سرکاری ملازمین کی زبوں حالی

Published on April 27, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 608)      No Comments

bariحکومتی ملازمین تنخواہوں کی کمی کی وجہ سے مہنگائی کی چکی میں جس طرح پس رہے ہیں وہ قطعاً تاریخی ارتقائی عمل نہ ہے۔بلکہ حکومتی کمزوریوں اورنااہلیوں کا بین ثبوت ہے۔حکومتی موٹر ویز اور جنگلہ بسیں وغیرہ غربت اور مہنگائی ختم نہیں کرسکتیں حکومتی عیاشیاں ، نام نہاد جشنوں پر آتش بازیوں اور فضول خرچیوں سے غریبوں کا نان نفقہ مزید دشوار تر ہوتا چلا جارہا ہے۔غریبوں کا خون چوس کراور ان کی سخت محنت جس نے ان کی ہڈیوں تک کو پیس ڈالا سے جو رقوم خزانہ میں آتی ہیں وہ جب اللے تللے کاموں پر خرچ ہوتی ہیں تو عوام خون کے آنسو پی کر رہ جاتے ہیں۔ صدر ،وزیر اعظم ،وزرائے اعلیٰ، وزارت خزانہ فوری نوٹس لیں اور حکومتی ملازمین کے بائیس سکیل ختم کرکے صرف دس سکیل بنائیں۔1تا5سکیل کوسکیل نمبر1،6تا10کو سکیل نمبر2اور سکیل نمبر11تا15والوں کو سکیل نمبر3دیا جائے اور ان کی بنیادی تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابریا کم ازکم پچاس ہزار روپے ماہانہ کی جائے ۔جبکہ مزدوروں اور محنت کشوں کی تنخواہ بھی ان کے برابر ہو اور انھیں کارخانوں اور کاروباروں میں سے بھی دس فیصد اضافی منافع دیا جائے۔اور میڈیکل اور کنوینس الاؤنس تنخواہوں کا دس فیصد ادا کیا جائے۔ شدید بیماریوں کی صورت میں اگر ہسپتالوں میں ادویات موجود نہ ہوں تو ملازمین کو ہسپتال لوکل پرچیز کے ذریعے خرید کر متعلقہ دوائی فراہم کرنے کا پابند ہو ۔سرکاری ملازمین کے ان سکیلوں پر سالانہ ترقیاں لگتی رہیں گی اور اتار چڑھاؤ اور تفاوت جاری رہ سکے گا۔سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کو مذکورہ اضافی فنڈزبڑھانے کے لیے چونکہ فیصد کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اس لیے بڑے ملازمین کو تو پندر ہ ہزار تک بڑھوتری ملتی ہے جبکہ چھوٹے ملازمین کو پانچ سات صد روپوں سے زیادہ نہیں ملتا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے بچوں کی بیماری پر کیا خرچہ کم آتا ہے ؟اور کیا غریب ملازمین گدھا گاڑی پر دفاتر میں آتے جاتے ہوں گے ؟کہ کنونیس الاؤنس میں ان کے گدھوں کی گھاس کے لیے رقم مہیا کی جاتی ہے جبکہ اس رقم سے بھی گدھا گھاس پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتا۔ سبھی چھوٹے بڑے ملازمین کو کنوینس الاؤنس کم از کم آٹھ ہزار روپے ماہانہ دیا جائے ۔ہمارے پیارے دین اسلام ،اس میں مقرر کردہ حقوق اور آئین پاکستان کی روح سے بھی مملکت میں رہنے والے سبھی کومساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں تو پھر یہ گریڈ سسٹم کا کالا دھندا آخر کیا ہے ؟بہر حال 16تا 22گریڈ والے ملازمین کو4تا 10سکیل دیے جائیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نچلے درجوں کے ملازمین خوامخواہ کم تنخواہوں کی وجہ سے آفیسر کلاس سے نفرت کرتے ہیں ایک ہی ادارے کے سبھی ملازمین کو آپس میں اتحاد و اتفاق اور پیار محبت پیدا کرنے کے لیے گریڈوں کی اس انداز میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح سے ملازمین کے بچوں کو جو تعلیمی الاؤنس دیا جاتا ہے وہ انتہائی کم ہے۔بڑے سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ماہانہ دس تا پندرہ ہزار روپے فی طالب علم کھانے اور تعلیمی و رہائشی سہولتوں(ہاسٹلز )وغیرہ کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ہر چھوٹے یا بڑے سرکاری ملازم کواس کے جتنے بچے ہیں وہ اگر سکول گوئنگ ہیں تو کم اگر یونیورسٹی یا کسی ادارے میں تعلیم پارہے ہیں تو انھیں فی بچہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ ایکسٹر اادا کیے جائیں۔ایسے فنڈز کے لیے سالانہ بجٹ میں سترہ ارب روپے اور بیرون ملک سوئس بینکوں میں ستانوے ارب ڈالر ز کی رقوم پڑی ہیں (جو کہ تیس سال کے لیے ہمارے فری ٹیکس بجٹ کے لیے بھی کافی ہیں)۔ملازمین کے بچوں کو جو سکالر شپ دیے جاتے ہیں وہ بھی انتہائی کم ہیں ۔ساٹھ فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والوں کو ساٹھ ہزار، ستر فیصد نمبرحاصل کرنے والوں کو ستر ہزار اور 80 فیصد والوں کو اسی ہزار روپے وظیفہ دیا جائے تو پھر تعلیمی میعار بھی بلند ہو گا اور ملازمین بھی حکومت کے اقبال کے لیے دعا گو ہوں گے۔ و گرنہ “بابایہ سب کہانیاں ہیں “کہ “ٹڈ نہ پیاں روٹیاں تے سبھی گلاں چوٹھیاں ” جونیجو حکومت مزید ایجوکیشن حاصل کرنے والوں کودو انکریمنٹس دیتی تھی تاکہ تعلیم عام ہو۔شوکت عزیز حکومت نے یہ سہولت یکسر ختم کرڈالی اب کوئی ملازم مزید تعلیم حاصل کرنے کی بابت سوچتا تک بھی نہیں ۔ اب موجودہ حکمرانوں کو آئندہ بجٹ میں اضافی تعلیم پر پانچ اینکریمنٹس کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ ملازمین کی حوصلہ افزائی ہو اور سابقہ رقوم بھی اس میں ایڈجسٹ ہو جائیں ۔حکومتی اقتدار تو بہر حال مہینوں یا سالوں کا نہیں دنوں کا مہمان ہے اس لیے کچھ کرلو گے تو چار دن مزید اقتداری مزے لوٹ لو گے وگرنہ یہ محلات اور بیرونی ممالک کے کاروبار وں نے کبھی حکمرانوں کو نہیں بچا یا۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Weboy