عمران،ریحام خان اور مولوی بیچارہ

Published on January 24, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 521)      No Comments

rsid awan logoمیڈیا میں عمران خان اور ریحام خان کی شادی کے چرچے دیکھ کر مجھے ایک بات کافی دنوں سے بے تاب کیے جا رہی تھی کہ آخر اس کہانی کا کیا یہی ڈراپ سین تھا یعنی دھرنے کا اختتام خان صاحب کی شادی کی شہنائیاں؟؟؟ بقول شاعر خاموش لمحوں میں مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں،،تنہا شاموں میں میرے ہم جلیس رہتے ہیں،،اور،،،،تاریک راتوں میں میٹھی یادوں کے دیپ جلائے رکھتے ہیں،خان صاحب کو سہرے کی خوشیاں مبارک ہوں،،دل کا کیا ہے کسی پر بھی اور کسی وقت بھی آ سکتا ہے زمانے کے حوادث بدل چکے اب تو ٹینکالوجی کا دور ہے ایک دل جلے مولوی صاحب کا کسی پر دل آ گیا اور جس پر دل آیا اس سے اظہار محبت بھی مولوی صاحب کر بیٹھے مگر جس پر دل آیا تھا وہ مولوی صاحب سے ناممکن کی شرط لگا بیٹھی،شرط یہ تھی کی سرعام ڈھول بجانا ہے اور لوگوں کے سامنے بجانا بلکہ پیٹنا ہے،،اب بھلا یہ کوئی تسلیم کرنے والی شرط ہے کہ مولوی صاحب خمتسلیم سر کرتے؟ مگر کمبخت عشق نے انہیں یہ شرط بھی قبول کرنے پر مجبور کر دیا،،اب لوگوں کا مجمع تھا اور مولوی صاحب کے ہاتھ میں ڈھول ،لوگوں کی کھا جانے اور سوالیہ نظروں کے باوجود مولوی صاحب نے کمال ذہانت کا مظاہرہ کیا اور لگے ترغیب دینے کہ کہ ڈھول بجانا شرعاً حرام ہے،شادی بیاہ کے موقع پر دف بجانا، ڈھول ڈھمکا، سب حرام ہیں ساتھ ہی مولوی صاحب نے ڈھول گلے میں ڈالا اور تھاپ سے پیٹنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ سُر تبدیل کرتے گئے اور مجمع کو مخاطب کر کے بتاتے گئے کہ اگر ڈھول کو ایسے پیٹو گئے تو بھی حرام ہے اور اگر ایسے پیٹنے لگو گئے تو بھی حرام ہے،،المختصر مولوی صاحب کی ذہانت نے کام کر دکھایا اور وہ یہ سمجھانے میں بھی کامیاب رہے کہ ڈھول کو جیسے مرضی پیٹو حرام اور اور انہوں نے دلربا کی خواہش کا بھی احترام کر لیا،،خان صاحب کے دھرنے اور دو ماہ سے زائد تک کے ناچ گانے کی بھی فرمائش غالباً ریحام خان ہی کی تھی جنہوں نے خان صاحب سے شادی بھی اسی شرط سے مشروط کر رکھی تھی کہ شادی کی شہنائیوں سے پہلے کچھ عرصے تک پورے پاکستان کو نچانا ہوگا اور خان ساحب کیلئے یہ کام کوئی مشکل نہ تھا اور انہوں نے اسلام آباد میں پہلے پارٹی کارکنوں اور منچلوں کو نچایا پھر ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد بھی ہوتا رہا اور خوشیوں کے خوب شادیانے بجانے کے بعد خان صاحب عائد کردہ شرط بھی جیت گئے اور حکومت کو بھی پسینے میں شرابور کر گئے،،ویسے عام فہم میں ڈوھلکی بجانا بھی ایک فن ہے ہمارے ہاں نہ سہی دنیا کے ان ترقی یافتہ ممالک جن کی ہم اندھی تقلید اپنے لیے باعث فخر جانتے ہیں وہاں ڈھولکیا کی قدرو قیمت ہے،اب تو یہ معتبر کام ہے جو شادیوں پر جا جا کر ناچ گانے پر ڈھول بجاتے تھے آج وہ ہمارے ٹی وی چینلز پر آ کر تبصرہ گار کی حیثیت سے اپنا لوہا بھی منواتے ہیں،،ویسے تو موسیقی گناہ کبیرہ ہے لیکن ٹی وی کی سکرین پر ڈھول بجانے والے فنکار ہوتے ہیں وہاں شاید گناہ اور ثواب کا آپس میں کوئی مک مکا ہوتا ہوگا لیکن ان تاریک گلیوں میں ایسا نہیں ہوتا ،جب اپنے ہاں خوشیوں کی قحط سالی ہو تو دوسروں کے چہروں پر سجی مسکراہٹوں کی رعنائیوں میں لوگ کھو ہی جاتے ہیں،،خیر اس سے ہمارا کیا لینا دینا ہمیں تو صرف اپنے آنگن کی فکر ہوتی ہے اپنی حکومت بلکہ اپنے تخت و تاج
کی،کوئی مرے ،مارے یا مر جائے ہماری بلا سے ہمیں اپنی خوشیاں ہی عزیز ہوتی ہیں کیوں خان صاحب میرا کہنا غلط تو نہیں نا۔۔۔؟

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog