واپڈا،بجلی،حکومت،مہنگائی اور عوام

Published on November 25, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 224)      No Comments

\"rsid
ہزارہ ڈویژن میں بجلی بحران میں ذرا بھر بھی کمی نہیں آئی اور لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے،ہزارہ ڈویژن کے تمام چھوٹے اور بڑے شہروں سمیت دیہی علاقوں کے مکین بھی اس وبال میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں،واپڈا،منتخب نمائندوں اور مقامی انتظامیہ کیخلاف ہر زبان پرشکوہ دکھائی دے رہی ہے اور اخبارات میں بھی عوامی سطح پر درپیش مشکلات اور واپڈا کی بے حسی سے متعلق خبروں کی اشاعت بھی جاری ہے،حکومتی سطح سے بجلی بحران پر قابو پانے اور عوام کو لوڈ شیڈنگ کے خفناک اژدھا سے نجات دلانے کیلئے ہر عوامی احتجاج کے بعد مشاورتی اجلاسوں کا انعقاد ہوتا ہے،طل تسلیوں کیساتھ نیا پینترا بدل کر بیانات جاری کر کے عوامی اشتعال کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے،مگر دوسری جانب اپنی روش نہ بدلنے والوں نے عوام پر مہنگائی بم گرانے کو اپنا مشغلہ عظیم سمجھا ہوا ہے،پہلے ہی ملک بدترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہے،غریب فاقے کشیوں کی عملی تصویر کیساتھ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں ناکام ہے تو دوسری جانب یہی حکومت بدقسمت قوم کی ہڈیاں تک نوچنے سے بھی باز نہیں آ رہی،ایک روز قبل ہی نیپرا نے بجلی کی پیداوار میں ایندھن کی لاگت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اکتوبر کیلئے بجلی فی یونٹ 73پیسے مہنگی کردی ہے ،خبر کے مطابق کراچی اور پشاور کے سوا ملک بھر کے صارفین پر اس اضافے کا اطلاق ہو گا، نیپرا نے یہ فیصلہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی درخواست پر اسلام آباد میں سماعت کے بعد کیا ،نیپرا کو بتایا گیا م کہ ماہ اکتوبرمیں 8ارب 42کروڑ یونٹ بجلی پیدا ہوئی جس میں سے 39فیصد سے زیادہ بجلی فرنس آئل سے بنی ، جس پر لاگت 15روپے 88پیسے فی یونٹ آئی، نیپرا نے سماعت کے بعد فی یونٹ بجلی 73پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے،صارفین پر اس اضافے کا بوجھ کب ڈالنا ہے اس بارے میں نیپرا بعد میں نوٹیفکیشن جاری کرے گی،حکومتی مجبوریوں اور ان کی رام کہانیوں کے پس پردہ کے کچھ حقائق حال ہی میں آڈیٹر جنرل نے اپنی 2009یعنی چار سال پہلے کی رپورٹ منظر عام پر لاتے ہوئے ان حقائق سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے جن کے ارتکاب کے بعد تواتر کیساتھ رگڑہ عوام کو لگ رہا ہے،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپڈا میں فراڈ اورچوری کی مد میں تقریبا ساڑھے تینتالیس کروڑ روپے ضائع کیے گئے ہیں، پاکستان میں پانی اور بجلی کے ادارے ’واپڈا‘ کے بجٹ میں نوے ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے،آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ’واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمینٹ اتھارٹی‘ یا ’واپڈا‘ کے مالی سال سنہ دو ہزار نو اور دس کے بجٹ میں نوے ارب روپوں سے زیادہ مالی بیضابطگیوں اوربے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپڈا کی مالی بے ضابطگیوں میں ساٹھ کروڑ ڈالرسے زیادہ زر مبادلہ کی رقم بھی شامل ہے جو قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خرچ کی گئی ہے جبکہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساڑھے بتیس ارب روپے کی مزید رقم بھی خرچ کی گئی ہے،
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ واپڈا میں فراڈ اورچوری مالی گھپلوں کے مد میں تقریبا ساڑھے تینتالیس کروڑ روپے ضائع کیے گئے ہیں، جبکہ واپڈا حکام کی غفلت کی وجہ سے تقریبا بیالیس کروڑ کا نقصان ہوا ہے،رپورٹ کے مطابق مختلف کمپنیوں کو مطلوبہ رقم سے زیادہ ادائیگی کی مد میں تقریبا ساڑھے نو کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا ہے، جبکہ پانچ ارب سترہ کروڑ روپے کے اخراجات کا واپڈا نے آڈٹ حکام کوریکارڈ ہی فراہم نہیں کیا،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ٹھیکے میں اصل رقم سے پانچ ارب سترہ کروڑ روپے سے زیادہ رقم ادا کی گئی اور اس کے دستاویزات بھی آڈٹ حکام کو پیش نہیں کیے گئے، اس پروجیکٹ میں پونے انتیس کروڑ روپے سے زیادہ رقم لگژری گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کی گئی ہے اور ان گاڑیوں کی خریداری پر مارکیٹ کی قیمت سے آٹھ کروڑ سترہ لاکھ روپے زیادہ ادا کیے گئے،رپورٹ میں بتایا گیا ہے نیلم جہلم منصوبے کے ٹھیکیدارکو قواعد کیخلاف ورزی کرتے ہوئے انشورنس کی مد میں پونے تئیس کروڑ روپے سے زیادہ رقم ادا کی گئی ہے، یاد رہے کہ اس منصوبے کے لیے رقم پاکستان میں تمام صارفین کے بلوں پر سرچارج عائد کرکے لی جاتی ہے اور اس رقم میں گھپلوں کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی،رپورٹ میں ہی بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے کرائے کے بجلی گھروں کے پندرہ منصوبے منظور کیے جس سے ستائیس سو میگا واٹ بجلی سسٹم میں آنی تھی لیکن سنہ دو ہزار دس تک صرف باسٹھ میگا واٹ پیپکو حاصل کرسکا، پندرہ معاہدوں میں سے نو مؤثر ہوسکے اور حکومت نے پیشگی ادائیگی کرتے ہوئے سولہ ارب ساٹھ کروڑ روپے ادا کیے،آڈیٹر جنرل نے حکومت کو سفارش کی تھی کہ جومعاہدے قابل عمل نہیں ہوئے انہیں منسوخ کیا جائے اور ادا کردہ رقم سود سمیت واپس لی جائے اور متعلقہ کمپنیوں سے جرمانے کی رقم وصول کی جائے ،رپورٹ کے بعد اس وقت کی حکومت نے تو کوئی خاس ایکشن نہ لیا تاہم کچھ عرصہ قبل ہی سپریم کورٹ نے معاملہ کی نشاندہی اور عوام سے لوٹ مار کی جانے والی ٹیکسوں کی صورت میں رقم کے حوالے سے حقائق سامنے لانے کا بھی حکم دیا تھا،واپڈا نے ابھی اپنے متعلق کھلنے والے کیسوں کا ہی سامنا نہیں کیا تھا کہ ایک بار پھر پابندی کے باوجود بجلی قیمتوں میں اضافے کیلئے حکومت کی منتیں سماجتیں شروع کر رکھی ہیں،ہزارہ ڈویژن جو کہ تربیلا اور غازی بروتھا کی صورت میں پورے ملک میں روشنیاں بکھیرنے والے اس بدقسمت ڈویژن کے مکینوں کو نظرانداز کر کے بجلی بحران کا ملبہ بھی انہی پر گرایا جاتا اور پورے ملک ہی کی طرح قیمتوں میں اضافے کیساتھ ہزارہ کے عوام سے بھی ناانصافی روا رکھی جاتی ہے،حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ذمہ داران کو اپنی نشستاً،گفتاً اور برخاستاً کی پالیسی ختم کر کے عوام کے حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنے اور ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے قوم کو ایسے بحرانوں سے نجات دلوانے کی ضرورت ہے،قوم سے ہر چند دنوں بعد قربانیاں مانگنے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی قوم کیلئے کوئی قربانی دینے کیلئے اب اپنے آپ سے ہی پہل کر دیں۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Theme