جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خدشہ!!مگر کیسے؟

Published on October 12, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 540)      No Comments

logo final
تحریر: ۔ شفقت اللہ
جمہوریت کے معنی ایک طرز حکومت ،عوام کی حکومت جس میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں سے بیان کئے جا سکتے ہیں ۔جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں بلا واسطہ اور بالواسطہ ۔بلا واسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہِ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے ۔اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہو سکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غوروفکر کرنا ممکن ہو ۔اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی ان دنوں یہ طرز جمہوریت سویٹزر لینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے ۔جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعََا نا ممکنات میں سے ہے ۔پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہو تا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی ۔اس لئے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی ہے چنانچہ ہر شخص کی مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کے بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لئے جاتے ہیں جو ووٹروں کیطرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں جمہوری نظام حکومت میں عوا م کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایا تکمیل تک پہنچتا ہے مگر جب جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی اور اراکین مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔اگر دیکھا جائے تو یہ نظام حکومت سب سے پہلے خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ ابن الخطاب نے متعارف کروایا تھا کیونکہ جب سلطنت اسلامیہ کی حدود نصف دنیا کے قریب پہنچ چکیں تھیں تو خلافت اور عدل و انصاف قائم کرنے کا تقاضا یہی تھا کہ ہر عام آدمی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حکومت کی طاقت نچلے درجے تک پہنچائی جائے تاکہ کوئی بھی ریاستی سہولیات سے محروم نہ رہے اور اسلامی تعلیمات بھی اچھے طریقے سے پہنچائیں جا سکیں جس سے ہر آنے والی نسل مستفید ہو۔لیکن خلافت اور جمہوریت میں ایک بات یکساں نہیں ہے جس سے جمہوریت خلافت سے الگ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ پوری ریاست میں آزادی رائے اور حق رائے دیہی ہر شخص استعمال کر سکتا ہے چاہے وہ جس طبقے سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو۔لیکن جب جمہوریت میں بھی آمریت پنپنے لگے اور لوگوں کاحق غصب کر لیا جائے تو جمہوریت کا حسن نہیں رہتا بلکہ جمہوریت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے ۔ عوام کے اپنے منتخب کردہ نمائندے ان کے مسائل اور بنیادی حقوق کیلئے آواز ریاست تک نہیں پہنچاتے اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہیں تو عوام خود سڑکوں پر نکلتی ہے اوریہ جمہوریت کا ہی ایک چہرہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کے حصول کیلئے احتجاج کریں جن کی وجہ سے ریاست تک انکے مسائل کی آواز پہنچ سکے ۔چاہے صورتحال جو بھی عدل و انصاف کو قائم کرنا ،بنیادی حقوق کی فراہمی اور قانون کی بالا دستی ہر حال میں ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔سال 2013 کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن نے بھاری اکثریت سے مینڈیٹ حاصل کیا اور ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد عوامی ووٹ لے کر ریاست پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی اسکے بعد اپوزیشن جماعتوں میں سے بھاری اکثریت بنانے والی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تھیں لیکن الیکشن ہوتے ہی تحریک انصاف نے حکومتی جماعت ن لیگ پر دھاندلی کا الزام لگا کر ملک گیر احتجاج اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا ۔اس سے بھی پہلے انہوں نے پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے مؤقف کو بیان کیا لیکن الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ نے صاف انکار کر دیا کہ وہ کسی طور اس معاملے میں کوئی مدد نہیں کر سکتےٍ جس کے رد عمل میں عوام کو انصاف کے حصول کیلئے سڑکوں پر آنا پڑا ۔جب عدالت عالیہ نے مطلوبہ چار حلقوں کے ووٹ باکس کو دوبارہ کھولا تو واضح طور پر ان میں دھاندلی کے ثبو ت ملے اور یہ ثابت ہو گیا کہ ان مینڈیٹ چوروں نے عوامی جذبات اور مینڈیٹ کا مذاق اڑایا لیکن جب فیصلہ ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور عوام سمیت کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی کہ ان ا لیکشنوں کا کیا ہونا چاہئے کیونکہ حکومتی نمائندوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا چکا تھا کہ ملک میں بہت بڑا منصوبہ بننے جارہا تھا جس کیلئے دوسرے ممالک سے وزراء نے معاہدہ کرنے کیلئے پاکستان آنا تھا لیکن ان دھرنوں کی وجہ سے نہیں آ سکے یوں تو احتجاج ہی ایک مثبت جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں اور یہ ہی جمہوریت ہے کہ عام عادمی ریاست سے اپناحق اور انصاف مانگ سکے یوں تو یورپ اور مغرب ممالک سمیت ہمسایہ ملک میں بھی آئے روز ہڑتالیں اور احتجاج ہوتے رہتے ہیں انکی ریاست نے تو کبھی نہیں کہا کہ احتجاجوں کی وجہ سے فلاں ترقی میں رکاوٹ �آ گئی ؟ویسے بھی دیکھا جائے تو احتجاجوں سے کبھی بھی کسی ملک میں کوئی ترقی نہیں رک سکتی یہ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سوا کچھ نہیں ۔ملک میں پاناما لیکس کے سکینڈل کو اس وقت چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس سکینڈل میں ٹیکس چوروں اور آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں بیشتر ممالک کے بڑے بڑے سیاستدان ،کاروباری حضرات اور اداکار بھی شامل ہیں انہیں افراد میں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی فیملی ممبران کے نام بھی شامل ہیں ۔اس کرپشن کے میگا سکینڈل اور ٹیکس چوری کے بارے میں جب عوامی حلقوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جواب مانگا اور احتساب کیلئے آواز اٹھائی تو بجائے اس کے کہ احتساب کیلئے خو د کو پیش کیا جاتا اخلاقی جرأت کا فقدان نظر آیا اور عوام کو کچھ اور ہی باتیں سنا کر یہ کہ دیا گیا کہ ہم کسی کے پابند نہیں جو جواب دیتے پھریں بلکہ کمیشن بنانے کی بات کر دی گئی ۔عوام بڑی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ جن سکینڈلز پر آج تک کمیشنز بنائیں گئیں وہ مٹی پاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اس سکینڈل کو بھی اسی طرح ختم کرنے کا سوچا گیا تھا ۔لیکن عوام خاموش نہیں بیٹھی جب پارلیمنٹ نے پاناما لیکس میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے ساتھ تمام قوانین سے مستثنیٰ قرار دے دیا تو عوام نے سڑکوں پر نکل کر اپنا حق مانگنا شروع کیا ۔جس پر ان نام نہاد جمہوریوں نے یہ بیان بازی شروع کر دی اور عوام کے جذبات سے کھیلنا شروع کر دیا کہ ان احتجاجوں سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہے یہاں سمجھ اس بات کی نہیں آتی کہ احتجاج اور مطالبات کرپشن کے خلاف اور احتساب کیلئے کئے جا رہے ہیں تو اس میں جمہوریت کیوں ڈی ریل ہو گی؟ یا ان لوگوں کے نزدیک جمہوریت کا دوسرا نام کرپشن ہے ؟کہ کہیں اگر کرپشن پکڑی گئی تو جمہوریت چلی جائے گی ؟؟صرف کوئی ایک حکومت جمہوریت نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ لوگ جمہوریت کی تعریف واقعی جانتے ہیں تو جو بھی حکومت عوامی نمائندوں کی بنے گی چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو یا چاہے کوئی آمر اس طرح سے حکومت کرے کہ ریاستی طاقت نچلے طبقے تک یکساں پہنچائی جائے اور ہر شخص کو آزادی رائے کا مکمل حق ہو تو وہ بھی جمہوری حکومت ہی کہلائے گی ۔ہمیں جمہوریت کا مطلب سمجھ کر اپنے وطن کے دفاع کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ چاہے وہ حکومت کسی سیاسی جماعت کی ہو یا کسی آمر کی!کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشتگردی ہوتی ہے اس دہشتگردی کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو اس وقت بھارت اور طالبان مل کر پاکستان،کشمیر اور امت مسلمہ کے ساتھ کر رہے ہیں اور دوسری معاشی دہشتگردی کہلاتی ہے ۔پاکستان نے ضرب عضب اور دیگر تجاویز سے بیرونی دہشتگردی پر تو کافی حدتک قابو پا لیا ہے لیکن معاشی دہشتگردی اس وقت ملک بھر میں بے قابو ہے ۔اگرمعاشی دہشتگردی پر غور کیا جائے تو اسحاق ڈار ملک کو بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بیرونی قرضوں کے حصول کی خاطر ملک کے بڑے بڑے اثاثے کوڑیوں کے بھاؤ آگ میں جھونک دئیے ہیں کبھی پی آئی اے تو کبھی ریڈیو پاکستان ،کبھی کراچی ایم اے جناح روڈاور اب سکوک بانڈ ز کو گروی رکھنے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے پچھلے تین برسوں میں موجودہ حکومت نے جتنے قرضے لئے ہیں اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی اور پاکستانی تاریخ میں سنہرے حروف میں رقم کی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک رہے یا نہ رہے آف شورکمپنیاں بننی چاہئیں، قرضے ملنے چاہئیں ،لیکن جمہوریت (جسکا نام انہوں نے کرپشن رکھا ہوا ہے)ڈی ریل نہیں ہونی چاہئے۔عوام کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ ایک نہ ایک دن یہ جمہوریت کے نام لیوا پورے ملک کو گروی رکھ کر یہاں سے بھاگ جائیں گے کیونکہ ان کی جائیدادیں اور بچے سبھی دوسرے ممالک میں ہیں یہاں پر یہ سرمایا اکٹھا کرنے کی غرض سے براجمان ہیں جب یہ لوگ ملک کو گروی رکھ کے باہر چلے جائیں گے تو ان کے زندہ باد کے نعرے لگانے والے اپنے بچوں کو بھوک سے مرتا ہوا دیکھیں گے ابھی بھی وقت ہے کہ عوام سوچے اور اپنے لئے اپنے ہی جیسے شخص کو منتخب کریں تاکہ وہ اس ملک اور عوام کے مسائل کو سمجھ سکے ۔محب وطن ہونے کا دعویٰ کرنے والے یہ نام نہاد جمہوری لوگ ملکی اثاثے تو بڑے شوق سے گروی رکھ کر قرضے لے رہے ہیں اگر انہیں اپنی پلاننگ پر اتنا ہی بھرسہ ہے کہ یہاں قرضوں سے ملک میں معاشی ترقی لا سکتے ہیں تو یہ رائیونڈ محل اپنی فیکٹریاں گروی کیوں نہیں رکھتے ؟۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Weboy