سیاسی سرگرمیوں میں تیزی

Published on March 2, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 136)      No Comments

تحریر؛ چودھری عبدالقیوم
قومی سیاست میں ان دنوں بڑی سرگرمیاں جاری ہیں۔پیپلز پارٹی کاکراچی سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ چل پڑا ہے تو وفاق میں برسراقتدار پی ٹی آئی نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کیخلاف سندھ کو حقوق دلاؤ تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔حکومت کی اہم اتحادی جماعتوں کیساتھ بھی اپوزیشن جماعتوں کے راببطے جاری ہیں گزشتہ روز جماعت اسلامی کے امیر۔۔ نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کیساتھ ملاقات کی بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات کے دوران چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے علاوہ پی ٹی آئی بھی چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی روکاوٹ ہیاس بیان کے اگلے روز ہی وزیراعظم عمران خان ن دورہ لاہور کے دوران چودھری برادران کیساتھ ملاقات کی جس کے بعد چودھری شجاعت حسین کیطرف سے بیان دیا گیا کہ وہ پی ٹی آئی کیساتھ رہ کر سیاست کریں گے۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز قوم سے خطاب میں پٹرول کی قیمت میں دس روپے فی لٹر اور بجلی کی قیمت میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ قیمتیں چار مہینوں تک یعنی نیا بجٹ آنے نافذ رہیں گے واضح رہے کہ دو ہفتے قبل پٹرول کی قیمت ساڑھے بارہ روپے لٹر بڑھائی گئی تھی جبکہ حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں تیل کی قیمت کم از کم ساٹھ روپے فی لٹر تک بڑھائی جبکہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس دن وزیراعظم نے قیمتیں کم کرنے کا اعلان کیا ان دنوں میں روس یوکرائن تنازعے کیوجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا لیکن وزیراعظم دیر سہی لیکن عوام کو ریلیف دینے کے لیے عالمی منڈی اور آئی ایم ایف کی پرواہ کیے بغیر پٹرول اور بجلی کے نرخ کم کرنے کا اعلان کیا تو دوسری طرف ٹھیک اسی روز نیپرا کیطرف سے فیول ایڈجسٹمنت کی مد میں بجلی کے نرخ پانچ روپے پچانوے پیسے فی یونٹ اور اوگرا کیطرف سے گیس کے نرخ بڑھانے کا اعلان بھی کیا امید ہے وزیراعظم اس جانب بھی توجہ دیں گے اور ان اداروں کو فیصلہ لاگو نہیں کرنے دیں گے ورنہ عوام کو ان کی طرف سے دئیے گئے ریلیف کا فائدہ نہیں ہوگا۔ بحرحال ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال کسی افراتفری کی عکاسی کرتی ہیں۔پی ٹی آئی کے پاس اقتدار کا اب صرف ڈیڑھ سال باقی بچاہے تو اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کو جلد سے جلد گھر بھیجنے کے لیے بیتاب ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ورنہ تو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے دن سے ہی وزیراعظم عمران خان کو فارغ کر دیتے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگر حکومت اپنے ساڑھے تیں سالوں میں اپنے وعدوں اور نعروں پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں بھی ابھی تک ناکام نظر آتی ہیں۔ملک میں عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آچکے ہیں لیکن اپوزیشن کیطرف سے مہنگائی کیخلاف بھرپور آواز نہیں اُٹھائی گئی البتہ انھوں نے اپنی تمام تر توجہ وزیراعظم عمران حکومت کو گھر بھیجنے پر مرکوز رکھی جس میں اپوزیشن جماعتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود حکومت کی راہ میں کوئی مشکل یا روکاوٹ پیدا نہیں کرسکی اور پی ٹی آئی کی حکومت اپنی کامیاب حکمت عملی کے ذریعے من چاہی قانون سازی کرنے میں کامیاب رہی۔ان ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے اب اپوزیشن نے مہنگائی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرکے حکومت کیخلاف لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کی سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کی کوششیں کیا رنگ لاتی ہیں اور وزیراعظم عمران کی حکومت اپنے اقتدار کا باقی ماندہ ڈیڑھ سال کس طرح پورا کرتے ہیں کیا وہ عوام کواپنے وعدے کیمطابق مہنگائی اور کرپشن سے نجات دلائیں گے اورملک کرپشن فری نیا پاکستان بنانے میں کامیاب ہونگے جس کے لیے ان کے پاس اب وقت کم ہے لیکن انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اگلا سال 2023ء الیکشن کا سال ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے اندر اقتدار کی نئی جنگ شروع ہوچکی ہے جس کے لیے ٹیمیں اپنے اپنے داؤ پیچ آزمانے کے لیے میدان میں اترنے کی تیاری کررہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت الیکشن کو سامنے رکھ کر اپنی کارگردگی بہتر سے بہتر بنانے کے چکر میں ہیں۔ بحر حال اب فریقین کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت ہیں انھیں ایدوسرے پر سبقت لینے کے لیے بھرپور کھیلنے کا حق حاصل ہے لیکن اقتدار کی اس جنگ میں انھیں ملک اور جمہوریت کا مفاد سب سے زیادہ مقدم رکھنے کی ضرورت ہے

 

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog