کرسی کی جنگ

Published on October 3, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 1,044)      No Comments

 

“کرسی کی جنگ”

10706442_704085796345957_150035_nوفاق میں حکمران جماعت کے علاوہ تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں نے نفسا نفسی اور کھینچاتانی کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہر جماعت کے قائدین کی خواہش ہے کہ کسی طرح انہیں زیادہ لوٹ مار کرنے کا موقع بھی ملے اور ساتھ میں کچھ “ایسا” بھی ہوجائے جس سے انہیں “عوامی ہمدردی” بھی حاصل ہوجائے۔ سب لیڈرز اپنی اپنی جگہ “حاجی” بننے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ بلکہ بعض لیڈرز تو پہلے سے ہی “حاجی” ہیں اور اب “الحاج” بننے کے چکروں میں ہیں۔ شہرِ اقتدار میں دھرنے اور ملک بھر میں جاری جلسے جلوس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ سب لوگ اقتدار کے بھوکے ہیں اور صرف “کرسی کی جنگ” لڑ رہے ہیں۔ خان صاحب ہوں یا مولانا صاحب، یا دوسرے تیسرے۔۔۔ انہیں بس وزارتِ عظمٰی کی “کرسی” چاہیئے۔ اس مقصد کیلئے یہ لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حکومتِ وقت کے خلاف پراپیگنڈے میں بیشمار سرمایا برباد کیا جارہا ہے، وطنِ عزیز کی معیشیت پر ظالموں کے بدترین حملوں نے عوام کو عذابِ مسلسل میں مبتلا کررکھا ہے۔

تحریک انصاف نے ملک بھر میں جلسے جلوسوں کی مہم کا آغاز کرلیا۔ ان جلسوں میں عوام کی خاصی تعداد دیکھنے میں‌آئی۔ وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت اور تحریک انصاف کے ملک بھر میں جلسے جلوسوں کی “شہرت” دیکھ کر طاہر القادری کے دل میں طرح طرح کے “برے خیالات” اور “وسوسے” آنے لگے۔ لائیو کوریج اور میڈیا پروٹول کی عدم دستیابی کی وجہ سے موصوف نے بوکھلاتے ہوئے نئی حکمت عملی “وضع” کرلی۔ سننے میں آیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری آئندہ انتخابات میں دوسری جماعتوں ایم کیوایم، مسلم لیگ ق اور سنی اتحادکونسل کے ساتھ اتحاد بین المسلمین سے مل کرحصہ لیں گے۔ طاہرالقادری نے یہ فیصلہ عمران خان کادھرنوں سے اٹھ کر طاہرالقادری سے صلاح مشورے کئے بغیر ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کرنے کاجوسلسلہ شروع کیا ہے اس سے مایوس ہوکر سیاسی جماعت کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ کرلیاہے۔ یہ فیصلہ طاہرالقادری نے اپنی جماعت کے اعلٰی عہدیداروں سمیت مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما، سنی اتحادکونسل، اتحادبین المسلمین اورایم کیوایم کی مرکزی قیادت سے مشاورت کے بعدکیا۔ طاہرالقادری نے یہ فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ عمران خان جہاں جہاں جلسے کریں گے انہی شہروں میں وہ بھی جلسے کرکے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور تحریک انصاف کے ووٹ توڑنے کی پوری جدوجہد کریں گے۔ اس سلسلے میں عیدکے فوری بعد 12 اکتوبر کو فیصل آباد میں اور 19 اکتوبرکو لاہور میں جلسے کرانے کافیصلہ کیا۔ مزید یہ کہ لاہور کے جلسے میں ہی ملک بھرمیں کیے جانیوالے آئندہ جلسوں کاشیڈول بھی جاری کیاجائیگا۔ طاہرالقادری نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں اور اپنے دیگر ہم نواسیاسی قائدین کو بتایا کہ عمران خان نے ان کے ساتھ “بے وفائی” کی ہے کیونکہ ایک “خاص معاہدے” کے مطابق تحریک انصاف اور عوامی تحریک کادھرنااس وقت تک جاری رہنا تھا جب تک وزیراعظم کے استعفٰی دینے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہ ہوجائیں۔ مگر خان صاحب نے ان کے مشورے کے بغیر خود ہی طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک اورمنہاج القرآن کے کارکنوں کواستعمال کرکے اپنی وزارت عظمیٰ کیلئے راہیں ہموارکرناشروع کردیں جوکہ طاہر القادری کیلئے “پکاواں میں، تے کھاوے کوئی ہور” کے مصداق کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

دوسری طرف پاکستان سنی اتحادکونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کے حقیقی تایااورگدی نشین محدث اعظم صاحبزادہ فیضل رسول رضوی اوران کے بیٹے فیض رسول رضوی و دیگرتحریک اہلسنت کے 350 علماء نے اسلام آبادمیں طاہرالقادری کے دھرنے کوحرام قرار دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ یہ دھرنے بیرونی اشاروں پرملکی حالات خراب کرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں تاکہ ملک میں افراتفری اورخانہ جنگی جیسے حالات پیدا کئے جاسکیں۔ ان حالات کودیکھتے ہوئے طاہرالقادری نے اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کوسیاسی دائرے میں لانے کے ساتھ ساتھ آئندہ انتخابا ت میں، جوکہ طاہرالقادری کو ہونے والے “الہام” کے مطابق 2016ء میں انعقادپذیر ہوں گے، اس میں بھرپورحصہ لیاجائیگا۔ ان “الہامی انتخابات” میں ملک بھرمیں قومی، وصوبائی اسمبلیوں میں پاکستان عوامی تحریک اپنی اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ ق، اتحادبین المسلمین اور پاکستان سنی اتحادکونسل کی مشاورت سے اپنے امیدواران میدان میں لائے گی۔ مختصراََ مولانا طاہرالقادری اوران کی جماعت سیاسی حسد کی آگ میں جلتے ہوئے کسی بھی صورت میں نہیں چاہتی کہ آئندہ انتخابات میں طاہر القادری کے “سیاسی کزن” اور پاکستان تحریک انصاف کے قائدعمران خان کامیاب ہوکر آئندہ بننے والی حکومت میں “وزیراعظم کی کرسی” پر بیٹھ سکیں۔ اپنے “عزائم” کے حصول کیلئے طاہرالقادری اپنی ہمنوا سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ سابق آمر حکمران اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ “جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف” کی “منّتیں” بھی کریں گے اور آل پاکستان مسلم لیگ کی چند ووٹیں حاصل کرکے بھرپور “الہامی قوت” کامظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم بن سکیں اور پاکستان میں اپنے ایجنڈے کے مطابق “خلافتِ طاہریہ” قائم کرسکیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر یہ دھرنے، جلسے جلوس اور سیاسی کشمکش اسی طرح جاری رہی اور اس صورتحال سے اگر ملک میں مڈٹرم انتخابات کی فضاء قائم ہوئی تواس کافائدہ پاکستان تحریک انصاف اورعوامی تحریک کی بجائے پاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان مسلم لیگ ن کوپہنچے گا۔ “باغی سیاستدان” کے مطابق موجودہ سیاسی موسم ایک خاص سکرپٹ کا حصہ ہے۔ اس خاص سکرپٹ کے مطابق شہر اقتدار میں طویل المدّتی دھرنے دیئے جائیں گے، جس سے ” تاریخ” رقم ہوگی۔ سکرپٹ کے مطابق دھرنوں کے شرکاء، وزیر اعظم کے استعفے کے بغیر واپس نہیں جائیں گے، پارلیمنٹ پر حملہ کریں گے اور دھرنے کے شرکاء کے قائدین معصوم عوام کی لاشیں گرانے کیلئےکسی بھی حد تک جائیں گے، تاکہ ان لاشوں کے بل بوتے پر حکومت گرائی جا سکے۔ اور اگر یہ سب نہ ہو پائے تو آخری کوشش کے طور پر “گو نواز گو” کے نعرے لگوا کر حکومتی پارٹی کے کارکنوں کو اتنا زچ کر دیں گے کہ متشدد جھگڑے شروع ہوجائیں۔ ریڈ زون میں اگر لاشوں کے حصول کے مقاصد میں ناکامی ہوتو کسی اور طریقے سے لاشیں حاصل کرلی جائیں تاکہ خانہ جنگی کا ماحول گرم ہو اور مسلم لیگ نون کو بری طرح بدنام کردیا جائے جس سے مسلم لیگ نون حکومت کرنے کا جواز کھودے۔ عمران خان کا شہر شہر پھرنا اور جلسے کرنا، اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بھی جلسے کرنے پہ اکسانا اور چیلنج دینا تاکہ حکومت بھی جلسے جلوس کی سیاست میں اتر آئے اور الیکشن کا ماحول پیدا ہو جائے اور اس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ حکومت غیر مقبول ہوگئی ہے۔ جیسا کہ جماعتِ اسلامی کے سراج الحق نے بھی فرما دیا کہ جماعت اسلامی بھی جلسے کرنے جا رہی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے جلسے پچھلے الیکشنز کے ردعمل میں نہیں بلکہ اگلے الیکشنز کی تیاری کے طور پر منعقد کیے جائیں گے۔ سکرپٹ کے مطابق سیاسی موسم کی “اونچ نیچ” کے اس سارے گھٹن آمیز ماحول میں پاکستانی عوام یہ سوچنے لگیں کہ اب نوازشریف حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ باقی کا پلان پرویز مشرف نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں بتا ہی دیا ہے کہ الیکشنز نہیں ہونگے، بلکہ طویل دورانیے کی عبوری حکومت قائم ہوگی۔

طاہر القادری اور عمران خان میں ایک قدر قدرے مشترک ہے کہ یہ دونوں حضرات “میں پسندی” کی بیماری کا شکار ہیں۔ عمران خان کی بات تو ایک طرف، “اپنے منہ میاں مٹھو بننا” والی کہاوت طاہرالقادری پر “بہت شدت سے” فٹ آتی ہے۔ ان دونوں کی “اناپرستی” کیوجہ سے عوام اور وطن عزیز کا بہت نقصان ہورہا ہے۔ راقم سمیت کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ “طاہر القادری ایسا بندہ ہے جو سب سے زیادہ اپنی عزت خود ہی کرتا ہے۔” موصوف کبھی تو جھوٹے خوابوں کا سہارا لیتے ہیں اور کبھی الہامی پیشگوئیوں کے مرتکب بنتے ہیں۔

تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے مطابق اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف علی زرداری ہیں۔ .مطلب صرف ان تین افراد کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا اور صرف یہی کرپٹ ہیں.
ان قائدین کی جماعتوں میں شامل چور ڈاکو لٹیرے جنہوں نے بے تحاشا کرپشن کی، جب تک وہ انہی پارٹیوں میں رہیں گے کرپٹ کہلا ئینگے اور جیسے ہی وہ پی ٹٰٰی آئی یا پی اے ٹی میں شمولیت اختیار کریں گے تو وہ کرپشن سے بالکل پاک صاف ہو جائیں گے. ان کی لاجک کے مطابق جس دن ملک سے نوازشریف اور زرداری کی حکومت ختم ہو جائے گی اسی دن تبدیلی بھی آجائے گی اور انقلاب بھی فوراََ وقوع پذیر ہوجائے گا۔
یہ کیسی تبدیلی اور کیسا انقلاب ہے؟؟؟
اگر حکومتیں بدلنے اور گرانے سے تبدیل آنی ہوتی تو آج 64 سال کے بعد پاکستان بھی ترقی یاقتہ ممالک کی صفِ اول میں کھڑا ہوتا۔ یہ سب “کرسی کی جنگ” لڑرہے ہیں۔ حکومتیں بدلنے سے “تبدیلی” نہیں آتی۔ تبدیلی لانے کیلئے “نظام” بدلنا پڑتا ہے۔

چند روز قبل میرے عزیز دوست اور معروف صحافی و کالمسٹ ڈاکٹر خرم چوہدری کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس میں موصوف نے “گو نواز گو” اور “گونظام گو” کے نظریے کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ایسے نعرے بلند کرنیوالے لوگ صرف چہرے اور مہرے بدلنے کی علمبردار ہیں۔ لیکن پاکستانی عوام کو چہرے یا مہرے بدلنے والے لیڈران کی بجائے نظام کی اصلاح کرنیوالوں کی اشد ضرورت ہے۔ ملک بھر میں کرپشن، لاقانونیت، فسادات، ظلم و ستم اور بےروزگاری ملکی نظام کی خرابی کا اشارہ دیتی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو لیڈران عوام کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں، وہ عوام کا درد محسوس کرتے ہیں اور عوامی مسائل کا سامنا بہت دلیری کیساتھ کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی سرگرمیاں، “کرسی کی جنگ” کا حصہ ہیں۔”نام نہاد عوامی نمائندے” عوام کو نفرتوں اور تقسیم کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ “کرسی کی جنگ” کیلئے یہ نام نہاد لیڈران کسی بھی “لوٹے” اور “کرپٹ” سیاستدان کو اپنے ساتھ شامل ہونے پر اسکے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے اس بالکل پاک صاف قرار دے دیتے ہیں۔ اس “کرسی کی جنگ” نے اب تک تو بیشمار گھروں کو برباد کیا ہے، لیکن اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو پاکستان کبھی “کرسی کی جنگ” کے موسم میں ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔

اقتدار کے بھوکے لیڈران تو کسی بھی وقت بیرون ملک کوچ کرجائیں گے لیکن مجھے اور آپ کو ان بدترین حالات میں ذلالت کی زندگی گذارنے کیلئے چھوڑ جائیں گے۔ سیاسی اتار چڑھاءو کو دیکھتے ہوئے ایک بات تو طے ہے کہ ان لیڈران کو عوامی مسائل میں دلچسپی نہیں۔ اور یہ لوگ عوام کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ کر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سرگرمِ عمل ہیں۔
اللہ ہمارے پاکستان کو “کرسی کی جنگ لڑنے والے بھوکے سیاستدانوں” کے شر سے پناہ دے۔ آمین

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Themes