یقین اور اعتبار                                                    

Published on July 22, 2022 by    ·(TOTAL VIEWS 68)      No Comments
قراۃالعین شفیق ساہیوال                   
      پیر فیروز اللہ شاہ کی گاؤں میں ایک بہت بڑی حویلی تھی اس کی گاؤں میں بہت سی زمینیں تھی گاؤں کے قریبی قبرستان کے پاس پیر فیروز اللہ شاہ کا بہت بڑا دربار تھا نہ صرف گاوں کے لوگ بلکہ دور دور تک اس کی شہرت کے قصے تھے گاؤں کے لوگوں کا ماننا تھا کہ پیر فیروز اللہ شاہ ہر پریشانی کا حل ہےلوگ لاکھوں پیسے اس کے دربار پر نچھاور کرتے تھے طرح طرح کے صدقے اس کے دربار پر دیے جاتے تھےپیر کے خلاف کوئ بات کرتا تو لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے پیر فیروز اللہ شاہ کالے علم میں ماہر تھا اس بات کا علم صرف اس کے خاص بندوں کو تھا ایک دفعہ ایک عورت دربار میں اکر پیر کے سامنے گڑگڑانے لگی کہنے لگی میرا ایک ہی بیٹا تھا اس نے اپنی من پسند دلہن میرے سر پر لا کر بیٹھادی ہے میں اس کی شادی اپنی بھانجی سے کروانا چاہتی ہوں کچھ بھی کرے اس عورت کو میرے بیٹے سے دور کردیں پیر نے کہا تمہارا کام ہو جاے گا اس کے لیے تمھیں ایک لاکھ روپیہ دینا ہو گا عورت کے پاس اسے دینے کے لیے پیسے نہیں تھے پیر نے کہا پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا یہ جو تمھارے ہاتھ میں دو کنگن ہیں یہ مجھے دےدو تمہارا کام ہو جاے گا اس بوڑھی عورت نے سوچا اور کہا یہ کنگن بہت قیمتی ہیں یہ میں آپ کو نہیں دے سکتی پیر نے کہا بیٹے سے بھی زیادہ قیمتی ہیں کیا یہ کنگن بڑھیا نے کہا کے نہیں بڑھیا کو اپنی بہو سے نجات چاہیے تھی وہ اس کی شادی کرکے اپنی من پسند بہو چاہئے تھی ہر حال میں پھر اس نے کنگن اتارے اور پیر کو دے دیے پیر فیروز اللہ شاہ نے کہا کے کل آکر تعویذ لے جانا جب سے اس کا بیٹا فیضان علیزے سے شادی کر کے اسے گھر لے کر ایا تھا اس کی ماں کلثوم بیگم ہر وقت غصہ میں رہتی تھی اس نے علیزے کو طرح طرح کی تکلیفیں دی لیکن علیزے اسے اپنا نصیب سمجھ کر برداشت کرگئ جب کلثوم بیگم نے دیکھا کے علیزے اس کا ہر ظلم برداشت کررہی ہے تب اس کے ذہن میں تعویذ گنڈوں کا خیال ایااب پیر نے اسے کچھ تعویذ دیے اور کہا کہ کسی طرح اسے یہ تعویذ کھانے کی کسی بھی چیز میں دے دینا میں ادھر چلہ کاٹنا شروع کر دو گارات بارہ بجے کے بعد تمہیں اپنی بہو سے نجات مل جائے گی وہ بہت خوش تھی اسے اپنی منزل بہت قریب دکھائ دے رہی تھی لیکن وہ اپنی خوشی کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی سردیوں کے دن تھے ہلکا ہلکا اندھیرا ہو رہا تھا وہ گھر پہنچی تو علیزے کھانا تیار کر چکی تھی فیضان جب کام سے گھر لوٹا تو علیزے نے جلدی جلدی کھانا لگایا جیسے ہی کھانے سے سب فارغ ہوے علیزے چاے بنانے کے لیے اٹھی کیونکہ کلثوم بیگم کو کھانے کے بعد چاے پینے کی عادت تھی اور علیزے بھی کھانے کے بعد چاے پینا پسند کرتی تھی  علیزے کی ساس کلثوم بیگم نے بڑی شفقت سے علیزے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا اج میں اپنی چاند جیسی بہو کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے چاے بناؤ گئ علیزے اس اچانک ا جانے والی تبدیلی سے بہت خوش بھی تھی اور حیران بھی کلثوم بیگم نے چاے بنای اپنا کپ علیحدہ کیا اور علیزے کی چاے میں تعویذ چمچ سے مکس کرنے لگی فیضان کو دودھ اور علیزے کو چاے دینے کے بعدوہ اپنا کپ لے کر اپنے کمرے میں اگی فیضان نے کہا بہت دن ہو گئے ماں کے ہاتھوں کی چاے نہیں پی اگر تم مناسب سمجھو تو میں تمہارا چاے کا کپ لے لوعلیزے بہت خوش تھی کیونکہ ان پانچ مہینوں میں اج پہلی دفعہ اس کی ساس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا اس نے خوشی خوشی وہ کپ فیضان کو تھما دیا اور خود دودھ پینے لگی جیسے ہی رات کے بارہ بجے فیضان کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا بدن آگ میں جل رہا ہواس سے پہلے وہ علیزے کو اٹھاتا ایک ہی جھٹکے میں اس کی روح پروز کر گئ ادھر کلثوم بیگم کو اس خوشی میں نیند نہیں ارہی تھی بڑی مشکل سے اس نے رات آنکھوں میں کاٹی اس کے علیزے کی موت کے منتظر تھی لیکن اچانک اس کا دروزہ کوئ زور زور سے کھٹکھٹانے لگا دروازہ کوئ اور نہیں بلکہ علیزے کھٹکھٹا رہی تھی علیزے ہوش وحواس سے بیگانہ تھی اس کی زبان سے الفاظ نہیں ادا ہو رہے تھے علیزے کلثوم بیگم کو اپنے کمرے میں لے کر گئ اور کہا کہ  فیضان آنکھیں نہیں کھول رہا ڈاکٹر کو بلایا گیا ڈاکٹر نے کہا کہ اب فیضان اس دنیا میں نہیں رہاکلثوم بیگم اپنے بیٹے کا دکھ برداشت نہیں کرسکی اور وہ اپنے ہوش  وحواس کھو بیٹھی اور اب وہ پاگل ہو چکی ہے اور کہتی ہے کہ میں ڈائن ہوں اور اپنے بیٹے کی موت کی ذمہ دار ہوں علیزے کے ماں باپ نے اس کی شادی ایک خوشحال گھر انے میں کردی وہ اب بہت اچھی زندگی گزاررہی ہے پیر فیروز اللہ شاہ بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے جب وہ ایک رات وہ اپنے کمرے میں سورہے تھے تو اس کمرے میں آگ لگ گئ اور وہ ان کی لاش جل کر کوئلہ بن گئ اور ان کا دربار بھی اب ویران ہو چکا ہے اج کے دور میں بھی اسی فیصد لوگ تعویذ گنڑوں پریقین رکھتے ہیں اور اپنے مستقبل کو درد ناک بنا لیتے ہیں کہتے ہیں مظلوم کو خوشیاں مل سکتی ہیں لیکن ظالم انسان کبھی خوش نہیں کرسکتا ایک سچا مومن صرف اللہ پر یقین رکھتا ہے اور اسی کے اگے جھکتا ہے ان تعویذ گنڈوں پر یقین رکھنے والا انسان تباہ برباد ہو جا تا ہے جس انسان کو اللہ تعالی پر یقین نہیں ہوتا وہی انسان شرک کرتا ہےاللہ تعالی کا ارشاد ہے میں ہر انسان کو معاف کر سکتا ہوں سواے شرک کے شرک بہت بڑا گناہ ہےجس کی سزا انسان کو  اس دنیا میں ہی مل جاتی ہےبے شک مشکلات اور پریشانیاں جتنی بھی ہوصرف اللہ سے مدد مانگےبے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے بے شک اللہ بہت بڑا مددگار اور اسانیاں پیدا کرنے والا ہے وہ کبھی لے کر آزمانا ہے اور کبھی دے کربس مومن وہی ہے جو ہر آزمائش پر پورا اترے
Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes