پولیس تھانہ ٹیکسلا کا دو افراد کے اغواء برائے تاوان میں ملوث ہونے کا انکشاف

Published on August 3, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 411)      No Comments

SANYO DIGITAL CAMERA
واہ کینٹ(یو این پی /ڈاکٹر سید صابر علی سے)پولیس تھانہ ٹیکسلا کا دو افراد کے اغواء برائے تاوان میں ملوث ہونے کا انکشاف ،پولیس کے بہمانہ تشدد کے بعد بھاری رشوت کے عوض پولیس کے چنگل سے آزاد ہونے والے شہری نے پولیس کی غیر قانونی سرگرمیوں کا پردہ چاک کردیا،بائیس سالہ نوجوان تاحال بازیاب نہ ہوسکا،ایس ایچ او تھانہ ٹیکسلا نے جان خلاصی کے لئے واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں اور شامل ساتھیوں کے خلاف مدعی مقدمہ بنتے ہوئے زیر دفعہ 365,342 اور پولیس آرڈر 155C تحت مقدمہ درج کرلیا،قوی شبہ ہے کہ پولیس تشدد کے باعث زیر حراست بائیس سالہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،پولیس کی جانب سے رہا ہونے والے شہری کو چپ رہنے کی تلقین ، منہ کھولا تو اس سے بھی برا برتاو کریں گے،، شہر چھوڑ دو اور اسے ایک بھیانک خواب سمجھتے ہوئے بھول جاؤ،پولیس کا غیر قانونی حراست سے رہا ہونے والے شہری کو دھمکیوں کا سلسلہ جاری،بائیس سالہ نوجوان کے بھائی نے کیس میں مدعی مقدمہ بننے کی درخواست کردی،بھائی کے اغواء میں ملوث ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اپیل،تفصیلات کے مطابق ٹیکسلا کے علاقہ احاطہ کے رہاشی اول خان ولدہاشم خان نے میڈیا کو بتایا کہ ماہ رمضان میں ساتوں روزے کے دن میں اور میرا دوست عبدالحمید فرنیچر خریدنے کی غرض سے نکلے ٹیکسلا اڈہ پر سات آٹھ پولیس کے ملازمین نے انھیں گھر لیا جبکہ آنکھوں پر پٹیا باندھ کر نامعلوم مقام پر لے گئے اس دوران پولیس ہمیں مختلف مقامات پر منتقل کرتی رہی جبکہ پولیس نے ہم دونوں پر غیر انسانی تشدد روا رکھا انھیں کرنٹ لگایا گیا، پلا س سے پاوں کے ناخن کھینچے گئے، ہاتھ پاوں باندھ کر بہمانہ تشدد کیا گیا، الٹا لٹکا کر مارا گیا،اول خان کے مطابق گیارہ رو زبعداسے بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، جس کے بعد پولیس نے انھیں بچوں سمیت شہر چھوڑنے اور کسی کو واقعہ کے متعلق نہ بتانے کی تلقین کی اورمنظر سے غائنب ہونے کے لئے کہا گیا، حتیٰ کہ لاہور عوامی ہوٹل میں رہنے کے لئے کچھ رقم بھی دی ، اول خان کا کہنا تھا کہ دوران تشدد اسکے پیشاب سے خون بہتا رہا مگر پولیس والوں کو زرا بھر ترس نہیں آیا،پولیس کی غیر قانونی حراست کا پردہ چاک کرتے ہوئے اول خان کا کہنا تھا کہ انھیں واہ کینٹ جمیل آباد میں ملک غلام ربانی کے ڈیرے سمیت ، ایس ایچ او ٹیکسلا کے روالپنڈی میں زیر تعمیر مکان، گجرانوالہ سمیت مختلف جگہوں پر ٹارچر کی غرض سے منتقل کیا جاتا رہا، اول خان نے شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ میرے ساتھی بائیس سالہ عبدالحمید ولدنذیر خان کو پولیس تشدد کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ،ادہر عبدالحمید کے بھائی جہانزیب خان نے اول خان کی واپسی کے بعد اور بھائی سے متعلق معلومات کی فراہمی کے بعد چوکی انچارج سٹی ٹیکسلا سرکل کو تحریری درخواست دی ہے جس میں ایس ایچ او تھانہ ٹیکسلاملک محمد خان کو کیس میں براہ راست ملوث کرنے کی استدا ء کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ اسے مدعی مقدمہ بنایا جائے ،ادہر کیس سے جان چھڑانے کے لئے ایس ایچ او تھانہ ٹیکسلا ملک محمد خان نے اپنی ہی مدعیت میں یکم اگست کو اغواء برائے تاوان اور شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے پر زیر دفعہ 365/342 پی پی سی اور پولیس آرڈر 2002 155-C کے تحت مقدمہ درج کرلیا ایف آئی آر کے مندرجات میں کہا گیا کہ عمران محمودولد حاجی فقیر محمد ساکن گھیلا خورد ٹیکسلانے بتایا کہ آپ کے تھانے کے ملازمین نے دوافراداول خان اور عبدالحمید کوکئی روز سے طبعہ نفسیاتی کی خاطر مبحوس کر رکھا ہے،جبکہ اول خان کو چھوڑ دیا گیا لیکن اسکا ساتھی عبدالحمید تاحال گھر نہیں آیا ،متذکرہ پولیس کانسٹیبل کے متعلق محر ر تھانہ سے معلومات لی گئیں جو غیر حاضر پائے گئے،ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا گیا کہ مذکورہ پولیس ملازمین نے میرے اور کسی بھی آفیسر کے نوٹس میں لائے بغیر ہر دو افراد بالا کو غیر قانونی طریقے سے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اغواء کر کے نامعلوم جگہ پر مبحوس رکھکر ارتکاب جرم کیا،مذکورہ اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے سٹی چوکی انچارج ٹیکسلا افتخار احمد کو تفتیشی آفیسر مقرر کیا گیا، ایف آئی آر میں جن پولیس ملازمین کے خلاف اغواء برائے تاوان ودیگر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ان میں ایس ایچ او کے کار خاص پولیس ملازمین ذوالفقار علی پیٹی نمبر 2129 ، سعید پیٹی نمبر6069 ، ظہیر اقبال پیٹی نمبر7060 ،جبکہ دو پرائیویٹ اشخاص خرم بٹ ، نصیر خان نیازی جو اپنے آپ کو پولیس ملازم ظاہر کرتے تھے ،شامل ہیں،ادہر پولیس کی غیر قانونی حراست سے رہا ہونے والے اول خان ولد ہاشم خان اور تاحال بازیاب نہ ہونے والے بائیس سالہ نوجوان عبدالحمید کے بھائی جہانزیب خان نے پولیس کے اعلیٰ حکام ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبا زشریف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ہمیں انصاف دلایا جائے،جبکہ جہانزیب خان نے بھائی کی بازیابی کے لئے پرزور اپیل کی ہے ، بائیس سالہ نوجوان عبدالحمید کیا پولیس کے بہمانہ تشدد سے ہلاک ہوچکا ہے یا ابھی بھی پولیس کی غیر قانونی حراست میں ہے یہ معلومات کیس میں نئی سننی پیدا کریں گے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Free WordPress Themes