشن جھنگ آ صف قریشی کو ملنے بروز جمعہ بوقت تین بجے پہنچ گیا جبکہ اسی دوران شیطان ابن شیطان اہلکاروں نے مذکورہ آ فیسر کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے مجھے روکا مذکورہ آ فیسر سے ملنے کیلئے لیکن میں اُن سے ملنے اُن کے دفتر میں پہنچ گیا تو سب سے پہلے میں نے مذکورہ آ فیسر سے یہ سوال کیا کہ آج جمعہ ہے اور آپ تین بجے تک یہاں تشریف فر ما ہیں تو مذکورہ آ فیسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انسانیت کی بقا کیلئے اور ویسے بھی حکومت پاکستان مجھے تنخواہ کے علاوہ لاتعداد سہولیات فراہم کرتی ہے صرف اور صرف ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کیلئے بس اسی لیے میںاپنے فرائض و منصبی عبادت سمجھ کر ادا کرتا ہوں مذکورہ آفیسر کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ شیطان ابن شیطان اہلکار مذکورہ آ فیسر کے خلاف کیا رائے رکھتے ہیں جبکہ مذکورہ آ فیسر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے اس غلیظ کیچڑ میں ایک کنول کے پھول کی حیثیت رکھتا ہے مذکورہ آ فیسر لوٹ مار کی اس اندھیر نگری میں ایک قطب ستارے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی چمک سے میو نسپل کارپوریشن جھنگ جگمگا رہا ہے مذکورہ آفیسر بے سہارا غریب سائلوں کیلئے سایہ شجردار کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ شیطان ابن شیطان راشی اہلکاروں کیلئے ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے بس یہی وجہ ہے کہ راشی اہلکار مذکورہ آ فیسر کو دیکھ کر ایسے سہم جاتے ہیں جیسے سیاہ رات میں صبح کا پرندہ آ خر میں بس یہی کہوں گا کہ جب ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دے تو سمجھ لو کہ اب انسانیت ختم ہو گئی

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy