چوری کا مینڈیٹ لے کر آنے والے وزیراعظم کو وزیراعظم نہیں مانتے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان

Published on December 5, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 399)      No Comments

IMG-20141204-WA0000
جدہ (زکیر بھٹی) سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور پاکستان پیپلزپارٹی کی سینئر راہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ روز جدہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا اس موقع پر پیپلزپارٹی سعودی عرب کے صدر ریاض بخاری بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی جب اقتدار میں آئی تھی تو عوام کو بڑی توقعات تھیں کہ بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ اصلاحات لائی جائیں گے۔ مگر ایک مخصوص میڈیا چینل اور سیاسی چیف جسٹس نے پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا جس کا خمیازہ 2013کے مایوس کن نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہامرے مخالفین نے میڈیا چینل خرید رکھا تھا جو مسلسل ہمارے خلاف میڈیا ٹرائل کرتا رہا اور اسی میڈیا ٹرائل پر اس وقت کے سیاسی چیف جسٹس از خود نوٹسز لیتے تھے اور وزارتوں کے لئیے راتوں رات سمن جاری کئیے جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ ادوار میں سیاسی بنیادوں پر معطل کئیے جانے والے افراد کو دوبارہ اپنی پہلی حالت میں بحال کیا نہ صرف بحال کیا بلکہ ان کو تمام تر سابقہ مراعات بھی دی گئیں۔ چھوٹے صوبوں کو حقوق دئیے گئے ۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اختیارات کی پارلیمنٹ میں منتقلی ہوئی ۔ آئین کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا گیا۔ گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا اور چھوٹے صوبوں کو خود مختار بنا یا گیا۔ انہوں نے کہا ہمارے اچھے کارنامے عوام تک نہیں پہنچائے گئے۔ میاں نواز شریف کو برسر اقتدار لانے کے لئیے عوام کے دلوں میں پیپلزپارٹی کے لئیے نفرت پیدا کی گئی ۔یہ ہمار اہی دور حکومت تھا جس میں تاریخ کے دو بدترین سیلاب آئے ہم نے بغیر کسی بیرونی امداد کے تنہا مقابلہ کیا ۔ مرکز میں ہماری مخلوط حکومت تھی اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ہماری حکومت نہیں تھی ۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ اپوزیشن کے اراکین کو بھی زیادہ تعداد میں فنڈز دئیے گئے ۔ اس وقت کی عدلت بھی ہمارے خلاف ایک پارٹی کا کردار ادا کر رہی تھی۔ آج ملک میں افراتفری اور لاقانونیت ہے مگر ازخود نوٹسز والے تاجر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن 2013کے دوران اس شخص کو نگران وزیراعلی لگایا گیا جو ہمارے خلاف میڈیا ٹرائل میں ملوث تھا۔ اس نے 35ہی نہیں بلکہ 100سے زائد پنکچر لگائے ۔ پنجاب میں مفاہمت کی سیاست نے پیپلزپارٹی کو بہت نقصان پہنچایا۔ ہمارے مخالفین کی پروپیگنڈہ مہم مضبوط تھی اور ہمارا دفاع کمزور تھا۔ ہمیں طالبان نے الیکشن مہم نہیں کرنے دے ان کے خوف سے قیادت پنجاب میں بڑے جلسے نہ کر سکی ۔ جس کی وجہ سے ہمیں الیکشن میں ناکامی کا سامنا ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2013کے الیکشن میں میچ فکس تھا۔ اداروں کی موجودگی میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی۔ اور ہم اس دھاندلی زدہ پارلیمنٹ اور دہاندلی زدہ وزیراعظم کو نہیں مانتے۔ موجودہ صوتحال میں ہماری پارٹی کسی شخصیت کو نہیں بچا رہی بلکہ ہم اس جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں جس کے لئیے ہمارے قائدین اور کارکنوں نے قربانیاں دیں ہم تاریخ میں نہیں لکھوانا چاہتے کہ ہم جمہوریت کا خاتمہ کرنے والوں کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف جمہوریت کی بالا دستی ہے۔ موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قومی حکومت کا انتخاب دیکھ رہی ہوں ۔موجودہ صورتحال میں حکومت کو لچک دکھانا ہوگی ۔ ایسا تو بادشاہت میں ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد ملکر مشاورت کریں اور حکومت چلائیں۔ موجودہ حکمران ملک کو پرایؤیٹ کمنی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ اور پورا خانداناس میں شئیر ہولڈر بنا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا مفاہمت کی سیاست نے پیپلزپارٹی کی جڑوں کو کمزور کر دیا ان کی مضبوطی کے لئیے ہمیں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سڑکوں اور گلیوں میں دما دم مست قلندر کرنا ہوگا۔ غیر جمہوری وزیر اعظم کو گیر جمہوری او ر غیر آئینی طریقے سے ہی گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ مڈ ٹرم الیکشن کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ مڈٹرام الیکشن ممکن نہیں مڈٹرم الیکسن کے لئیے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت ہوتی ہے اور اس وقت ماسوائے ایک جماعت کے کوئی بھی جماعت الیکشن کے لئیے تیا رنہیں۔ مڈ ٹرم الیکشن کے لئیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں ۔ اس کے علاوہ الیکشن بے سود ہوں گے۔ اگر مڈ ٹرم الیکشن ہوئے تو تحریک انصاف واضح برتری حاصل کرے گی۔آزاد کشمیر کے پاکستان میں سیٹوں پر الیکشن لولے لنگڑے الیکشن کمیشن نے کروایا ۔ پورا پاکستان الیکشن میں دھاندلی کا رونا رو رہا ہے مگر الیکشن کمیشن کے ممبران ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے۔ ممبران الیکشن کمیشن کو آزاد کرنے کے لئیے تیار نہیں۔ تھر میں بچوں کی ہلاکت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سالا سال وہاں پر یہ کیفیت ہوتی ہے اس کا کریڈیٹ میڈیا کو جاتا ہے جس نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی ۔ یہ صرف پیپلزپارٹی کی سندھ گورنمنٹ کی ناکامی ہی نہیں بلکہ اس سے قبل گزرنے والی تمام حکومتوں کی ناکامی ہے جنہوں نے اس مسئلے پر قابو نہیں پایا۔ ہر دور حکومت میں نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے اب وہ ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے۔ پاکستان کی سلامتی عزیز ہے۔ہمارے ملک میں اداروں کی بجائے شخصیات کو مضبوط بنایا گیا۔ ادراے اس وقت لاوارث ہیں۔ آزاد کشمیر میں عوام کیپارٹی سے دوری کی وجہ درست شخصیات کا انتخاب نہ ہونا ہے۔آزاد کشمیر کی عوام کی توقعات پیپلزپارٹی کے ساتھ لازم ملزوم ہیں۔ برمنگھم جلسے میں ناکامی کے ذمہ داران کا احتساب ہونا چائیے۔ قیادت کو نوٹس لینا چائیے۔ کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ مسئلہ کشمیر کو ذاتی مفادات کے لئیے استعمال کیا جائے۔ مسئلہ کشمیر کے لئیے سب کو اکھٹے ملکر کام کرنا چائیے۔ گھر کی بات کو گھر میں رکھا جائے نہ کہ ملک سے باہر اس کو زیر بحث لایا جائے۔ملین پارچ اور برمنگھم جلسے میں بد نظمی کے بعد مسئلہ کشمیر بری طرح متاثر ہوا۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Themes