زلزلے کے بعد ۔ ۔ ۔

Published on October 9, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 578)      No Comments

122222 میں اُس وقت اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زلزلہ2005 میں زخمی ہونے والے اپنے رشتہ داروں کی خیریت دریا فت کرنے گیا تھا ۔پمز ہسپتال میں موجود ہیلی پیڈ پر مسلسل زخمیوں کو لایا جارہا تھا۔جونہی کوئی ہیلی کاپڑلینڈ کرتا تو وہاں پر موجود رضاکار تیزی سے سٹیچر اور دیگر سامان لے کر دوڑتے اور زخمیوں کو ہسپتال کی ایمرجنسی میں منتقل کردیتے۔اس دوران جب ایک ہیلی کاپٹر نے لینڈ کیا تو ایک لیڈی ڈاکٹر اپنے ساتھی ڈاکٹروں کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتی روتی ہوئی اندر داخل ہوئی ۔لیڈی ڈاکٹر کا اشارہ تو خیر میں سمجھ نہیں پایا لیکن ’’چادر چادر ‘‘ کے الفاظ میری سماعتوں سے ٹکرائے تو میں بھی اپنے آنسو نہیں روک پایا۔باہر ہیلی پیڈ پر لائی جانے والی زخمی اماں جی کے سر پر چادر نہیں تھی ۔زلزلے کے بعد اسلام آباد پہنچائے جانے والے زخمیوں میں سے اکثریت کی یہی کہانی تھی ۔نہ پاؤں میں جوتی تھی نہ سر پر چادر ۔نہ ہی رشتہ داروں اور گھر بار کی خبر ۔زخموں سے چور۔ غم سے رنجور ۔آنکھوں میں برپا ہونے والی قیامت کا کرب لیے ۔بے سر و سامانی کے عالم میں یہ سہمے ہوئے یہاں پہنچے تھے۔کتنے ہی زخمی ایسے تھے جنہیں ہسپتال کے بستر پر ہی اپنے عزیر و اقارب کے بچھڑنے کی خبریں ملتی رہیں۔کچھ ایسے بھی تھے جنہیں مہینوں بعد معلوم پڑا کہ کون زندہ ہے اور کون نہیں۔اسلام آباد میں پہنچائے جانے والے زخمیوں کی آؤ بھگت کے لئے تو یہاں کے شہری ،ڈاکٹرز ،رضاکار سب حاضر تھے۔سب ایک دوسرے سے بڑھ کر کرنا چاہتے تھے۔ڈاکٹروں کا کام زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا لیکن یہ زخمیوں کے سر پر چادر اور پاؤں کے لیے جوتی کا انتظام بھی نظرآرہے تھے۔رضا کار رات بھر جاگتے تھے لیکن زخمیوں کی مکمل دیکھ بھال کے فرائض انجام دے رہے تھے۔شہری آبادیوں کا تو یہ حال تھا کہ شہری سحری کے بعدزخمیوں کے لیے ناشتہ لے کر ہسپتال پہنچ جاتے تھے۔اور اپنے ہاتھوں سے زخمیوں کو ناشتہ کرواتے تھے پھر دفتروں کو جاتے تھے۔سی ڈی اے ہسپتال میں میں نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
پیچھے زندہ بچ جانے والوں کے لیے زخمیوں کی دیکھ بھال اور اپنے عزیزوں کی تدفین کا عمل انتہائی دردناک تھا ۔جہاں جنازے زیادہ ہوجائیں اور ان کی تدفین کرنے والے اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے والے کم پڑ جائیں تو وہاں کیا منظر ہوا ہوگا۔بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں میں دفن ہوگئی ۔19 ہزار بچوں سمیت87 ہزار افراد جان بحق ہوئے ۔ زلزلہ سے 33 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جبکہ 80 لاکھ آبادی براہ راست متاثر ہوئی ۔ اسی طرح چار لاکھ عمارتیں سات ہزار سیکولز تباہ ہو گئے ۔چند ہی روز میں نہ صرف اہل وطن نے بڑھ چڑھ کر امدادی سامان بھیجا بلکہ عالمی برادری نے بھی انسانی ہمدردی کے تحت بے تحاشہ امداد دی۔ لیکن بدقسمتی سے اس امداد کی تقسیم میں عدم شفافیت نے عالمی برادری کے ہمارے اوپر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔
اسلام آباد میں ڈونر ز کانفرس کا انعقاد کیا گیا۔ڈونرز کانفرس کے نتیجے میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر دینے کے وعدے کیے گئے تھے ۔جن میں سے 98 فی صد وعدوں پر عمل ہو چکا ہے۔جتنی امداد باہر سے آئی اس سے متاثرہ علاقوں کی کئی بار تعمیر ممکن تھی۔اس حوالے سے سابق صدر آزادکشمیر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس امداد سے آزادکشمیر کی سات پشتیں سنور جائیں گی ۔بیرون ملک مقیم کشمیریوں اور پاکستانیوں نے انفرادی حیثیت میں کروڑوں روپے متاثرین میں تقسیم کیے۔حکومت اور اداروں کی طرف سے عارضی بنیادوں پر تو اقدامات دیکھنے کو ملے ۔لیکن مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کا فقدان نظرآیا۔بحالی اور تعمیر نو کا کا م ادھورا پڑا ہے۔سرکاری عمارات ابھی تک نہیں بن پائیں۔مراکز صحت کی تعمیر تعطل کا شکار ہے ۔حویلی میں تباہ ہونے والا ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال ابھی تک تعمیر نہیں ہوسکا۔یہاں پر ایک ڈاکٹر کام کررہا ہے(وہ بھی ایڈ ہاک بنیادوں پر )۔یعنی ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایک مستقل ڈاکٹر بھی تعینات نہیں۔اس ڈسٹرک ہیڈ کواٹر ہسپتال میں بنیادی مرکز صحت جتنے وسائل بھی دستیاب نہیں۔زلزلے کے بعد اسلام آباد سمیت دیگر شہروں کے بڑے اسپتالوں میں70 ہزار آرتھوپیڈک جبکہ20 ہزار کے قریب نیوروسرجری اور ریڑھ کی ہڈی کے چھوٹے بڑے آپریشنز کیے گئے ۔دارلحکومت کے پمزہسپتال کے اندر جگہ کم پڑنے سے زخمیوں کو طبی امداددینے کیلیے سیکڑوں بیڈ باہر کھلے آسمان تلے لگائے گئے،اور یہ تمام آپریشنز ہسپتال کے محض 2 آپریشن تھیٹرز میں دن رات کیے گئے۔اس وقت کی حکومت کے وزیر صحت نصیر خان نے پمز کے احاطے میں 22 منزلہ میڈیکل ٹاور بنانے کی منظوری دی جس کیلیے50 کروڑ روپے سے زائد کابجٹ بھی مختص کیا گیا، منصوبے کا مقصد زلزلے اوردیگر ہنگامی حالات سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنا تھا ،منصوبے کے تحت 22 منزلہ ٹاور میں کینسر سمیت تمام امراض کے علاج کیلیے عمارت تعمیر کی جانی تھی جبکہ 3 آپریشن تھیٹرز بھی بنائے جانے تھے،منصوبے کے مطابق جہاں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور ٹیکنیکل سٹاف بھرتی کیا جانا تھا وہاں پر انفراسڑکچر کو بھی اپ گریڈ کرنے کی منظوری دی گئی تھی تاہم یہ منصوبہ کاغذوں کی نذرہو گیا اور
آج 8 برس گزرنے کے بعد بھی اس منصوبے کی کسی ایک شق پر عملد ر آمد نہیں ہوا، جڑواں شہروں کی آبادی40 لاکھ سے زائد سے تجاوزکر چکی ہے۔لیکن کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے ہسپتالوں میں کوئی اقدامات نظر نہیں آتے۔ 9 سال گزرنے کے باوجود بھی زلزلے میں تباہ ہونے والے 67000 سکولوں میں سے بڑی تعداد میں سکولوں کی عمارات ہی تعمیر نہیں کی جاسکیں ۔جن سکولوں کی عمارات تعمیر ہوئی ہیں ان میں سے اکثریت میں زلزلہ سیفٹی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ کیونکہ یہ علاقہ فالٹ لائن پر واقع ہے ۔اس پر موجود نجی عمارات کا بھی جائزہ لیا جاتا ۔انہیں زلزہ پروف بنانے اور نجی تعلیمی اداروں کے ڈیزائن پر خصوصی توجہ دی جاتی ۔لیکن نجی تعلیمی اداروں کی آج زلزلے کے پہلے سے بھی بری صورتحال ہے۔زیر تعمیر ،ملٹی سٹوری بلڈنگ جہاں جگہ ملی پرائیوٹ سکول مالکان نے تدریسی عمل شروع کردیا۔جس کے باعث دوبارہ زلزلے کی صورت میں بچوں کی ایک بڑی تعداد کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔زمینی راستوں کی تعمیرنو پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔کواہلہ دھیرکوٹ(چند کلومیٹر) روڈ گیارہ سال سے زیر تعمیر ہے۔دھیرکوٹ رنگلہ روڈ خستہ حالی کا شکا ر ہے۔اسی طرح پاکستان کیساتھ رابطے کی دوسری سڑکوں تعمیری کا سست روی کا شکار ہے یا پھر ان پر تعمیری کا م شروع ہی نہیں کیا جاسکا۔برسوں گزرنے کے بعد بھی کواہلہ مظفرآباد روڈ کو محفوظ نہیں بنا یا جاسکا۔ذرا سی بارش کی صورت میں یہ روڈ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آجاتی ہے۔آزادکشمیر کے اندر یعنی ایک شہر کو دوسرے شہراور ایک ضلع کو دوسرے کیساتھ ملانے والی سڑکوں کی حالت تو بیان سے باہر ہے۔زلزلے میں بڑے پیمانے پر تباہی کی ایک بڑی وجہ ناقص تعمیرات تھیں ۔لیکن زلزلے کے بعد اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔آج مارکیٹ میں پہلے سے ناقص میٹریل دستیاب ہے ۔لیکن حکومت نے اس حوالے سے کوئی کاروئی کی اور نہ ہی دلچسپی رکھتی ہے۔حکومت نے زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہونے والے شہر بالاکوٹ کو ریڈ زون قرار دیتے ہوئے شہریوں کو یہاں پر کسی قسم کی تعمیر سے روک دیا تھا۔اور دو سال کے اندر یہاں سے 15 کلومیٹر کی دوری پر ایک نیا شہر بسانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے 12 ارب روپے کی لاگت سے نیو بالاکوٹ نامی منصوبے کا آغاز جولائی 2007 میں کیا گیا ۔ اس منصوبے کے لیے حکومت سے ساڑھے گیارہ ہزار کنال زمین حاصل کی گئی تاہم ابھی تک یہاں انتہائی کم تعمیراتی کام ہو سکا ہے۔جس کے باعث بالاکوٹ کے مکین آج 9 سال گزرنے کے بعد بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حکومت کی طرف سے بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے بروقت مکمل نہ کرنے ۔فنڈز کے استعمال میں غیر شفافیت اور تعمیر نو کے ادارے ایرا میں اربوں روپے کے گھپلوں نے عالمی سطح پر پاکستانی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچایا۔2010 کے سیلاب میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد متاثر ہوئے اقوام متحدہ نے اسے سونامی سے بڑی آفت قرار دے کر دنیا سے امداد کی اپیل کی ۔لیکن اتنی بڑی تباہی کے باوجود دنیا نے ہمیں امداد دینے میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔کیونکہ 2005 کو آنے والے زلزلے میں ملنے والی امداد کے حوالے سے شکوک و شہبات دنیا کے ذہن میں موجود تھے۔
2010 میں جنوبی پنجاب میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پر جسٹس منصور علی شاہ کمیشن بنایا تھا، مگر آج تک نہ اس کمیشن کی رپورٹ پبلک کی گئی ہے،نہ ہی اس کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا گیا ،اور نہ ہی تباہی کے ذمہ دار وں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جاسکی ہے۔اس رپورٹ کو نظرانداز کیے جانے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج چار سال بعد ہمیں پھر سیلاب کا سامنا ہے اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔لیکن ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ایک قدرتی آفت کے وقت ہم چند روز کے لئے آنکھ کھولتے ہیں اور پھر گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔نہ تو بروقت اقدامات کا سوچا جاتا ہے اور نہ ہی احیتاطی تدابیر کے حوالے سے ہوم ورک کیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ یعنی دریاؤں کی پشتوں کی مرمت و مضبو طی ،پانی کے نکاسی کے راستوں،ندی ،نالوں کی صفائی ۔ان میں سے مٹی نکالنے ،نکاسی کے راستوں سے تعمیرات کے خاتمے ، اور سیلابی پانی کو متبادل طریقوں سے محفوظ بنانے سے سیلاب کے خطرات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ زحمت کون گوارہ کرے ؟دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 13 اکتوبر کو قدرتی آفات کا عالمی دن منا یا جاتا ہے۔ چند بڑے شہروں میں سیمینارز منعقد ہوتے ہیں ۔چند تقاریر ہوتی ہیں اور قصہ تمام ہو جاتا ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress主题