سچ بولنا جرم ہے

Published on July 6, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 593)      No Comments

mail.google.comنہ جھکا ہوں نہ بکا ہوں نہ کہیں چھپ چھپا کے کھڑ ا ہوں
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر
کچھ عرصہ پہلے بھی میں نے اسی عنوان پر ایک تحریر لکھی تھی آج پھر اس کی دوسری قسط لیکر قارئین کی عدالت میں پیش ہوا ہوں کیونکہ قارئین کی عدالت بھی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے باقی رہی بات دوسری عدالتوں کی وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ مجھ سے زیادہ قارئین جانتے ہیں سب سے بڑی عدالت تو مالک کائنات کی ہے اسی کے سامنے پیش ہونے کے ڈر سے میں سچ بولنے کا جرم کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا تاکہ اس کے سامنے جاؤں تو جھوٹا نہ پکارا جاؤں دنیاکے ہر مذہب میں سچ بولنے کا درس دیا گیا ہے ہمارے مقدس دین میں سچ بولنے والوں کا بڑا رتبہ ہے ہم دین کے نام پر بہت کچھ کرتے ہیں اس کی مثال میرے ایک نہایت محترم چچا جان چوہدری فدا حسین ایڈووکیٹ نے ایک ایس ایم ایس کے ذریعے دی ہے وہ آپکی خدمت میں پیش ہے ۔
:لوگ دین کیلئے لڑتے ہیں ،لوگ دین کیلئے مرتے ہیں ۔لیکن لوگ دین کی پیروی نہیں کرتے ہیں ۔
یہی حالت ہماری ہے ،ہم دنیا میں اپنی پہچان عزت مرتبہ وقار بناتے وقت ہر قسم کی اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جو کہ ایک کڑوی حقیقت ہے پیسہ کماتے وقت ہم یہ نہیں سوچتے ہیں کہ یہ کہاں سے کمایا جا رہا ہے جب کوئی مصیبت آتی ہے تو پھر ہم شکوہ شروع کردیتے ہیں ہم اپنے کام کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں خادم اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ غریب آدمی کی بلا سفارش تھانے میں شنوائی ہو نی چاہئیے کہنے کو یہ بہت اچھی بات ہے مگر نہایت ہی معذرت کے ساتھ جناب خادم اعلیٰ صاحب گستاخی معاف جہاں پر ایک اخبار کے ایڈیٹر کی شنوائی نہیں ہوتی وہاں پر ایک غریب آدمی کی شنوائی آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہے خادم اعلیٰ صاحب آپ نے جس جانفشانی سے لاہور راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبہ اور لاہور میں آزادی چوک کو جس انداز میں مکمل کیا اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے چین سے لیکر ترکی تک کے عوام آپکی زہانت اور فرض شناسی کے قائل ہیں مگر جان کی امان پنجاب پولیس کو بے حد مراعات دینے کے باوجود آپ اس کا تھانہ کلچر درست کرنے میں ناکام رہے ہیں وجوہات لکھ کر میرا جیسا غریب کالم نگار اپنی گردن میں گولی نہیں کھا سکتا ۔
جبکہ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض تھانوں میں نفری کم ہے پولیس ملازمین کو ڈبل ڈبل ڈیوٹیاں کرنی پڑتی ہیں کھانا ٹائم پر نہیں ملتا ہے ان کی نیندیں پوری نہیں ہوتیں ہیں جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ان کو سیاستدانوں کی حفاظت کی زمہ داری بھی سونپی جاتی ہیں مگر اس کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ اس کا غصہ غریب اور بے گناہ لوگوں کو گناہ گار لکھ کر نکالیں صرف اس بات پر کہ مقدمہ درج کروانے والے ان کے ہم نوا و ہم پیالہ ہیں کل تھانہ کوٹرادھاکشن پولیس نے اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاری تعداد میں لاکھو ں مالیت کا ناجائز اسلحہ پکڑا ساتھ میں ملزم بھی دوسری طرف سرچ آپریشن کرتے ہوئے کچھ مشتبہ افراد کو بھی گرفتار کیا ہے اس آپریشن کی نگرانی ڈی ایس پی صدر خود کر رہے تھے ،میں زیادہ تر تعریف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا ہوں مگر میرے صحافتی استاد سینئر صحافی مقصود انجم کمبوہ مجھے کہتے تھے کہ مہر صاحب اتنی تعریف مہنگی پڑ جاتی ہے میں نہیں مانتا تھا مگر ایک دفعہ میں نے پولیس کے حق میں یکے بعد دیگرے خبریں لگائیں تو ان خبروں کے صلے کے طور پر میر ے خلاف یکے بعد دیگرے دو جھوٹے مقدمے درج کر دیئے گئے جس پر میرے استاد نے مجھے ایک مثال دی جو میں لکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے وہ آپکو پسند آئے گی۔
اساں تہاڈیاں نمازاں پڑھیئے ،
تے تسی ساڈے لوٹے توڑو
خیر ہم آج کل بم دھماکوں اور فائرنگ والی دہشتگردی کا رونا روتے ہیں مگر دوسری طرف جو دہشتگردی ہم خود اپنے گلی محلے اور عزیز اقارب کے ساتھ کرتے ہیں اس طرف ہم نے کبھی دیکھنا گوارا نہیں کیا ہے منافقت ،دھوکہ دہی ،ملاوٹ جھوٹ بولنا اور اس کے علاوہ دیگر برائیاں یہ سب دہشتگردی کے ہی زمرے میں آتی ہیں ہمارے علماء حضرات جن کو منبر محراب کا کام سونپا گیا ہے وہ بھی اپنی زمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں نہایت ہی معذرت کے ساتھ سب اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدیوں سے اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ آ پکو غسل اور نماز جنازہ کا طریقہ اور مسنون دعائیں آتی ہیں تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اوسطاّنتیجہ صفر ہی ہوگا ہم ہر جگہ پر کھڑے ہو کر یہ نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں کہ ہم سچ بول رہے ہیں کچھ لوگ میرے اس سچ کو بہت کڑوا محسوس کریں گے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے سمیت ہم سب لوگ یہی کارنامے سر انجام دے رہے ہیں ہم نے کبھی اپنے ضمیر کو ٹٹولنا مناسب نہیں سمجھا ۔کسی بھی ادارے میں ملازمت کرنیوالے ہمارے ہی عزیز اقارب ہیں وہاں پر بولیاں لگتی ہیں بہت کم لوگ ہیں جو اپنے ضمیر کی بولی نہیں لگنے دیتے اور ایسے افراد کو ہمیشہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک شعر عرض کروگا ۔
چند سکوں میں بکتا ہے یہاں انسان کا ضمیر
کون کہتا ہے میرے ملک میں مہنگائی بہت ہے
اب آتے ہیں کراچی کے حالات کی طرف تو آج جو لوگ ہماری بہادر افواج کو دھمکیاں دے رہے ہیں جب یہ لوگ خود اہلیان کراچی کا خون پانی کی طرح بہاتے تھے تو اس وقت ان کو خدا یاد نہیں تھا اب اگر ان کی کالی کرتوتوں سے پردہ اُٹھایا جا رہا ہے تو یہ سچ بہت کڑوا لگ رہا ہے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اہلیان کراچی کو گاجر مولی کی طرح موت کے گھاٹ اُتارا جا رہاہے پانی نہیں ہے پینے کو کربلا بنا دیا ہے جیالوں نے کراچی کو بجلی نہیں ہے کراچی میں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں ان غریبوں کی عید کیسی ہو گی اس کی مثال ایک دوست نے کیا شاعرانہ انداز میں دی ہے ۔
بڑی انوکھی عید کی خریداری ہے شہر کراچی میں
لوگ رو رو کر کفن خرید رہے ہیں اپنے پیاروں کیلئے
نئے کپڑوں کی بچائے لوگ اپنے پیاروں کیلئے کفن خرید کر منوں مٹی تلے دفنا رہے ہیں یہ کارنامے ہماری حکومتیں سرانجام دے رہی ہیں رمضان المبارک کا مہینہ ہے اربوں روپے کی سبسڈی کا لولی پوپ دے کر عوام کے ساتھ محبت کا شور مچایا جا رہا ہے چونکہ میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا پاکستانی ہوں اسی لیئے عوام کا پیغام اپنے قابل صد احترام لیڈروں کے نام یہاں پر لکھوں گا کہ جناب ایک معروف اخبار میں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے بتایا ہے کہ ہم کو حکومت نے سبسڈی نہیں دی ہے ہم خود ہی ماہ مقدس کے تقدس میں چینی کی فی کلو قیمت پیدواری لاگت ذیادہ ہونے کے باوجود 50 روپے فی کلو رمضان بازار میں فراہم کر رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ ان بازاروں کی بجائے ہم اپنے شاہانہ اخراجات کو کم کر کے چند دن دال سبزی پر گزارا کر کے اوپن مارکیٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے جس سے ساری عوام کو فائدہ ہوتا نہ کہ ایک مخصوص طبقے کو ہر طرف دھوکہ دہی جاری ہے
کسی نے دھول کیا آنکھوں میں ڈال دی
میں اب پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جہاں پر قربانیاں لازوال ہیں وہاں پر ایسی قباحتیں بھی ہیں جن کو سن اور پڑ ھ کرانسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے میرے خلاف تھانہ کوٹرادھاکشن میں ایک مقدمہ درج ہے جس کا نمبر164/15 ہے اس میں میڈیکل بھی بوگس ہے اور ساتھ میں پوری ایف آئی آر بھی اس میں تفتیش ایسی ایمانداری سے کی گئی ہے کہ ایمانداری کی دھجیاں اُڑا دی گئیں ہیں بوگس مثل بوگس گواہ سب کچھ بنا گئے جائے وقوع پر تفتیشی افسر نے تحریر کر دیا ہے اللہ بھلا کرے جناب ڈی پی او قصور رائے بابر سعید صاحب کا کہ جنہوں نے میرے جیسے غریب کی فریاد کو سن کر دادرسی کا حکم جاری کیا اور ڈی ایس پی صدر جناب مرزا عارف رشید صاحب نے حق اور سچ کو ڈھونڈنے کیلئے جائے وقوع کا دورہ کیا ۔وہاں سے میں بے گناہ قرار پایا میں ضلع قصور کی عوام کو یہ پیغام دوں گا کہ وہ انصاف کے حصول کیلئے ان کے پاس ضرور جائیں ۔خیر میں حکام بالا جس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ،وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب کے سامنے یہ درخواست رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ذ رائع سے اس کیس کی تفتیش کروائیں اور دیکھیں کہ کیسے انصاف کو پاؤں تلے روند کر آپ کی مثبت کاوشوں کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے ۔یاد رہے کہ میں بھی ایک اخبار کا ایڈیٹر ہوں ؟

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog