وعدہ معاف گواہ

Published on March 13, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 567)      No Comments

logo-1
شطرنج کے اصولوں میں ایک اصول ہوتا ہے کہ اگر پیادہ چل کر دشمن کی باؤنڈری لائن تک پہنچ جائے تو وہ وزیر بن جاتا ہے ۔پاکستانی سیاست میں ایک انقلاب برپا ہو گیا ہے کہ جب سے مصطفےٰ کمال اور انیس قائم خوانی نے دبنگ انٹری ماری ہے۔اچانک سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسے خبریں چلنے لگ گئیں کہ جیسے کسی نے زلزلہ آنے سے پہلے ہی اس کی ایسی پیش گوئی کر دی ہے کہ بس یہاں آئے گا اور یہیں آئے گااور اتنی تباہی ہونی ہے اور ہو کر رہے گی جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ لوگ تو روز ہی دوسرے ممالک سے پاکستان اور پاکستان سے دوسرے ممالک سفر کرتے ہیں لیکن یہ آمد تو ایسے پیش کی جا رہی تھی کہ جیسے کوئی مسیحا آرہا ہے جیسے کہ کوئی لوگوں کی بقا ء کا پیغام لے کر آ رہا ہو۔مصطفے ٰ کمال پاکستان آتے ہی ایک اہم کانفرنس کرنے والے ہیں ،انکی آمد میں تین گھنٹے باقی ہیں ،وہ اب ائیر پورٹ پر اتر چکے ہیں ،اب وہ گاڑی میں بیٹھ گئے ہیں ،وہ اب اپنے گھر کراچی میں پہنچ چکے ہیں ،تھوڑی ہی دیر میں وہ پریس کانفرنس کریں گے ہمارے ساتھ رہئے گا!!!!۔ایسے لگ رہا تھاکہ جیسے مصطفےٰ کمال اور انیس قائم خوانی کو پاکستان نے سات سمندر پار اس لئے بھیجا تھا کہ پاکستان پر احسان کرو اور اس کی گردن یورپ کے پنجوں سے چھڑوا کر آؤ اور انکی واپسی پر تمام لوگ جمع ہوں یہ جاننے کیلئے کہ یہ وہاں سے کیا سمن لے کر آئے ہیں؟؟ ۔لیکن کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا جیسے صرف عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے ان کا دھیان ہٹایا جا رہا ہو کہ ایم کیو ایم کے خلاف کراچی میں جو آپریشن ہو ررہا ہے اور جس طرح ایم کیو ایم بری طرح سٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں پھنس چکی ہے کو نکالا جا رہا ہو۔ آج سے کم و بیش تین سال پہلے ذوالفقار مرزا نے جب قرآن کریم سر پر رکھ کر قسم اٹھا ئی تھی کہ یہ لوگ ملک دشمن عناصر سے ملے ہوئے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن کسی نے بھی یہ کوشش نہیں کی تھی کہ یہ جو بندہ اتنی قسمیں اٹھا رہا ہے ہم ایک دفعہ اس سے پوچھ گچھ توکر لیں کہ آیا یہ پاگل جو اتنی باتیں کرتا ہے وہ سچ بھی ہیں کہ محض سیاست چمکانے کیلئے من گھڑت باتیں کر رہا ہے لیکن کہیں بھی کوئی جوں کا توں نہیں ہوا کسی کے کانوں سے ہوا نہیں گزری کہ ہم اس کیلئے کچھ کر لیں ۔با لکل یہی مناظر اب کی بار بھی دیکھنے میں آئے کہ جب ایم کیو ایم کے سینئیر لیڈر مصطفےٰ کمال اور انیس قائم خوانی نے طوفانی آمد کی اور آتے ہی پورے پاکستان میں میڈیا پر نظر آنے لگے ہیں اور ہر روز صبح سویرے ان دونوں کو لے کر گلی محلوں کے مختلف ٹھیلوں اور بیٹھکوں میں چائے کے ساتھ نمکو یا بسکٹ کی جگہ ان لوگوں کے بارے میں چٹ پٹی قیاس آرائیاں کرنے میں لوگ مشغول نظر آنے لگے ہیں ۔لوگ کئی سوال اٹھا رہے ہوتے ہیں ! کوئی کہتا ہے کہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے،کوئی کہتا ہے کہ ایم کیو ایم اب بس کچھ ہی دنوں کی مہمان ہے او ر ان لوگوں نے پکڑے جانے کے ڈر سے ایم کیو ایم سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ یہ سرکاری وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی گردن چھڑوا رہے ہیں ؟؟؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن باتیں جو بھی ہوں سوال یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا کے بعد یہ دوسرا ایسا شخص ہے کہ جو پاکستانی سیاست میں ایک اعلیٰ مقام بھی رکھتا ہے اور دنیا بھر میں مقبول شخصیات میں سے ایک ہے او ر اس نے ایم کیو ایم کے بارے میں اتنی تفصیل کے ساتھ تمام چیزیں بتائیں کہ اب اس کے آگے اور کسی ثبوت کی گنجائش نہیں بنتی اور انتشار پھیلنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جب پوری پاکستانی عوام نے میڈیا کے ذریعے ایم کیو ایم کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے پھر بھی گورنمنٹ نے کچھ نہیں کیا ہے۔جب مختلف عوامی حلقوں کی جانب سے کمیٹی تشکیل دے کر ان الزامات کی تحقیقات کرنے پر زور دیا گیا تو وزیر مملکت برائے داخلی امور چوہدری نثا ر کا بیان آیا کہ جب تک ہمیں ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کرتے تب تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔!!! کیا کوئی اس بات کو سمجھا سکتا ہے کہ گورنمنٹ کے پاس پہلے جو ثبوت ہیں ان کے پیش نظر حکومت نے کیا کرلیا ہے کہ اب وہ پھر سے ٹھوس ثبوت ان سے مانگ رہی ہے ؟ جیسے ہی اس قسم کی پریس کانفرنس کی گئی اسی وقت حکومت کو چاہئے تھا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتی اور مصطفےٰ کمال اور انیس قائم خوانی کو حراست میں لے کر ان سے انکوائری کرتی اور اگر وہ سچے ہیں تو ایم کیو ایم کو آڑھے ہاتھوں لیتی اور اگر جھوٹے تھے تو ایم کیوایم کی جان چھوٹ جاتی اور ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی جاتی کہ ملک میں جب ایسی خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے اور اوپر سے انہوں نے جلتی پر نمک چھڑکتے ہوئے انتشار پھیلانے والی پریس کانفرنس کر دی !!لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور انہیں قومی ہیرو بننے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ساتھ ہی نئی پارٹی بنانے کا نعرہ بھی لگا دیا گیا اور پاکستانی پرچم کو ہی پارٹی کا جھنڈا بنا کر کہا گیا کہ میری پارٹی کا کوئی نام نہیں بس میری پارٹی یہ جھنڈا ہے۔یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایم کیو ایم کو نئے سرے سے منظم کرنے کیلئے ایک سیاسی چال ہے کہ جو لوگ پھنس گئے ہیں وہ ایم کیو ایم میں رہیں جو دودھ کے دھلے ہیں وہ اس نئی پارٹی میں شریک ہو جائیں جیسے کہ روزانہ کی بنیاد پر زور وشور سے شمولیت کا سلسلہ جاری ہے؟یا کیا واقعی ایم کیو ایم کوختم کرنے کیلئے سٹیبلشمنٹ کا اس کے پیچھے ہاتھ ہے؟کیا اس میں بزنس مین ملوث تو نہیں کیونکہ جتنے بھی بڑے بزنس مین وہاں بزنس کرتے ہیں ان سے ایم کیو ایم بھتہ لیتی ہے اور ان باتوں سے کنارہ رکھتے ہوئے لوگ وہاں انویسٹمنٹ نہیں کرنا چاہتے؟اس مادیت کی جنگ میں اصل فائدہ کس کو ہونے والا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان کا حامی و ناصر رہے ۔۔آمین۔۔ ثمہ آمین۔۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Themes