سفارش کے منفی پہلو

Published on July 31, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 115)      No Comments

تحریر۔۔۔غزل میر
سویڈن میں سفارش چھوٹی کمپنیز میں کچھ حد تک ہو تی ہے اور بڑی کمپنیوں میں باقاعدہ ایمپلامنٹ سسٹم ہو تا ہے،اس سسٹم کو فالو کئے بغیر جاب نہیں ملتی، کچھ بڑی کمپنیوں کا اپنا بھرتی کانظام ہے اور کچھ کے ایکسٹرنل( کمپنی کے اپنے نہیں باہر کے)بھرتی کمپنیاں ہیں جو کہ اشتہار بنانے کا کام کمپنی کے لئے کرتے ہیں اور انٹرویو کے بعد بھرتی کا عمل بھی ہنڈل کرتے ہیں۔سویڈن میں جو لو گ سفارش پر آتے ہیں ان کو پھر بھی اس(ر انٹرویو)کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے،سویڈن کا یونیورسٹی اپلیکیشن سسٹم بھی ہے جس میں آپ کے نمبر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ایڈمشن کس کو ملے گا، سٹوڈنٹ داخل کرنے کے معاملے میں سکول یا یونیورسٹی کے لو گوں کی مداخلت کو ئی نہیں ہے۔
پاکستان میں جو طاقت سب سے بری طر ح استعمال کی جا تی ہے وہ رشتہ داروں اور دوستوں کو کا م پر رکھنا ہے، اور وہ اس کے باوجود کہ وہ ان کاموں کے قابل نہیں ہوتے۔ محض ذاتی رابطے اور تعلق کی بنیاد پر کسی شخص کا انتخاب کرنا غیر منصفانہ(ان فیئر) ہے ،کسی دیانتدار کی خدمات اور محنت کے باوجود ترقی کیلئے منتخب نہ کیا جا ئے تو اس انسان کو کیسا لگے گا؟ کیا واقعی میں پاکستان میں رشتے ملک کی ترقی کیلئے قابلیت سے زیادہ اہم ہیں؟ سفارشی نظام پاکستان کو ترقی کی طرف جا نے سے روک دیتا ہے، نہ صر ف اس لیے کے جن لوگوں کو مواقع فراہم کئے جاتے ہیں وہ ان کے قابل نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ زیادہ تر باصلاحیت قابل اور ہنرمندوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جاے تو ایسی بے حد مثالیں ہیں جہاں ایک ہی خاندان کے افراد ایک ہی جگہ کام کررہے ہیں ۔ پاکستان کی” آزادی” کے بعد سے لوگ اقربا پروری کا شکار رہے ہیں – ایک طاقتور شخصیات کے رشتہ دار آگے جاکے بھی انہی کے رشتہ داروں کو آگے کرتے ہیں ،سیاست کو ترقی اور ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا گیا ہے اور آج بھی وہی نظام ہے۔سب برابری کی بات کرتے ہیں اور انصاف کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔ اگر موقع ملے تو شاید کوئی بھی انسان اپنے خاندان یا جاننے والوں کا ہی فاہدہ سوچے گا۔ لیکن یہ موقع لوگوں کو وہ حکومت دے رہی ہے جس کو لوگ اپنے ووٹ اپنی بہتری کیلئے دیتے ہیں۔تعلیم کو کسی بھی ملک کی ترقی کا واحد زریعہ سمجھا جا تا ہے، تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیوں میں یہ معمول ہے کہ بہت لوگوں نے اپنے رشتہ داروں کیلئے پہلے سے ہی سیٹیں رکھی ہوتی ہیں، یہ صرف غریب ہونہار افراد کے مستقبل کیلئے ایک پریشانی کی بات نہیں بلکہ پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔پاکستان میں نظام اس قدر کرپٹ ہو چکا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ملازمت کیلئے مجرمانہ کاموں میں اپنا مستقبل تبادہ کرچکی ہے، اس لئے کس کو ذمہ دار ٹھہریا جائے ؟یہ پاکستان کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ کم از کم اپنے حصے کا کام خلوص نیت سے کرے، اپنے نوجوان ٹیلنٹ کا ساتھ دیں اور انہیں پیچھے کرنے کہ بجائے اپنی صلاحیتیں دکھانے اور پاکستان کیلئے کام کرنے کیلئے مواقع دیں تاکہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بہتری آئے۔جب پاکستان کا ٹیلنٹ اپنے ملک سے باہر چلا جا تاہے تو ان کے بارے میں اکثر شکایات کی جاتی ہیں کہ اپنے ملک کیلئے کام کرنے کے بجائے” غیر ملک” کی ترقی کرنے گئے ہیں، امیر ہوں یا غریب ہوں اپنے مستقبل کیلئے کوئی بھی انسان سوچے گا، اپنے مستقبل کی لوگ قربانی دیں ایسی توقع کسی بھی ملک کی حکومت اپنی قوم سے کیسے کرسکتی ہے ؟۔
یورپ میں پولیس یا کسی بھی اٹھارٹی کے لیے اپلائی کرنا چاہیں تو اس کے لیے بھی سسٹم ہے۔پہلے تو ان کا معیار پر پورا کیے بغیر پولیس میں ملازمت یا کوئی عہدہ نہیں مل سکتا کوئی عہدہ دلوانے میں مدد کرے بھی تو وہ اپنی قابلیت کے بغیر ایسے عہدے پرزیادہ دیر رہ نہیں پائے گا۔سفارش کے مثبت پہلو ہیں جیسے کہ کمپنیز کے لیے صحیح ملازم ڈھونڈنے میں انہیں مدد مل جاتی ہے اور لوگ جو ملازمت کی تلاش میں ہوں انہیں اپنی من پسند نوکری لیکن سفارش کا غلط استعمال ہواس میں ملک کا بے حد مالی نقصان ہے،مثال کے طور پر ترکی کے بارے میں یہ جانا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ز اچھا کام کرتے ہیں ،ٹورسٹ علاج کے لیے ترکی کو منتخب کرتے ہیں ،یہ ظاہر سی بات ہے کہ جب نظام پاکستان سفارش پر بناہے لوگ نہ ہی صرف باہر کے ملکوں سے علاج کروائیں گے لیکن باہر سے لوگ پاکستان میں علاج کروانے کا سوچیں گے بھی نہیں
شروعات سے لے کر اب تک پاکستان میں ہنرمند اور ذہین لوگوں کو آگے لانے کے بجائے ہمیشہ پیچھے دھکیل دیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کی تتاریخ بھی مختلف ہوتی اس لیے سب کواس بدلتی دنیا میں یہ بات بھی سمجھتے ہوئے تقسیم ہونے کے بجائے مل کر پاکستان کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے ۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题