لیبیاسےڈی پورٹ ہونےوالوں کی آپ بیتی

Published on August 8, 2023 by    ·(TOTAL VIEWS 76)      No Comments

تحریر۔۔۔ جاوید انجم چوہدری
جیلوں کی اذیت کاٹنے, مافیاز کے ہاتھوں یرغمالیاں سہنے کے بعد طویل کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں مزید کچھ لاکھ ائیر ٹکٹ کی مد میں دے کر وہ لیبیا سے ڈی پورٹ کر دئیے گئے. نحیف جسم, لاغر مدقوق چہرے , سہمی آوازیں اور تحیّر زدہ آنکھوں کے بوجھ کندھوں پر لادے جب وہ پاکستانی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اُس وقت پاکستان میں آزانِ فجر کا وقت تھا… 4 بج کر 20 منٹ پر وہ سیالکوٹ ائیر پورٹ پر اُترے, وہ پُراُمید تھے کہ اُن کی اذیتوں کا سلسلہ تمام ہونے کو ہے, وہ وطن میں پہنچ آئے ہیں…. ہم سیالکوٹ ائیر پورٹ پر اُن کو وصول کرنے کے لیے منتظر تھے.
ابھی نمازِ فجر کا وقت تھا, مساجد میں عبادت گزاروں کی پیشانیاں سجدوں میں پڑی تھیں,ہم بھی اسی انتظار میں تھے کہ بچوں کو وصول کریں اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں,لیکن اُنہیں ائیر پورٹ پر روک لیا گیا , وہ قانونی طریقے سے لیبیا گئے تھے اور قانونی طریقے سے واپس لوٹے تھے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک ادارے کے اہلکاروں نے اُن سے گھر جانے کے عوض لاکھوں روپے فی شخص طلب کر لیے, پھر بات ایک لاکھ پر آئی, پھر پچاس ہزار فی آدمی… ہمیں باہر اطلاع دی گئی کہ گھر جانا ہے تو رقم فراہم کیجیے…. لیکن ہم اس چوربازاری کو زہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے. میں اپنے ساتھ موجود عبدالرحیم بٹ صاحب اور دیگر بچوں کے والدین سے اس متعلق بات کر رہا تھا… لیکن ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کہ ہم لیبیا کے اندر موجود مافیاز کے چنگل سے تو عزیزوں کو نکال لائے ہیں.. لیکن ابھی یہاں پھر سے ایک طویل جدوجہد کے بعد ہی گھر پہنچ پانا ممکن ہو گا….
.. طویل سفر کر کے پہنچنے والے بچوں کو ایئرپورٹ کے اندر بھوکے پیاسے بیٹھے 7 گھنٹے گزر چکے تھے…..جب ہم نے نقد رقوم نہ دیں اور سودہ طے نہ ہوا تو دن 11:55 پر اُنہیں ایف آئی اے تھانہ گجرات میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا….
ہم منتقل کرنے والی گاڑیوں کے ساتھ ہو لیے, 1:15 پر گجرات ایف آئی اے تھانہ پہنچے تو گیٹ کھلا ایف آئی اے کی گاڑی اندر داخل ہوئی اور گیٹ بند ہو گیا , ہم باہر روک لیے گئے….ہم نے اس چنگل سے نکلنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں… آزاد کشمیر کے نامی گرامی سابق و حاضر سروس پولیس آفیسرز کے ساتھ ہمارا رابطہ ہو چکا تھا, پولیس انسپکٹر چوہدری شہزاد , پولیس انسپکٹر مہتاب ، پولیس انسپکٹر سردار سہیل یوسف صاحب, پولیس انسپکٹر چوہدری عمران صاحب، اے ایس آئی نعیم بٹ، طاہر ایوب نے ہماری ہر ممکن مدد کی کوشش کی…. لیکن وہاں ہماری کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی…قاسم بٹ سابق مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رابطے میں آ گئے, اُنہوں نے بھی ہماری داد رسی کی کوشش کی, سول سوسائٹی میں سے عبدالقیوم بٹ (نیلم) اور حاجی عمران بٹ نے بھی ہماری مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی…. تمام تر کوششوں کے باوجود سخت مایوسی کا سامنا تھا.. تقریباً چالیس منٹ اُس گیٹ کے باہر انتظار کے بعد ہم صرف اس حد تک کامیاب ہوئے کہ سنتری نے ہمارا پیغام اپنے کسی آفیسر تک پہنچانے کی حامی بھری اور اندر چلا گیا …. اس ساری اذیت ناک صورتحال سے پریشان ہو کر میں نے وزیر حکومت جناب نثارانصرابدالی کو 1 بج کر 56 منٹ پر کال کی, کال اٹینڈ ہوئی, اُنہیں صورتحال سے آگاہ کیا, اُنہوں نے ہم سے کچھ بنیادی معلومات لینے کے بعد انتظار کرنے کا کہا اور کال منقطع کر دی…ٹھیک 2:15 پر ہم دو لوگوں کو اندر بلایا گیا, ایس ایچ او کے آفس پہنچ کر جب ہم نے لیبیا سے آنے والے بچوں کی بات کی تو ایس ایچ او نے اپنے جونئیر آفیسر سے دریافت کیا “کیا ڈی پورٹیز آ چکے ہیں؟” اُس نے پہنچنے کی تصدیق کی تو ایس ایچ او نے کہا “تھوڑی تک میں آپ سے بات کرتا ہوں انتظار کریں” یہ کہتے ہوئے کمرے باہر چلے گئے،(میں نے عبدالرحیم بٹ سے کہا لگتا ہے کہیں سے پیغام پہنچ چکا ہے ایس ایچ او تک)کوئی 20 منٹ بعد واپس آ کر بتایا کہ بچوں کے بیانات لے کر ریلیز کر دیں گے…. ہمیں ابھی تک بچوں سے ملوایا نہیں گیا تھا…. ایس ایچ او نے ہمیں بچوں سے ملنے کی احازت دی… میں باہر نکلا ہی تھا کہابدالی کی کال آ گئی, میں نے پیش رفت بتائی تو اُنہوں نے ایس ایچ او سے بات کروانے کا کہا… میں نے اپنے فون سے ایس ایچ او سے بات کروائی… ابدالی کی بات کے جواب میں ایس ایچ او نے بچوں سے کچھ معلومات لینے کے بعد اُنہیں گھر بھیج دینے کا عندیہ دیا. بیانات قلمبند کرنے کے بعد اُسی تھانہ کے عملے نے ہم سے دوبارہ فی آدمی 50,000 روپے مانگنا شروع کردیئے…. جب ہم مُکر گئے تو پھر 30,000 کا مطالبہ کیا گیا….اسی سودہ بازی میں کچھ گھنٹے مزید گزر گئے….. پھر ابدالی صاحب کی کال آئی اور اُنہوں نے پیش رفت کے متعلق پوچھا میں نے حالات کے متعلق بتایا تو اُنہوں نے ایک روپیہ بھی دینے سے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او کی میٹنگ ختم ہونےکا انتظار کریں، میں پتہ کرتا ہوں کیا معاملہ ہے، رقم مانگنے کے متعلق جب ابدالی صاحب نے بتایا تو ایس ایچ او صاحب نے معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ میں میٹنگ میں تھا کسی جونئیر نے یہ حرکت کی ہو گی میں ابھی بچوں کو ریلیز کرتا ہوں…آخرِ کار شام 7 بج کر 40 منٹ پر بچوں کو تھانہ سے رہا کردیا گیا, میرے بیٹے فصیح جاویدچوہدری کے علاوہ لیبیا سے ڈی پورٹ ہونے والے مزید 12 بچے اور بھی رہا ہو کر باہر آئے…. اِن میں سے دس بچے حلقہ کھوئی رٹہ سے تھے جبکہ تین کا تعلق, ڈونگی, نکیال اور چکسواری سے تھا… آخری بچے کے باہر آنے تک نثارانصرابدالی نے سُکھ کا سانس نہیں لیا اور لگ بھگ 6 گھنٹے ہمارے ساتھ مکمل رابطے میں رہے.15 گھنٹوں کی اِس شدید زہنی و جسمانی مشقت کے بعد ہم اپنے پیاروں کو لے کر گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں خیالات میں ڈوبا سوچ رہا تھا کہ خدا کی ذات کاسۂ ظرف دیکھ کر ہی نوازتی ہے, جو اعلٰی ظرف ہوتے ہیں وہی بامِ عروج پر پہنچتے ہیں, خدمت اُنہی کو سونپی جاتی ہے جن کے دل میں مخلوق کا درد ہوتا ہے…. عزت اُنہی کو نصیب ہوتی ہے جو صاحبِ شرف ہوتے ہیں…. لگ بھگ 6 گھنٹوں تک جس طرح وزیر حکومت #نثار_انصر_ابدالی_صاحب نے ساری حکومتی مصروفیات چھوڑ کر اسلام آباد میں پوری حکومتی مشینری متحرک کی اور اپنی ریاست اور اپنے حلقہ انتخاب کے بچوں کی بغیر کسی رشوت کی ادائیگی کے فوری رہائی کروائی وہ کسی احسان سے کم نہیں…. اگر #ابدالی صاحب اتنے اخلاص اور ہمدردی سے کوششیں نہ کرتے تو ان لُٹے پُھٹے لیبیا سے ڈی پورٹ ہونے والے بچوں کے گھر بار بھی بک جاتے تب جا کر یہاں بیٹھے حرام خوروں سے جان بخشی ہوتی. میں تمام 13 واپس آنے والے بچوں کے والدین کی طرف سے نثارانصرابدالی کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہاں صرف تنقید برائے تنقید اور سیاست سیاست کھیلنے والوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ابدالی صاحب عملی کام کر کے انسانی سمگلنگ کا شکار لوگوں کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں….. اس طرح کی گندی سیاست کہ کس نے پہلے فاتحہ پڑھ لی کس نے بعد پڑھی , اس سے باہر نکلیں… اور ایسے مردِ درویش کا شکریہ ادا کریں جو بے لوث خدمت میں مصروف عمل ہے……… اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو. آمین

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Themes