امیر کی تجوری اور غریب کا پیٹ

Published on March 30, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 562)      No Comments

index
امیر کی تجوری اور غریب کا پیٹ کبھی نہیں بھرتے یہ وہ حقیقت ہے جس سے آنکھیں چرانا بہت بڑی منافقت ہے ہمارا معاشرہ ہر سچائی سے آنکھیں بند کر لیتا ہے کسی کوکسی کی کوئی پرواہ نہیں جس کو دیکھو اپنے اپنے مسائل اپنی اپنی ترقی وکامیابی میں لگا ہوا ہے ۔دن رات دولت کماؤ ،شہرت پاؤ ،آگے بڑھتے جاؤ کسی کے ہاتھ نہ آؤ کسی کی نہ سنو بس اپنی سناتے جاؤ ہماری بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ہمیں پاکستانی کہلاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ ہمارا احساس برتری بھی ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور احساس کمتری بھی ،ہمارے سرکاری ادارے خاص کر سرکاری تعلیمی ادارے بھی غریبوں کے لیے مخصوص ہو کرہ رہ گئے ہیں اور سرکاری ہسپتال بھی یہاں غریبوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں ۔سرکاری ہسپتال بھی جہاں انگریزی بولنے والے کو تعلیم یافتہ ،انتہائی مہذب اور قابل احترام سمجھا جاتا ہے اور اردو میں بات کرنے والے کو جاہل اور گنوار تصور کیا جاتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے جیسے دنیامیں احساس انسانیت بلکل ختم ہو چکا ہے بڑی بڑی گاڑیوں میں چلنے پھرنے والے لوگوں نے کبھی نہیں سوچاکہ گرمی میں پیدل چلنے والے غریب لوگ کس قدر مایوسی اور بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں ایک وقت کی روٹی کما کر دوسراوقت پھر اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں مگر افسوس بڑے بڑے محلات میں رہنے والے امیر زادے جو اپنے اردگرد جینے والے کھلے آسمان تلے زندگی بسر کررہے ہیں ان کا کچھ احساس نہیں جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں یہ بہت سی قربانیوں کے بعد ہم نے حاصل کیا ہے لیکن آج ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں ؟ جس ملک نے ہمیں آزادی سے جینا سکھایا آج ہم اسکی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں کرپشن کرنے والے ہم خود ہیں گالیاں اسے دی جاتی ہیں فائدہ ہم اٹھاتے ہیں نقصان اس کا ہوتا ہے یہی وہ منافقت ہے جس کی بدولت ہم ذلت رسوائی کی دلدل میں دھنستے جار ہے ہیں۔
اقبال نے تو کہا تھا کہ تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر لیکن ہم ” پر” کٹوا کر اڑان کے قابل ہی نہیں رہے ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے شیرو ں کو آتی نہیں روباہی مگر ہم بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں ہم پھل توکھاتے ہیں ،پیڑ کی پرواہ نہیں کرتے کبھی سائے میں بیٹھے رہے ،دیوار کی خستہ حالی پر توجہ نہیں دی ،زہر پی کر زندگی کی دعائیں مانگتے رہے ،نہ رہنماؤں نے رہنمائی کی اور نہ مسیحاؤں نے مسیحائی کی ،ہمارے قائد کی روح تڑپتی رہی اور ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔
آج ہمار معاشرہ کس قدر بے رحم ہو چکا ہے خداوندکریم کے فیصلے جو آسمانوں پرہوتے ہیں مگر کتنے دکھ کا مقام ہے کہ آج کا انسان اپنی تقدیر کے فیصلے خود کتنی آسانی سے کرتا ہے جو خوف خدا سے نہیں ڈرتا جو جہاں سے ملے بس ہڑپ کرنے میں لگا ہواہے ہر فرد خود کو سچااور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے لوگ اپنے مفاد کے لیے ہوا کی طرح اپنا رخ بدل لیتے ہیں دوسروں کی حق تلفی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔
الحمداللہ ہم مسلمان ہیں سلام میں پہل کرنا ہم سب پر فرض ہے لیکن ہمارے ہاں اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ صرف اسے سلام کرتے ہیں جس سے ہمارا مطلب ہو خواہ وہ سلام کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتا۔اس دور میں اخلاق انسانیت پیار محبت صرف فلمی کہانیوں میں دکھائی دیتا ہے یہ صرف اور صرف دین سے دوری اور احساس انسانیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ہمارا پیارا ملک مسائل سے دوچار ہے ہم سب کو اپنا اپنا احتساب کرنا ہوگا جب تک ہم اپنے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑیں گے تب تک ہم نہ تو خود درست ہو سکتے ہیں نہ اپنے ملک کے نظام کو درست کر سکتے ہیں ہمیں اپنی آنے والی نسلوں میں انسانیت کا احساس پیدا کرنا ہو گا ورنہ آنے والا وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا سوچیئے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme