تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا

Published on July 4, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 1,100)      No Comments

mys 2015
الن فقیر 1932 میں سندہ ،جام شورو،کے ایک جھوٹے سے گاؤں عماری میں پیدا ہوئے ،ان کے والد نے ان کا نام علی بخش رکھا تھا ،ان کے والد ڈھولچی تھے جو مختلف مزارات پر حاضری دیتے اور وہاں دھمال ڈالتے ۔علی بخش الن فقیر کی ماں بچپن میں فوت ہو چکی تھی ، ان مزارات پر ننھا علی بخش بھی ہمراہ ہوتا ،رفتہ رفتہ ان پر صوفیانہ رنگ چڑھتا چلاگیا ۔
اس رنگ میں ڈوبے پھر وہ کسی لمحے علی بخش سے الن فقیر بن گیا۔وہ ان پڑھ تھا ۔ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ غربت ہی کی وجہ سے تعلیم بھی حاصل نہ کرسکے ۔ فقیرانہ طبیعت کے۔ مالک تھے ۔ لیکن صاحب علم تھے ،اس نے دنیا کو سمجھا اور فقیر بن کر اللہ کے ولیشاہ عبد الطیف بھٹائی ،لعل شہباز قلندر ااور سچل سرمست کے کلام کو عوام تک پہچانے لگا ۔اس نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا ۔ان کی گائیکی عالم لوہار کی طرح منفرد تھی ،اور انہوں نے بھی صوفیانہ کلام گایا ۔انہوں نے روایتی لوک گائیکی کو فلسفیانہ ،عاشقانہ رنگ دے کر ایک نیا انداز بخشا۔الن فقیر نے زیادہ تر سندھی زبان میں گلوکاری کی لیکن ان کا گایا ہوا ایک اردو گانا
تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا
اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا
جسے دریا کا پانی جیون دے
اس دریا کی لہروں سے ڈرنا کیا
۔۔” اور ” اللہ اللہ کر بھیا اللہ ہی سے ڈر بھیا”
’’اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا ، ہو اللہ ہو اللہ‘‘۔
جیسے گیتوں نے ان کو عالم گیر شہرت عطاکی ۔اللہ اللہ کر بھیا گانا انہوں نے معروف پاپ سنگر محمد علی شہکی کے ساتھ مل کر گایا تھا ۔الن فقیر ریڈیو حید آباد میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے ۔کیونکہ انہوں نے زیادہ تر سندھی زبان میں گلوکاری کی اسی وجہ سے سندھ میں ان کو جوشہرت حاصل ہے وہ کسی اور صوبہ میں نہیں ۔اردو زبان میں گائے جانے والے چند گیتوں کی وجہ سے ان کو عالم گیر شہرت ملی ۔انہوں نے سب سے زیادہ شاہ عبدللطیف کا کلام ہی گایا ۔الن فقیر بیس سال تک شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے مزار پر رہے ۔الن فقیر کو صدر جنرل ضیائالحق نے 1980ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا ۔اس کے علاوہ ا ن کو شاہ عبدللطیف بھٹائی ایوارڈ،شہباز ایوارڈ ،کندھ کوٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ان کا انتقال 4 جولائی 2000ء کو ہوا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہر سال ان کی برسی خاموشی سے گزر جاتی ہے ۔اس سال بھی ایسا ہی ہوگا ۔کہ ان کی برسی گزر جائے گئی ۔میڈیا کو چاہیے کہ اپنے قومی ہیروزکو بھی یاد رکھے ۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题