ارمان ِ دل

Published on March 9, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 934)      No Comments

Uzma
قسط نمبر  8
رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا
یہ کھانا کہاں لے کر جا رہی ہو؟؟؟؟مسکان کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے پوچھنے لگی۔
امی۔۔۔وہ۔۔۔!!رک رک کر بولتے ہوئے۔
وہ ۔۔۔۔گڑیا کے لیے۔۔۔!!
سمجھا دینا اسے اس لڑکے سے بات چیت ختم کر دے تو ہی بہتر ہے،ورنہ میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گی۔۔۔وہ غصہ سے کہتے ہوئےخود سونے کے لیے کمرے میں چلی گئیں۔
شکر ہے۔۔۔۔۔
دادا،دادی نہیں ہیں یہاں۔۔۔
ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا۔۔۔۔!ثریا کے جانے کے بعدخاموشی سےخود سے باتیں کرنے لگی۔۔۔!
مسکان۔۔۔!!
اس وقت یہاں۔۔۔!!صبا تہجد کے لیے وضو کرنے لے لیے اٹھی تھی اسے سیڑھیوں کے پاس کھڑے دیکھ کر پوچھنے لگی۔
ہاں۔۔۔۔!اپنی سوچوں سےآزاد ہوتے ہوئے۔
میں بس گڑیا کے لیے کھانالے کر جا رہی تھی۔۔۔۔ٹرے پکڑتے ہوئے اندر کمرے میں جانے لگی۔
رکو۔۔۔!صبا نے اسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔
آج جو بھی ہوا،بہت برا ہوا۔۔۔
مجھے افسوس ہے امی نے جو کچھ تمہیں کہا۔۔۔وہ تاسف سے بولی۔
کوئی بات نہیں۔۔۔!سنجیدہ ہوکر کہتے ہوئے۔
اچھا۔۔۔۔
سنو۔۔۔!تم جانتی ہو نا۔۔۔کہ۔۔۔
وہ عیسائی مذہب سے ہے۔۔۔۔
سمجھاؤ اس کو۔۔۔!!
جیسا اس نے آج کہا،بہت غلط کہا۔۔۔۔!!
جیسا وہ سوچتی ہے ،ویسا ممکن نہیں۔۔۔
کیونکہ وہ مذہب نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔
تم سے بہت اٹیچ ہے۔۔۔سمجھاؤ اس کو۔۔
پلیز۔۔۔۔۔۔!مسکان خاموشی سے صبا کی ساری باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔!
جی۔۔۔۔۔۔!بے فکر رہیے۔۔اور ٹرے لے کر کمرے میں آنے لگی۔
٭٭٭٭
ویسے۔۔۔!!شرارتی انداز میں۔
اچھی خاصی بے عزتی کی تھی اس لڑکی نے تمہاری۔۔۔شکیل اسے ایک ماہ پہلے  کی بات یاد کرواتے ہوئے ہنس رہا تھا۔
اچھا ۔۔۔۔۔بس۔۔۔بس۔۔
مس انڈرسٹیندنگ ہو گئی تھی انہیں۔۔۔!!وہ اسے وضاحت دینے لگا۔۔۔
انہیں۔۔۔۔۔!!!
واہ ۔۔۔!واہ۔۔۔۔!!!
انہیں لفظ پر زور ڈالتے ہوئے وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
اتنی عزت۔۔۔۔۔!!!!خیر تو ہے نا!!!شرارتی انداز میں پوچھتے ہوئے۔
تم بکواس نہ کرو اب ۔۔۔!!زچ ہو کر ارمان اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہا تھا۔
بکواس۔۔۔۔۔!!یہ بکواس ہے؟؟؟؟؟حیرانگی سے کہتے ہوئے۔
ہاں۔۔۔۔کافی کا کپ منہ کو لگاتے ہوئے۔۔۔۔
یار۔۔۔۔
تم بھی نا۔۔۔!!کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے عجیب نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
کیا دیکھ رہے ہو؟؟؟اس کو یوں اپنی جانب متوجہ  ہوتے ہوئے دیکھ کر اس نے پوچھا۔
کچھ نہیں۔۔۔۔!
بس دیکھ رہا ہوں کہ تم  دور کیوں بھاگتے ہومحبت سے ؟؟؟سنجیدہ ہو کر اس نے پوچھا۔
ویسے محبت سے ڈرتے ہو یا لڑکی ۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے لڑکیوں سے۔۔۔فوراََشرارتی لہجے  میں پوچھنے لگا۔۔۔!
آپس کی بات بتاؤں۔۔۔۔!!
دونوں سے۔۔۔۔!!!!آنکھ مارتے ہوئے  قہقہہ لگا کر اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے وہ بسکٹ کو چائے  کے ساتھ کھانے لگا۔۔۔!
اف ف ف ف ف ف ۔۔۔!!!اس کی بات سن کر شکیل بھی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
اچھا۔۔۔مسکراتے ہوئے  اس نے کہا۔
شام کو ملاقات ہوتی ہے اب۔۔۔!
 بہت کام ہے ابھی۔۔۔۔اس نے فائلز کو پکڑتے ہوئے کمپیوٹر آن کیا۔
اوکے۔۔اوکے۔
تم اور یہ کام۔۔۔!مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
عجیب پاگل انسان ہے۔۔۔!مسکراتے ہوئے اس کی بات کو ذہن میں لیے ارمان خود سے باتیں کرنے لگا۔
٭٭٭٭
میں امی سے کروں گی بات۔۔۔!!
بے فکر رہو۔۔۔!!!
مگر وعدہ کرو تم کل والی حرکت اب کبھی نہیں دہراؤگی۔۔۔!!اسے سمجھاتے ہوئےوہ بولی۔
وعدہ نہیں کر سکتی میں۔۔۔وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہو کر بولی۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔مسکان قدرے خفگی سے بولی۔
پھر میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔!!
گھر ہی بیٹھو تم۔۔۔ناراض ہوتے ہوئے۔
چھوڑ دو کالج ۔۔۔!پڑھائی سب کچھ۔۔۔۔!!
آپی ۔۔۔!
آپی ۔۔۔گڑیا مسکان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہوئےبولی۔
اچھا۔۔
ٹھیک ہے۔۔
میں کوشش کروں گی۔۔۔!آخر گڑیا نے اتنا ہی بولا۔
کوشش؟؟؟وہ حیرانگی سے بولی۔
نہیں۔۔۔!!!
تمہیں وعدہ کرنا ہو گا مجھ سے۔۔۔۔!
ٹھیک ہے۔۔!!گڑیا مسکان کی بات مان تو گئی تھی مگر مسکان اندر  ہی ا ندر سے پریشان ہو نے لگی۔۔۔
خوش اب۔۔۔!!مسکان سے پوچھتے ہوئے گڑیا نے سوالیہ انداز میں کہا۔
ہاں۔۔۔!!مسکان مسکر ائی۔
بس آپی۔۔۔!!
آپ مجھ سے ناراض مت ہوا کریں۔۔!وہ نمی والے لہجے میں بولی۔
اچھا۔۔۔
ٹھیک  ہے۔۔۔
نہیں ہوتی ناراض۔۔۔!!!اس نے اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے اسے گلے لگایا۔
٭٭٭٭
امی۔۔۔
آپ اس کے کالج جانے پر توپابندی عائد مت کریں۔۔۔!!
پلیز۔۔۔وہ ثریا کو سمجھاتے ہوئے  اس سے بات کرنے لگی جبکہ ثریا  اپنا منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئی۔
امی۔۔۔۔!!
پلیز۔۔۔۔!وہ ثریا کے بالکل سامنے آکھڑی ہوئی ۔
دیکھیں نا!
وہ مان گئی ہے۔۔۔۔۔۔وہ نہیں بات کرے گی کاشف سے۔۔!
پلیز ۔۔!
امی!مان جائے نا۔۔۔!بار بار ضد کرتے ہوئے اسے منا رہی تھی جبکہ صبا بیسن پر ہاتھ دھوتے ہوئے ان دونوں کو دور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
امی ۔۔۔!پلیز۔۔۔!
صبا۔۔۔تم ہی سمجھاؤ نا امی کو۔۔!دور سے صباکو آتا دیکھ کر اس سےدرخواست کرنے لگی۔
امی۔۔۔۔چھوڑیے ناغصہ۔۔۔!
وہ بے چاری دو دنوں سے بہت رو رہی ہے۔۔۔۔!!صبا اسے منانے کی کوشش میں آخر کارکامیاب ہو ہی گئی۔۔!
اچھا۔۔۔!اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔!
لیکن کل کو کوئی مسئلہ ہوا تو ذمہ دار تم ہی ہو گی مسکان۔۔!اس کو اس کا نام لے کر کہتے ہوئے ثریا نے دھمکایا۔
امی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔۔۔!مسکراتے ہوئے اس نے یقینی  الفاظ میں کہا۔
شکریہ امی۔۔۔!دھیما دھیما سا مسکراتے ہوئے کہنے لگی ،کیونکہ وہ خوش تھی کہ وہ مان گئیں ہیں۔
٭٭٭٭
زندگی بھی نا! نجانے کتنے کتنے اسبا ق دیتی ہے۔
کتنے غم ۔۔۔کتنی تکلیفیں۔۔۔!
مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ زندگی کو خود  کتنا کچھ جھیلنا پڑا ہو گا ان غم اور تکلیفوں کے بیچ میں۔
ہر کوئی محبت کے لیے ہی  زندگی  کو اپنا تا بھی ہےاور بعض  اوقات بدگمان بھی ہو جاتا ہے ۔۔۔!
جیسے میں نے امی کی محبت کی خواہش کے لیےزندگی کو اپنایا اوروہ مجھ سے بدگمان ہیں۔۔۔!
لیکن میں بھی کیا سوچ رہی ہوں۔۔!
انہیں تو مجھ سے محبت ہی نہیں۔۔۔۔
جہاں بدگمانیاں ڈیرے ڈال لیں وہاں محبت کی گنجائش بھلا کب نکلتی ہے ۔۔۔!مسکان لیمپ کی روشنی میں  کرسی پر بیٹھی میز پر ڈائری  رکھے قلم سے اپنے احساسات تحریر کر رہی تھی۔
امی کو سوتیلے پن کے طعنوں  سے فرصت نہیں ملتی اور دوسری طرف گڑیا ۔۔۔!!اس نے لکھتے لکھتے ایک نظر گڑیا پر ڈالی جو بیڈ پر سوچکی تھی۔۔۔۔!
کتنی محبت کرتی ہے نا مجھ سے۔۔۔۔۔۔
میرے لیے اپنی محبت  کو قربان کر دیا۔۔۔
آج میری بات مان کر مجھ سے وعدہ کرکے ،گڑیا نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی ہےکہ میں بیان نہیں کر سکتی۔۔۔!!لکھتے لکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے۔۔۔
نجانے امی ۔۔۔!!کب یہ سوتیلاپن کا لیبل ہٹائیں گی مجھ سے۔۔۔!!
نجانے کب۔۔۔؟؟؟؟؟؟بڑا سا سوالیہ نشان ڈالتے ہوئے ڈائری کو بند کرکے آنسوؤں کو صاف کرنے لگی۔۔۔!
٭٭٭
تایا جان ۔۔۔
آپ ۔۔۔بس مجھے  میری گاڑی دلوا دیں۔۔۔وہ بچوں کی طرح ضد  کرتے ہوئے فرمائش کر رہی تھی ۔۔۔
ہاں ۔۔۔پاپا۔۔۔۔شاہ میر بولتے ہوئے
لے دیں ۔۔۔!!تاکہ ایکسیڈنٹ ہو اس کا۔۔۔
مرے اور جان چھوٹے  میری۔۔۔وہ زچ ہو کر دھیما سا مسکرایا۔
شاہ میر۔۔۔۔!غصہ سے ڈانٹ کر  اس کا نا م لیتے ہوئے حسن صاحب بولے۔
آج کے بعد یہ نازیبا الفاظ نہ سنوں۔۔۔وہ بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ،کیونکہ حیا کے والد کا انتقال بھی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ہوا تھا۔
پاپا۔۔۔
میں تو۔۔۔۔بس مذاق کررہا تھا۔۔حسن صاحب کی کیفیت دیکھتے ہوئے انہیں ریلیکس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ مسکرایا۔
سوچ ۔۔۔سمجھ کر مذاق کرتے ہیں۔۔!اسے نصیحت کرتے ہوئے وہ حیا کی طرف متوجہ ہوئے۔
اور حیا  بیٹی ۔۔۔!!
بے فکر رہو ۔۔
ڈرائیونگ سیکھ لو پھر انشاءاللہ ۔۔۔!
میں اپنی بیٹی کو ضرور گاڑی لے دوں گا۔۔۔!حیا کو سمجھاتے ہوئے
جی۔۔۔۔!!
 ٹھیک ہے۔۔۔۔! خوش  ہوتے ہوئے اپنا بیگ پہن رہی تھی۔  
ہاں۔۔۔۔۔
وہ بھی بچوں والی ۔۔۔!ہلکی آواز میں اسے چھیڑتےہوئےکہنے لگا۔
تایا جان۔۔۔!زچ ہو کر وہ بولی۔
یہ۔۔۔!!چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہ بولی ۔۔۔
سمجھا لیں آپ اس کو۔۔۔!
یونیورسٹی میں بھی یہ ایسے ہی کرتا ہے۔۔۔حیا نازک مزاجی سے اس کی شکایت کرنے لگی۔۔
اوہ۔۔!ہوََََ!
صبح ۔۔۔۔۔ صبح ہی لڑائی ۔۔۔۔۔!ثناء ناشتہ لے کر آتے ہوئے انہیں دیکھ کر بولی
یہ ہی لڑتا ہے آپی۔۔۔!
میں نہیں۔۔۔!!جوس گلاس میں  ڈالتے ہوئےپینے لگی ۔۔۔۔
اوہ۔۔۔!ہو۔۔۔۔!!
تم  تو جیسے ۔۔۔۔!
شاہ میر۔۔۔!اس سے پہلے شاہ میر کوئی  بات کرتا حسن صاحب نے اسے چپ کروا دیا۔
یہاں تو  حمایتی ہی بڑے   ہیں محترمہ  کے۔۔۔۔!!
یونیورسٹی جا کر پوچھتا ہوں ۔۔۔۔!!منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اسے گھور کر سلائس اٹھاتے ہوئے نوش کرنے لگا۔۔۔ثناء دونوں کو دیکھ  کر  سامنے والی کرسی پر بیٹھی مسکرائےجارہی تھی۔۔۔!
رسما چلی گئی کیا؟؟؟پاپا ثناء سے دریافت کرتے ہوئے بولے۔
ہاں!!!
بہت تنگ کر کے گئی ہے مجھے۔۔۔!اس کی شکایت کرتے ہوئے وہ بولی۔
ہاں۔۔۔
یہ لڑکیاں تو ہوتی ہی                      ایسی ہیں۔۔ایک نظر حیا پر ڈالتے ہوئے ثناء سے کہنے لگا۔۔۔!
ہاں!!وہ چڑ کر بولی!What do you mean???????
میں نے کیا کہا تمہیں۔۔۔!مسکراتے ہوئے چائے کا کپ اٹھانے لگا۔
اب پاپا۔۔۔۔
دیکھ لیں۔۔۔میں توآپی سے بات کر رہا ہوں۔۔۔
اس کو پتہ نہیں کیا مسئلے ہیں مجھ سے ۔۔۔!اس کی شکایت کرتے ہوئے شاہ میر اسے منہ  چڑھا رہا تھا۔
شاہ میر ۔۔!حسن صاحب اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے  ہوئے ہولے سے ہنس دیے۔
میں ہی چپ رہوں ۔۔۔!!
لگتا  اب یہاں گونگے بن کر رہنا پڑے گا ۔۔!وہ زچ ہو کر وہاں سے سے اٹھ گیا  اور ثناء  حیا اور پاپا ا س کی اس بات پر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔۔۔!
آجاؤ اب جلدی میڈم، وہ منہ بسورتے ہوئے ، ان سب کو ہنستا ہوا دیکھ کر جاتے ہوئے  اسے کہہ گیا۔۔۔ ۔۔۔۔!
نہیں کروں گا ۔۔۔!!دھمکی آمیز لہجہ میں کہتے ہوئےوہ تیزی سے وہاں سے  نکل گیا۔Waitزیادہ دیر
اچھا۔۔۔!اچھا۔۔۔۔!وہ اندر ہی اندر اس کے رویے پر مسکرا رہی تھی۔
٭٭٭٭
 May I come in sir?
جواد سے اجازت طلب کرتے ہوئےوہ آہستگی سے بولی۔
۔۔۔  Yes, come in
مسکان کو آتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خود بھی بیٹھا۔Have a seat please
جی۔۔۔۔!!کرسی پر بیٹھے  ہوئے اس نے ادھر ادھر دیکھا۔۔
ان فیکٹ ذرا بزی تھی تو آنے میں دیر ہو گئی ۔۔۔!!معذرت کرتے ہوئے وہ ذر اکفیوز ہوئی ۔
 نو اٹس اوکے۔۔۔وہ کرسی کو حرکت دیتے ہوئے  اس کو مزید آگے کر کے بیٹھا۔
مجھے آپ سے کچھ اہم بات کرنا تھی۔۔۔۔۔!
آپ تو جانتی ہیں نا!
کہ میں نے ہی  آپ کو یہاں جگہ دی۔۔۔!!!مشکوک انداز میں کہتے ہوئے   اس نے احسان  ظاہر کیا۔
جی۔۔۔!!
آپ کا احسان ہے سر۔۔۔۔!اظہار تشکر سے کہتے ہوئے وہ بولی۔
ہاں۔۔۔۔!!!
بس نجھے اسی سلسلہ میں ۔۔۔!!
کچھ مطلب کی بات کرنا تھی۔۔۔!اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے  وہ اہم بات پر آیا۔
مطلب کی بات۔۔۔۔!!!وہ چونکی۔۔۔۔
ہاں!!!جواد اس کی بات  کا جوا ب دیتے ہوئے بولا۔
مگر میں  سمجھی نہیں۔۔۔۔۔!پریشان ہو کر اس سے کہنے لگی۔
سب سمجھ جاؤ گی۔۔۔!ہنستے ہوئے کرسی گھمانے لگا۔
 آپ کو یاد تو ہو  گا کہ کن کنڈیشنز پر   آپ کو اپوائنٹ  کیا گیا ہے۔اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
جی سر۔۔۔۔!
میں پوری کوشش کررہی  ہوں۔۔۔!
انشاءاللہ ! ہر ممکن کوشش کروں گی اس کمپنی کی ترقی کے لیے۔۔۔!!مسکراتے ہوئےاس سے عہد کررہی  تھی۔۔۔!!!
ہاں!وہ سب تو ٹھیک ہے مگرمگر۔۔۔!بات کرتے کرتے رک گیا۔
مگر ۔۔۔!!کوئی پرابلم ہے سر؟؟؟اس کی بات کو مکمل طور پر جاننے کے لیےسوالیہ طور پر پوچھ رہی تھی۔
نہیں پرابلم تو نہیں۔۔!
خیر۔۔۔!!
ایک بات تو بتائیے مس مسکان۔۔۔!مسکراتے ہوئے طویل بات کرنے لگا۔
 جی۔۔۔!!وہ ذرا کنفیوز ہوئی ۔۔!
ارمان سر کیسے لگتے ہیں آپ کو؟؟؟اس کا لہجہ ذرا عجیب سا  تھا۔
جی۔۔۔!!حیران ہوتے ہوئے وہ یکدم چونکی۔
 میں سمجھی نہیں ۔۔۔!!کنفیوز ہوتے ہوئے وہ رک رک کر بولی۔
سر ۔۔!اس کی خاموشی اور تاثر کو بھانپتے ہوئے  خود ہی وہ مزید بولی۔
مجھے کام ہے ۔۔۔!
  کنفیوز ہو کر رک رک کر بات کرتے ہوئے وہاں سے جانے ہی لگی تھی کہ اس نے اسے روکا۔  میرا خیال ہے! مجھے چلنا چاہیئے ۔وہ
رکیئے تو۔۔۔۔!!
آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔
دیکھئے مس مسکان
  جاب میں نےہی  دی  ہے یہاں ۔۔۔!!اس کی بات سننے کے باوجود مسکان وہاں رکی ہی نہیں جبکہ جواد غصہ سے بولتا چلا گیا۔ مت بھولیئے کہ آپ کو
یہ رویہ مجھے پسند نہیں ۔۔۔!جبکہ  وہ اس کی یہ بات سننے  اور غصہ دیکھنے  کے بعد وہاں سے چل دی ،کیونکہ وہ بہت ڈر گئی تھی۔
سمجھتی کیا ہے  یہ آخر۔۔۔۔!اس کے جانے کے بعد غصہ سے میز پر ہاتھ مار کر بولا۔
٭٭٭٭
  کچھ کھاؤ گی۔۔۔۔!!اسےکمپیوٹر   پر کا  م کرتا دیکھ کر اس سے پوچھتے ہوئے  انشراح  نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
ہاں۔۔۔!!نہیں۔۔۔۔!!نہیں۔۔۔۔!!وہ بوکھلائی  کیونکہ ابھی تک وہ جواد کے اثر میں تھی۔۔۔!
اوہ!ہو۔۔۔!!خیر تو ہےنا ؟؟ اس کی بوکھلاہٹ کو جانتے ہوئے اس نے سوال کیا۔
ہاں۔۔۔!بس۔۔۔!! تھک گئی  ہوں بہت۔۔۔۔!تھکاوٹ کا اظہار کرتے ہوئے  وہ جمائیاں لینے لگی۔۔۔!!!
ام م م م۔۔۔!!
اچھا۔۔۔۔!!!چھوڑو یہ کام وام ۔۔۔!!
ویسے بھی دس منٹ رہ گئے ہیں بریک میں۔۔۔۔!!گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے  انشراح  نے کہا۔
  ٹائپنگ کرنے لگی۔۔۔!! ہوئے    ہاں! بس۔۔۔دو منٹ ۔۔۔!جلدی سے کام ختم کرتے
جی۔۔۔۔سر۔۔۔۔!انشراح ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔
جی۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔دو منٹ۔۔۔
میں کہتی ہوں۔۔۔!!اس سے بات کرتے ہوئے فون رکھ کر مڑی.
مسکان۔۔۔!وہ اس سے مخاطب ہوئی۔
     ہاں۔۔!کمپیوٹر سے نظریں  ہٹاتے ہوئے اس نے جواب دیا۔
جواد سر نے بلایا ہے تمہیں۔۔۔۔!!!
جواد سر نے۔۔۔۔۔؟وہ چونکی۔
ہاں  !تو بھلا اس میں حیرانگی کی کیا بات ہے؟؟
پاگل۔۔۔!!
جلدی جاؤ۔۔۔!
اور جلدی آنا۔۔۔!!
   مل کر لنچ کرتے ہیں۔مسکراتے ہوئے انشراح نے اس سے کہا۔
مسکان  بمشکل ہی خود کو کھڑا کرتے ہوئے  وہاں سے جانے لگی مگر دل ہی دل میں وہ بہت گھبرا گئی تھی  کیونکہ اتنی اونچی آواز اور غصہ  اس سے برداشت  نہیں ہوتا تھاجبکہ اب پھر اسے وہیں جانا تھا۔
جاری ہے
 

 

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog