مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ، تیری رہبری کا سوال ہے

Published on April 8, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 462)      No Comments

ASIF Monofram
اِدھر اُ دھر کی نہ بات کر، یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ، تیری رہبری کا سوال ہے ؟
درحقیقت حاکم کے لیے حکومت بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ بہت بڑی زمہ داری بھی اور بہت نیکی کا زریعہ بھی ۔ حاکم کی ایک اچھے کام سے پورے رعایا کی بھلائی ہوتی ہے تو پورے رعایا کی ثواب ملتاہے ۔ مگر حاکم کی ایک غلطی بھی اسی طرح بہت گناہ و جواب دہ کا حامل ہوتا ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام جس میں تقریباََ 100% لوگ یہ جانتے ہیں کہ حکومت میں شامل تمام اہلکار عوامی خدمت گار ہوتے ہیں ۔ بھلے سیاست دان، بیوروکریٹس، افواج و پولیس ہی کیوں نہ ہو ، تمام ادارے عوامی کی فلاح کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہم عام الفاظ نوکری یا ملازم کہتے ہیں ۔ یہ نوکر و ملازم کسی دیوار یا بنگلے کی نہیں بلکہ ریاست کی حدود کی تمام عوام کے ہوتے ہیں۔ درحقیقت چیف
آف آرمی اسٹاف بھی عوامی ملازم ہے۔ یہ اپنی ٹیم کے ساتھ جس میں لاکھوں افراد بطور سپائی کام کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں افسران بھی ہیں جو عوامی ملازم ہیں۔ ان کی زمہ داری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تما م سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ باہر پڑوس کے ممالک کی اگر پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا تھوڑا بھی شک ہو توصورتحال سے نمٹنا اور ریاست میں عوام جان و مال کی حفاطت کرنا ان کی ڈیوٹی زمہ داری ہے۔ اللہ نے قران میں فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی زمہ دار ی دی جائے تو ایمانداری اور ہو شیاری سے پورا کرنا ورنہ قیامت کے دن احتساب ہوگا۔اسی طرح چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سمیت پاکستان کے تمام ہائی کورٹس ، سیشن کورٹ ، شرعی کورٹس سمیت تمام عدالتیں جج حضرات بھی عوامی ملازم ہیں۔ ان کی زمہ داری ہے کہ ریاست میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ، ناانصافی ،ظلم و جبر کرتا ہے یا اس کی جائداد پر ناجائز قبضہ کرتا ہے یا اس کو راستے میں کوئی بھی شخص لوٹتا ہے تو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی تمام ٹیم کی زمہ داری ہوتی ہے کہ انھیں فوری طور پر انصاف فراہم کریں ، ان کی جان و مال کی قیمت کی فیصلے سنائیں۔اسی طرح پولیس کی زمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان کی عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا، چور ڈاکوؤں سے تحفظ فراہم کرنا۔ بیوروکریٹس کی بھی زمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات اٹھانا ، زندگی کی سہولیات فراہم کرنا ،عوامی شکایات کو دور کرنا، سیاست دانوں کی بھی یہی کام ہیں۔ اسمبلیوں میں جا کر وقت اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی سہولیات کے قوانیں بنا کر بیوروکریٹس، افواج ، پولیس سے عوام کے لئے سہولیات پیدا کروانا ہے ۔ عوام ان حضرات کو عیوض میں ٹیکس ادا کرتا ہے جو سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتا ہے۔ اور اسمبلی کے ارکان ،افواج و پولیس کے سپائیوں اورافسران ، بیوروکریٹس اور تمام سرکاری ملازمیں کو تنخواہ ملتا ہے ۔ اگر عوام وقت پر ٹیکس ادا نہ کریں توخزانہ خالی ہو جائے گا تو ان ملازمیں کو تنخوا نہیں مل سکے گا۔ جس سے یہ ملازمیں بھوکے رہ جائیں گے۔عوام کی ٹیکس خود بخود جمع ہو تا جاتا ہے۔سبز ی سے لیکر پاکستان میں کسی اشیاء کی خریداری کے وقت حکومت کی ٹیکس لاگو ہو جاتا ہے ۔ مثلاََ ہم جب اپنے موبائل میں ایزی لوڈ کرواتے ہیں تو 100 روپیہ کی ایزی لوڈ پر 25 % سرکاری ٹیکس چارج ہوتا ہے تو ہمیں75 روپیہ موصول ہوتے ہیں۔ اسی طرح عوام کو پتہ بھی کم لگتا ہے کہ گورنمنٹ نے اپنا ٹیکس کیسے وصول کر لیا؟بحرحال کہنے کا متن یہ ہے کہ عوام کو پتہ بھی ہے کہ حکومت اور بیوروکریٹس سمیت تمام سرکاری ملازمیں ان کے اصل ملازم ہیں جو ہمہ وقت ان کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے بیٹھنااور الرٹ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔لیکن عجیب بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چیف جسٹس سمیت تمام ملازمیں عوامی خدمات سے بالکل قاصر ہیں۔آرمی کے ہوتے ہوئے بھی ڈرون حملوں اور بیرونی ہاتھوں کی وجہ لاکھوں لوگ بے گناہ قتل ہو رہے ہیں۔ عام طعر پر لوگوں کے درمیاں یہ تاثر بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے کہ پاکستا ن میں موجودہ حالات جس میں بلوچستان میں آزادی و فرقہ واریت کے نام پر ، کراچی میں بھتہ کے نام، پشاور اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے نام پر تمام قتل وغارت بیرونی ہاتھ ملوث ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو آرمی کی تمام ٹیم کیا گل کھلا رہے ہیں؟ پاکستان میں دس دس سال تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تو عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟ پاکستان بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی بحران،سڑکوں تعلیمی اداروں ، صحت کے مراکز سمیت تما م ضروریات زندگی کے واستے ترس رہے ہیں۔ تو محکمہ صحت ، محکمہ واپڈا، محکمہ گیس ،محکمہ تعلیم سمیت تمام بیوروکریٹس کے ملازم کیا کر رہے ہیں؟ سیاست دان حکومت کرنے کی خواہش صرف اور صرف اپنی مفادات ، آرائش، عالی شان مرات اور کرپشن کے لئے بر سر اقتدار آتے ہیں۔ تمام ادارے اپنی اپنی زمہ داریوں سے غافل ہیں ۔ کوئی محکمہ یا افسر اپنی زمہ داری پوری کرنے میں دلچسپ ہی نہیں ہے ۔ تمام محکموں کے ایک چوکیدار سے لیکر عالیٰ آ فسر تک چور لٹیرے ہیں ۔چیف جسٹس ، صدر مملکت ، وزیر اعظم پاکستان سے لیکر تمام سرکاری ملازم چپراسی و چوکیدار تک حضرات جن کی تعداد کم و بیش دو کروڑ ہو گا اپنے اپنے زمہ داریوں سے غافل ہیں ۔ زمہ داری پوری کرنے سے دور بھاگتے نظر آ رہے ہیں۔ جس کام کے لئے یہ لوگ لاکھوں روپیہ تنخواہ وصول کرتے ہیں مگر 1فیصد بھی پورا نہیں کر تے ہیں سوال کیا ان کی تخواہ حلال ہو جاتا ہے؟ یہ بات اسلام واضع کرتا ہے کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ،جہاں بھی ہو رہا ہے سب کچھ وقت کے تمام ملازمین کی زمہ داری ہے جو اللہ پاک کو روز قیامت جواب د ہ ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ \” اگر بھوک و افلاک کی وجہ سے دریائے فرات کے قریب ایک کتا ہلاک ہو جاتا ہے تو قیامت کے دن عمر جواب دہ ہوگا \”حضرت عمرؓ نے ایک جانور کی بات کی جو اس کے حدود سے بھی باہر تھا اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو پاکستانی بم دھماکوں، ڈروں حملوں، ٹارگیٹ کلنگ، فرقہ واری جنگ، قبائلی و سیاسی جنگ میں بے گناہ ہلاک ہو رہے ہیں۔یا بھوک و افلاک کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ گرمی و سردی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ یا کسی ڈاکو و لٹیرے کی جال میں پھس کر ہلاک ہوتے ہیں۔ ہر صورت میں صدر زرداری سے لیکر تمام سر کاری ملازمیں مثلاََ پولیس کے حدود میں یا آرمی کے کسی حدود میں واقع ہوتا ہے سب کے سب اللہ کو حُضور جواب دہ ہیں۔پاکستان میں کون کرتا ہے ؟ کیوں کرتا ہے ؟ کون کرواتا ہے ؟ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے ۔عوام کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور ان کی مکمل ٹیم سے ہے کہ یہ لوگ تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں اور اپنی زمہ داری کیوں نہیں انجام دے رہے ہیں ؟یہ لوگ کیا کر رہے ہیں جب دشمن پاکستان کو گیرے میں لیکر تباہ کر رہے ہیں؟ اگر یہ لوگ ناکام ہیں سست ہیں بیکار ہیں تو کرسیوں پر کیوں فائز ہیں؟عوام جانتا ہے کہ یہ تمام جج حضرات، جرنلیں، بیورو کریٹس اور پولیس سمیت تمام ادارے سست اور ناکام ہو چکے ہیں کوئی اپنی زمہ داری پر پورا نہیں اتر رہا ہے لیکن عوام کی خاموشی بھی عوام کے لئے نقصان د ہ ہے۔ عوام کو خلافتِ راشدہ کے لئے اٹھنا ہوگا۔
بحرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بیرونی و اندرونی ایجنٹ پورے پاک سر زمین میں کہیں بلوچ کے نام و شکل میں ، کہیں مہاجر کے نام و شکل میں ، کہیں طالبان کے نام و شکل میں دہشت گردی نظام رائج کر کے اپنے عظائم حاصل کر رہے ہیں ان سے کوئی گلہ نہیں ہے کیونکہ ان سے نمٹنے کے جو حکمران و ادارے قائم ہیں زمہ داری ان کی بنتی ہے۔ ان سے ہی گلہ و شکوہ ہونا ہے کہ یہ ادارے و حکمران کیا کر رہے ہیں ؟
شعر یاد آتا ہے کہ
اِدھر اُ دھر کی نہ بات کر، یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ، تیری رہبری کا سوال ہے ؟۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes