حضرت واصف علی واصف رحمۃاللہ علیہ

Published on January 15, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 904)      No Comments

yasen_of_Graphic1
حضرت واصف علی واصف 15 جنوری 1929 کو دنیا میں تشریف لائے اور 18 جنوری 1993 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ بیسویں صدی کے مسلم صوفی ،شاعر،کالم نگار،روحانی اسکالر،دانشور تھے ۔ آپ نہایت خوبصورت،دراز قد،مضبوط جسم کے مالک انسان تھے ۔آپ کے والد کا نام ملک محمد عارف تھا ۔قوم اعوان سے تعلق تھا ۔آپ کاضلع خوشاب کی تحصیل شاہ پور سے تعلق ہے۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے حاصل کی اس کے بعد نانا کے پاس جھنگ آ گئے ۔یہاں آپ نے دل لگا کر تعلیم حاصل کی خود کہتے ہیں طالب علمی کے زمانے میں تعلیم کی دھن اتنی تھی کہ فرسٹ آنا ہم اپنا حق سمجھتے تھے ۔میٹرک ،ایف اے ،بی اے فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا ۔کالج میں ہاکی کے کھلاڑی تھے ۔تعلیم و کھیل کی بنا پر آپ کو کالج میں 1949 کو ایوارڈ آف آنر دیا گیا ۔1954 کو ویسٹ پاکستانی پولیس کا ٹریننگ سرٹیفکیٹ دیا گیا ۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم ے انگلش ادب میں کیا ۔کوئی نوکری نہ کی کیونکہ طبیعت ایسی نہ تھی آپ نے ریگل چوک لاہور میں ایک پنجابی کالج میں پڑھانا شروع کر دیا ۔1962 میں آپ نے پرانی انار کلی کے نزدیک اپنا کالج بنایا جس کا نام لاہور انگلش کالج رکھا ۔آپ کے والد کا تعلق بھی شعبہ تعلیم کے تھا ۔وہ جب محکمہ تعلیم سے فارغ ہوئے تو سنت نگر لاہور میں گھر لیا ۔پھر گلشن راوی میں ۔حضرت واصف علی واصف کی شادی 24 اکتوبر 1970 کو ہوئی آپ کا ایک بیٹا اور تین صاحبزادیاں ہیں ۔
۔قرآن پاک میں راتوں کو جاگنے والوں کی عظمت بیان ہوئی ہے ،حضرت علی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ کامیابی کے لیے راتوں کو جاگنا پڑھتا ہے،علامہ اقبال کا شعر بھی ہے ۔
عطار ہو ،رومی ہو ،رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
۔مجھے یہ سب یاد آیا جب میں نے یہ پڑھا کہ واصف علی واصف نے اپنی زیادہ تر تحریریں رات دو سے چار کے درمیان لکھیں ہیں۔آپ نے جتنا بھی کلام لکھا اس پر تاریخ اور وقت بھی لکھا عام طور پر جو وقت لکھا گیا وہ رات دو سے چار کا لکھا ہوا ہے ۔انار کلی کے موڑ پر مسجد میں نماز تہجد ادا کرتے ۔نماز فجر سے رات گئے تک کالج اور اس کے بعد بھی طالب علموں کو انگلش پڑھاتے ۔آپ کے شا گردوں میں ادیب ، شعراء ، بیو رو کریٹ ، وکلا، ملنگ ، فقراء، درویش ، صحا فی ، دانشور ، طا لب علم شامل ہیں ۔ اہل ذوق نظر اپنی پیاس اور طلب کے مطا بق فیضیا ب ہو تے رہے ۔ آپ ایک حق و صدا قت کے علمبردار ، پیکر حسن و جمال ، بندہ مومن اور لا تعداد خو بیو ں کے مالک تھے ۔ جن کا تذکرہ لفظو ں ، جملو ں ، تحریروں ، تقریروں اور کتابو ں سے ممکن ہی نہیں ہے ۔ واصف علی واصف نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مادی علوم کی درس و تدریس سے کیا اور پھر روحانی غلبہ کے سبب ایک بہت بڑے صوفی کے روپ میں ظاہر ہوئے۔ عشق مجازی کی منزل سے گزر کر عشق حقیقی سے سرفراز ہوئے اور بقیہ زندگی اپنے علم و مشاہدے سے لوگوں کو فلاح کا راستہ دکھانے میں بسر کی۔آپ لوگوں کو عذاب سے ڈرانے کی بجائے امید کی کرن پیدا کرتے اور انہیں اچھے اوصاف اپنانے کی رغبت دلاتے ۔ گنہگاروں پر فتوے لگانے اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی بجائے توبہ کی تلقین کرتے اور قربِ الٰہی کی بشارت دیتے ۔ ان کے فرمودات اور اقوال کا مرکزی خیال گنہگار کی پردہ پوشی اور اسے نیکی کی راہ پر آنے کا حوصلہ بخشنا تھا تاکہ وہ مایوس ہو کر گناہ کی راہ پر نہ چلے ور اپنی اصلاح کو مقدم سمجھے ۔ حضرت واصف علی واصف کی شخصیت روحانی اوصاف کی مالک تھی جنہو ں نے اپنے چا ہنے والو ں کو ، فرقہ واریت ، گر وہو ں ، قبیلو ں ، مسلکو ں اور درجو ں کی دلدل سے آزاد کروایا ۔ ان کی زبان سے نکلنے والا اخلا ص اور نیت سے بھرپو ر لفظ تا ثیر رکھتا ہے ۔ نسل نو کو آپ کی تعلیما ت ، افکا ر و کردار اور نظریا ت سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے تا کہ گمراہی اور بے راہ روی کے ساتھ ساتھ بے یقینی کا ابدی طور پر خاتمہ ہو جا ئے ۔ مختلف اخبارات و رسائل میں آپ کی تحریریں (کلام )شائع ہوتی تھیں ،احباب کے کہنے پر ان کو اکھٹاکیا گیا تو ایک کتاب \’\’شب چراغ\’\’ منظر عام پر آئی۔نوائے وقت میں آپ کا پہلا کالم محبت کے نام ے شائع ہوا ۔
آپ کے چند فرمان یہاں درج ککیے جاتے ہیں جنکے آئینہ میں ہمیں خود کو دیکھنا چاہیے ،اور اپنی زندگی سنوانی چاہیے ۔آپ فرماتے ہیں کہ
ایک جاننے والا دوسرے جاننے والے سے بے خبر بھی ہو سکتا ہے ۔ہم خود کو معیار سمجھتے ہیں اور دوسروں کو ماپتے رہتے ہیں۔(اسی طرح)ہم خود دوسروں کی زد میں ہیں (کیونکہ)دوسرے اپنا اپنا معیار رکھتے ہیں ۔
باز اور شکروں کی موجودگی کے باوجود چڑیا کے بچے پرورش پاتے ہیں ،شیر دحاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے خوبصورت بچے ککیلیاں بھرتے رہتے ہیں ،فرعون نے سب بچے ہلاک کر وا دیئے لیکن وہ ہی بچہ بچ گیا ،زمانہ ترقی کر گیا مگر مکھی،مچھر،اور چوہے اب بھی پیدا ہوتے ہیں ،جراثیم کش دوائیاں نئے جراثیم پیدا کرتی ہیں ،طب مشرق و مغرب میں بڑی ترقی ہوئی ہے ،بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ،انسان کل بھی دکھی تھا ،آج بھی سکھی نہیں ،علاج خالق کے قرب میں ہے ،لوگ کیوں نہیں سمجھتےْ ؟
مقامات صبر کو مقامات شکر بنانا خوش نصیبوں کا کام ہے۔
گناہ اپنے مزاج کے خلاف عمل کرنے کا نام نہیں ہے ،اللہ کے حکم کے خلاف عمل کرنے کا نام ہے ۔گناہ اخلاقیات کے حوالے سے نہیں دین کے حوالے سے ہے ،اخلاقیات کا دین اور ہے ،دین کا اخلاق اور ہے ۔
سکون حاصل کرنے کی کوشش چھوڑ دو ،سکون دینے کی کوشش کرو ،سکون مل جائے گا ۔بے سکونی تمنا کا نام ہے جب تمنافرمان الہی کے تابع ہو جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔
آج کے دور میں برداشت ختم ہو چکی ہے کوئی اختلاف رائے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے حضرت واصف علی واصف نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔عقیدے کی پختگی ،اختلاف عقیدہ کو برداشت کرنا ہے ۔۔
زندگی ایک انعام ہے ،محبت سے ملنے والاانعام ،محبت ہی کے لیے ہے،اسے نفرتوں اور جھگڑوں کے لیے ضائع نہ کیا جائے ۔یہ خالق کی اطاعت اور پہچان کا زمانہ ہے ۔اسے مخلوق سے مقابلے میں نہ ضائع کیا جائے ۔
اسلام فلاح کا راستہ ہے اور یہ راستہ سنت نبوی ﷺپر عمل پیرا ہو کر ہی طے ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ ہی کامیابی کا اصل معیار ہے ۔
آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص آپ کے اند ر کا انسان ہے ۔ اسی نے عبا د ت کرنا ہے اور اسی نے بغا وت ، وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا ، اس اندر کے انسان نے آپ کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے ۔ فیصلہ آپ کے ہا تھ میں ہے آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بد ترین دشمن ۔ آپ خودہی اپنے لیے دشواری سفر ہو اور خو د ہی شا دابی منزل با طن محفوظ ہو گیا تو ظا ہر بھی محفوظ ہو گا ۔
آپ کا فرمان ہے کہ آج اگر ہم ایک دوسرے کو معا ف کردیں اور ایک دوسرے سے معا فی مانگ لیں تو ہمارا مستقبل سکون قلب کے خزانو ں سے بھر جا ئے گا ۔
وا صف صاحب فرما تے ہیں یہ ملک لاکھو ں جانو ں کی قربانی سے بنا ہے ۔ قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا ۔ لیکن افسوس چند ہوس پر ست جونکو ں کی طرح اس کا خون چو س رہے ہیں ۔ کسی غریب کو کیا فر ق پڑتا ہے ۔ اگر اس پر ہندو ظلم کرے یا اس پر مسلمان ظلم کرے غور کرنے کا وقت ہے ۔ سنجیدگی اختیا ر کر نے کا لمحہ ہے ۔
حضرت واصف علی واصف 15 جنوری 1929 کو دنیا میں تشریف لائے اور 18 جنوری 1993 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
لیکن آپ ہمیشہ اپنے چا ہنے والو ں، اپنے ماننے والو ں،عقیدت والوں اور اپنے مدا حوں کے دلو ں میں شاد و آبا د رہیں گے ۔
آپ کی تصا نیف میں شامل ہیں شب چراغ ،کرن کرن سورج،دل دریا سمندر،قطرہ قطرہ قلزم،حرف حرف حقیقت،بھرے بھڑولے،شب راز،بات سے بات،گم نام ادیب،مکالمہ،ذکر حبیب،دریچے،گفتگو 28 حصے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Premium WordPress Themes