ارمان ِدل

Published on March 3, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 691)      No Comments

Uzmaقسط نمبر 2
رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا
رسما۔۔۔
بےبی۔۔!!تھوڑا سا اور۔۔۔!!!ثنا ءزبردستی اسے کانٹے کی مدد سے انڈے کے ٹکڑے کر کے کھلانےکی کوشش کررہی
تھی۔
ماما۔۔۔۔۔!
بس۔۔۔!
وہ جلدی سے اٹھتے ہوئے اسے بائے بائے کرکے جواد کےساتھ جانے لگی۔
ٹفن تو لےلو۔۔۔!!مسکراتے ہوئے جواد اسے واپس جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
ہاں!یہ لو۔۔اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا ٹفن دیتے ہوئےاللہ حافظ کہا۔چلی گئی ؟؟رسما!!پاپا سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ثناءسے
سوالیہ انداز میں بولے
جی۔۔!!
بہت تنگ کرنے لگی ہے یہ پاپا۔۔۔۔!!!!!تھکے تھکے انداز میں وہ بولی اور کچن کی طرف بڑھنے لگی
ہاں۔۔تم بھی جب اس عمر میں تھی نا۔۔!
تو بہت ستایا کرتی تھی ہمیں ۔۔۔۔!!!مسکراتے ہوئےڈائننگ ٹیبل پر اخبار کو اٹھا کر پڑھنے لگے
بس کریں پاپا۔۔۔!!قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے کچن سے باہر آکر فرائی انڈوں کی پلیٹ میز پر رکھتے ہوئےوہ بولی
میں کم از کم۔۔۔ہنستے ہوئے رک رک کر بات کرنے لگی)اتنا تنگ تو نہیں کرتی ہوں گی!!!فخریہ انداز میں کہتے ہوئے
جبکہ پاپا ہنستے ہوئے بریڈ پر جیم لگا کر گلاس میں جوس ڈالنے لگے۔
میں جانتا تھا۔ ۔ ۔
اس بار بھی بہت اچھےنمبر لیے ہوں گے تم نے۔۔۔!!دادا جی اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
یہ سب آپ کی دعاؤں سے ہی توہے۔۔!! وہ مسکراتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی۔
جی پی اے۔۔ 3.84 واہ!!آپی
کمال ہو گیا یہ تو۔۔اونچا اونچا بولتے ہوئے گڑیا اس کے قریب آکر کھڑی ہو گئی ،جہاں وہ دادا جی کے پاس کھڑی
مسکرا رہی تھی۔
واہ دادی حیرانگی سے بولیں
واہ ۔۔کیا ہوتا ہے؟؟گڑیا کو ڈانتے ہوئے
توبہ استغفار۔۔۔گڑیا دادی کی بات پر خاموش ہو گئی۔
اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔۔۔۔اسے نصیحت کرتے ہوئے بولیں۔
ماشااللہ ۔۔!!!مسکان کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے۔
میری بچی۔۔!!انہوں نے مسکراتے ہوئے اس کا ماتھا چوما اور گلے لگا لیا۔
اللہ تمہیں ہمیشہ کامیاب کرے آمین۔۔۔
آمین۔۔۔آمین۔۔۔!!!عابد صاحب خوشی کی خبر سنتے ہی دھاگے میں موتی پوتے ہوئے اٹھ کھڑےہوئے۔
آج۔۔!!
میں بہت خوش ہوں بابا۔۔۔ وہ عابد صاحب سے مسکراتے ہوئے بولی۔
چلو ۔۔۔!!
آج تو گھر میں دعوت ہونی چاہیے۔۔دادی جی ہنستے ہوئے سب سے کہہ رہی تھیں۔۔۔
ہاں !ہاں!
کیوں نہیں۔۔۔!!!صبا ہنستے ہوئے دادا جی کی طرف دیکھتے ہوئےمسکان کی طرف دیکھنے لگی۔
ارے۔۔۔۔
کیا بات ہے؟؟؟شور سنتے ہوئے ہاتھ میں برتن پکڑےلے کر آ رہی تھی۔دال چنتے ہوئے ثریا نے ایک نظر ان سب پر
سب پر جو مسکرا رہے تھے اوردوسری نظر مسکان پر ڈالی جس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
امی۔۔!
آپی پاس ہوگئی ہیں ۔۔خوشی سے اطلاع دیتے ہوئے گڑیا آگے بڑھی۔
لائیں میں کر لیتی ہوں۔گڑیا دال کا برتن پکڑتے ہی چننے میں مصروف ہو گئی۔
اچھا۔۔۔۔حیرانگی سے ان سب کی طرف دیکھنے لگی۔۔
مبارک ہو۔۔برا سا منہ بناتے ہوئےاس کی طرف دیکھ کر زبردستی مسکرانے لگی۔
مجھے میرا کوٹ تو لا دو بیٹی۔۔۔حسن صاحب ناشتہ سے فارغ ہو کر آفس کی لیے تیا ر ہو رہے تھے۔۔
جی۔۔۔
یہ لیجیے!ثناءایک سیکنڈ میں ہی کوٹ لے آئی۔۔
حسن صاحب ہاتھ پہ گھڑی باندھ کر کوٹ پکڑ کر پہننے لگے۔۔
یہ ارمان !!!
اٹھا نہیں ابھی تک؟؟؟اس کےبارے میں دریافت کرتے ہوئے بولے۔
اٹھ گیا ہے۔۔۔مسکراتے ہوئے بولی۔
شکیل کے ساتھ ہی کہیں گیا ہے۔۔!!
اچھا۔۔۔۔
اچھا۔۔چلو ۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔!!مسکراتے ہوئے اسے الوداع کرتے ہوئے آفس چلے گئے۔
امی۔۔
آپ!!کپڑے تہہ لگاتے چونکتے ہوئے ثریا کی آمد پر پریشان سی ہوگئی۔
یہاں!!کپڑے ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئےوہ رک رک کر بولی۔
ہاں۔۔
کیوں؟؟؟
میں یہاں نہیں آسکتیََشاطرانہ مسکراہٹ لیے وہ سوالیہ انداز میں بولی۔
نہیں۔۔۔وہ تیری سے بولی۔
نہیں۔۔!!ایسا کب کہاں میں نے۔۔ثریا کا ایسا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا مگر پھر بھی وہ زبردستی مسکرا رہی تھی۔۔
اچھا۔۔!!!مسکراتے ہوئے ثریا بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
وہ بیٹی۔۔!!مسکان اسکے الفاظ پر ایک لمحے کے لیے چونکی اور پھر مسکرا دی۔۔اسکی آنکھوں میں خوشی کے
آنسوتیرنے لگے تھے۔
کیاہوا؟؟؟؟؎رو کیوں رہی ہوََاس کی آنکھوں سے بہتے ہوئےآنسوؤں کو دیکھتے ہوئے ثریا بولی۔
وہ۔۔!!
وہ۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔ایسے ہی امی۔۔۔۔۔۔!!مسکراتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کرنےلگی۔
آپ کہیے ۔۔!!
کیا کہہ رہی تھیں آپ؟؟مسکراتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
ہاں!!
دیکھو۔۔
مسکان!بیٹی۔۔۔
تم تو جانتی ہو نا۔۔۔۔۔!!!!
گھر کا نظام مشکل سے ہی چل رہا ہے۔۔!!مسکان اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
تو۔۔۔بیٹی۔۔۔۔و ہ گلہ صاف کرتے ہوئے بولی۔
میرا مطلب ہے۔۔۔۔۔
دیکھو نا!تمہاری تعلیم پہ بے دریغ پیسہ لگا دیا میں نے۔۔۔اب کی بار مسکان کے چہرے پہ افسردگی پھیل سی گئی۔
امی۔۔۔
میں سمجھی نہیں۔۔اس نے بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے بات کو وضاحت سے پوچھنا چاہا۔
بیٹی۔۔
اب ۔۔۔صبا کی شادی کے خرچے اتنے ہیں۔۔۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کیسے ہو پائے گا سب۔۔۔۔
حویلی کے کواٹروں سے جتنا کرایہ آتا ہے وہ تو ایسے ختم ہوتا ہے ۔۔۔۔جیسے کبھی ہاتھ ہی نہ آیاہو
وہ خود کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے ایک لمبی تفصیل اسے بتانے لگی۔
مگر مسکان واب بھی سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ یہ سب اسے کیوں بتا رہی تھیں۔۔
تو۔۔۔۔۔۔۔!!وہ رکی اور کچھ لمحے بعد پھر وہ بولی۔
اگر تم۔۔میرا مطلب ۔۔۔۔۔۔گلہ صاف کرتے ہوئے بات کو واضح طور پر کرنے لگیں تھی۔۔۔
میرا مطلب ہے ۔۔
اگر تم کوئی اچھی سی نوکری ڈھونڈ لو۔۔۔!!!مسکان انکی بات سے چونک اٹھی۔۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے بابا
اس کو کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے۔
مگر۔۔امی۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔!!!
دیکھو بیٹی۔۔!!اسکی بات کاٹتے ہوئے بڑے پیار سے بات کرنے لگیں۔تمہارے باپ کے پاس تو کوئی نوکری ہے
نہیں۔۔۔اب اس پنشن سےکہابھلا کہاںمیں اتنا کروں ۔۔
اور یہ ہاروں کا کام تو۔
نہ ہونے کے برابر ہے۔۔دن کا دو سو روپیہ ۔۔۔ بھلا کیابناتا ہے۔۔۔بات کرتےہوئے اشک بار ہوئی
اچھا۔۔
امی۔۔۔!!
آپ روئیں نہیں ۔۔۔!!
میں بابا سے بات کرتی ہوں۔۔!!ان کو دلاسہ دیتے وہ بولی
ہاں!
لیکن میرا نام مت لینابیٹی۔۔تمہیں پتہ تو ہے نا ان کا۔۔۔!!!اسے نصیحت آمیزلہجہ میں کہتے ہوئے وہ مسکرائیں اور پھر
اس کے سر پرہاتھ پھیر کر دعا دیتے ہوئے مسکراتیں ہوئیں وہاں سے چلی گئی۔

جاری ہے

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Theme