بیس سو سترہ میں پاکستان اور عالمی دنیا کا منظرنامہ

Published on December 14, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 653)      No Comments

شاہد جنجوعہ لندن

گزشتہ روز چکوال میں ہونے والے افسوسناک واقعے کی ہرکسی نے کھلکر مزمت کی ہے اور بلاشبہ ایسا ہونا چاہئے تھا کہ مسلمانوں اور تمام اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کی زمہ داری سے ریاست پاکستان کسی صورت پہلوتہی نہیں کرسکتی ____ کسی اقلیتی فرقے یا جماعت سے اختلاف یا انکی ریشہ دوانیوں کے ردِعمل میں ان سے بدسلوکی یا جلاؤگھراؤ کرنا کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا؛ سچ سامنے لانے کیلئے دلائل کی قوت سے اپنا مؤقف پیش کرکے عامۃالناس کو فیصلہ کرنے کاحق دیا جانا چاہئے____ چکوال میں جو کچھ ہوا ایسا لگتا ہے اس کے پیچھے بیرونی طاقتوں اور بالخصوص راء کی منظم منصوبہ بندی تھی جس نے مزھبی جنونیت کے عنصر کو ایک خاص موقعے پر مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیا__ مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اتنے کمزور کیوں ہیں کہ جسکا دل کرتا ہے وہ جب چاہتا ہے نقب لگاکر بآسانی فرار ہو جاتا ہے____ یہ خونی کھیل پاکستان میں ایک عرصے سے جاری ہے جسکے سدباب کیلئے مربوط کوششوں کا فقدان سب پر عیاں ہے ____ مگر اس سال کے اختتام پر میں مقتدرحلقوں کی توجہ ایک خاص پس منظر کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں جسے پاکستانی میڈیا مسلسل براہ راست معلومات نہ ہونے یا کسی ڈر و خوف کی وجہ سے مکمل نظرانداز کررہا ہے – لایعنی بحث مباحثے کے نتیجے میں ایسے افسوسناک واقعات کے اصل محرکات اور اس سے سبق حاصل کر کے یکسوئی کیساتھ قوم کو تیار کرکے جو منصوبہ بندی ہونی چاہیے اس سے صرف نظر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں
حالات وواقعات پر گہری نظر رکھنے والے ِِِِِِذی شعور طبقے کو احساس ہے کہ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں بیٹھ کر کئ ترقی پزیر ممالک کے مستقبل اور حکمرانوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں افغانستان کا جہاد ہو، صدام حسین کی پھانسی ہو قزافی کی موت ہو بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایاجانا ہو یا پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے راز افشاں کرنے والے جناب ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر پاکستان میں کچھ دن پہلے ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں شعبہ تحقیق قائم کئے جانے کا فیصلہ؛ ان واقعات کے سیکونس کو سمجھے بغیر اور انہیں نظر انداز کرکے آپ پاکستان میں استحکام لاسکتے ہیں اور نہ ہی ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی بقاء پچھلے دس سالوں میں داؤ پر لگی رہی _____ گزشتہ دنوں ایک ریفرنڈم میں یورپ سے نکلنے کے فیصلے کو ھائی کورٹ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری سے مشروط کردینے کے بعد گزشتہ دنوں برطانیہ میں یوکشائیر اور‫ھمبرسائیڈ رولنگ پارٹی المعروف ٹوری پارٹی برطانیہ کی ایک عوامی کمپین میں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے حق میں براہ راست حکومتی ترجیحات اور منصوبہ بندی سننے اور اعلیٰ سطحی وفد سے ڈسکس کرنے کا موقع ملا جس میں میرے لئے کوئی اچنبے والی بات نہ تھی مگر اس میٹنگ میں ممبران پارلیمنٹ کی پریزنٹیشن دیکھنے کے بعد انسے برِاہ راست سوال و جواب اور انٹرویو میں جو چیزیں سامنے آئیں وہ میڈیا کے زریعے عوام تک آنا بہت ضروری ہے کہ پس پردہ کونسی وجوہات اور عوامل ہیں کہ برطانیہ یورپین یونین میں رہنے کی قیمت پر انڈین کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے____ اگر ریاست پاکستان کے زمہ داران چوکس ہوں تو انہیں سال 2017 کے آغاز پر ہنگامی فیصلے کرکے پاکستان کو جلد ازجلد بے یقینی کی صورتحال سے نکال کر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ محض ایٹمی طاقت اور میزائل ٹیکنالوجی کے زعم میں پاکستان کو ناقابلِ تسخیر قوت سمجھتے ہوئے جو سیاسی کھیل تماشا ہم نے جاری رکھا ہوا ہے اسکے بیانک نتائج بگھتنا پڑینگے ____ برطانیہ اور یورپین یونین کے پاس دو آپشنز ہیں ایک ترقی پزیر ممالک کی کروڈ فنڈنگز یا ایتھی کل چوائسس کیلئے لابنگ کرنا ‫___ جبکہ مستند معلومات کے مطابق پاکستان کی پارلیمینٹ یا کسی تھنک ٹینکس میں اس حوالے سے کوئی پلاننگ زیر بحث ہی نہیں جبکہ انڈیا نے بڑی خاموشی سے اپنی ٹیمیں یورپ اور برطانیہ میں بھیجی ہوئی ہیں ___
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یورپین یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد مقتدر قوتیں دنیا میں اگلے پندرہ سالوں کیلئے اکانومی اور فیصلہ کن سیاسی طاقت کیلئے امریکہ کے ساتھ یورپین یونین اور چائنہ کے مقابلے میں انڈیا کو آگے لانے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہیں اور برطانیہ میں نئ حکومت انڈیا کیساتھ اپنی اکانومی وابستہ کرنے کے منصوبے پر بہت تیزی سے کام کررہی ہے دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ بڑی خاموشی سے پاکستان کو عالمی منظر نامے میں فیصلہ کن پلیٹ فارم پر تنہاء کردیا جائے گا اور اسکی وجوھات دہشتگردی کے عفریت کے علاوہ
“Sustainable goal for development agreed by the international community”
سے پاکستان کا کمپلائنس نہ کرنا بھی شامل ہے جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو معاشی طور پر پاکستان اتنا کمزور ہوجائے گا کہ وہ ایٹمی طاقت ہوکر بھی اگلی کئی دہائیاں عالمی استعماری طاقتوں کے دست نگر رہے گا ____ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کےتھنک ٹینکس کے پاس عوام کو ان حالات کیلئے تیار کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ ہے؟ ان چیلنجز سے نبٹنے کیلئے پوری قوم کو یکسو اور یکسمت چلنا ہوگا ورنہ ایک اندازے کے مطابق یہ آئے روز کی کھینچاتانی الزامات در الزمات کا نہ رکنے والا سلسلہ، ایک ایک کرکے تمام ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کی فضا، سب کو چور کرپٹ اور ملک دشمن طاقتوں کا ایجنٹ ڈکلیئر کرنا یہ غیر سنجیدگی کی انتہاء ہے اور اس کھیل تماشا سے ملک کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ایسا کرنے والے پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینے کے ایک منصوبے کا باقاعدہ حصہ لگتے ہیں ___ ہماری ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم کیس ٹو کیس فیصلہ نہیں کرتے، جس شخص کو چاہتے ہیں سرپر بٹھادیتے ہیں اور رد کرنے پر آئیں تو اسے ملک دشمن قرار دینے سے کم درجے پر ہماری تسلی ہی نہیں ہوتی ______ ریٹنگ بڑھانے اور اشتہارات لینے کی دوڑ لگی ہے اور پانامہ لیکس کا حشر نشر کردیا گیا ہے رپورٹر جج کی کرسی سنبھال کر جو منہ میں آتا ہے کہے جارہے ہیں اخلاقک حقدار مرچکی ہیں میڈیا کو ملکی مسائل سے کہیں زیادہ سنسنی پھیلاکر عوام کی توجہ انکی طرف مبزول کئے رکھنے سے کام ہے #پانامہ لیکس منی لانڈرنگ ہے اور اسکی تہہ تک پہنچنے کیلئے ایک سادہ سا فارمولہ ہے کہ جس کسی نے بھی فنڈز غیر قانونی طریقے سےپاکستان سے باہر منتقل کئے ہیں یا بیرون ممالک سے پاکستان منتقل کئے ہوں انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے ___ اگر پاکستان میں منی لانڈرنگ کی مسلمہ بین الاقوامی تعریف پر فیصلہ ہو تو اقتدار پر بیٹھے موجودہ اور سابق کئ معزز ہستیاں ننگی ہونگی جیل جائیں گی اور انکے ساتھ دھرنا دینے والے شیخ صاحب کا منہ بھی کالا ہوگا کیونکہ بیرونی دنیا سے اربوں کے فنڈز پاکستان کیسے منتقل ہوئے یا اتنی قطیر رقم کہاں گئی اس پر بڑے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے عین ممکن ہے وہ ٹریل بھی سامنے آجائے جو اس کالے دھن کیلئے استعمال ہوتی ہے
لیکن اس سے بھی اہم واقعہ پچھلے ماہ آزادکشمیر کے نو منتخب عزت مآب صدر سردار مسعود خان کا پہلا دورہ برطانیہ ہے – سردار مسعود خان کی قابلیت صلاحیت اور بین الاقوامی ڈپلومیسی میں مہارت کا ہرذی شعور گواہ ہے ____ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ پہلی مرتبہ برطانیہ تشریف لائے اور کشمیر کے حوالے سے بریڈفورڈ قونصلیٹ میں بڑا پر مغز لیکچر دیا جس میں انہوں نے عالمی انسانی حقوق کی تنظمیوں اقوام متحدہ اور دنیا میں امن کا واویلا کرنے والوں کے دھرے معیار کے بخرے کردئے مگر ستم بالائے ستم یہ کہ انکی تقریر کو پاکستان کے پہلے #سوشل میڈیا ٹی وی چینل چینل #لاہور ٹی وی نے تو بھرپور رپورٹ کیا ، مگر اسکے علاوہ پاکستان کے باقی کمرشل چینلز نے کئی دن کے بعد اس پروگرام کی صرف علامتی کووریج دی اور انگلش میڈیا صدر آزادکشمیر کو کووریج دینے آیا ہی نہیں جبکہ ریاست پاکستان کی ملکیت پی ٹی وی کا بھی کوئی ایک بھی نمائندہ صدر آزادکشمیر کی انتہائی مدلل اور مفصل گفتگو کو رپورٹ کرنے کیلئے نہیں آیا اس سے بھی بڑا ستم یہ کہ عین اس وقت برطانیہ میں سرکاری دورے پر آئے ن لیگی ایم این اے میجر طاہر اقبال جو خاص طور پر کشمیر کاز کیلئے لابی کرنے برطانیہ ائے حکومتی وفد کی سربراہی کررہے تھے انہوں نے بھی اسکا نوٹس نہیں لیا ___ ایسا ہونا کوئی معمولی بات نہیں زمہ داران کی جواب طلبی ہونی چاہئے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کے مترادف سب تماشائی ہیں
افسوس ہم نے بڑا سنہری موقع گنوا دیا مسئلہ کشمیر جسکے لئے ہم نے نصف صدی جنگ لڑی آج پہلا موقع تھا جموں کے لوگ اس میں اپنے بل بوتے پر شامل ہوئے اور برہان الدین وانی سمیت ھزاروں لوگوں نے قربانی کی ایک مثال قائم کردی
صدر آزادکشمیر کے دورہ برطانیہ کے دوران برطانیہ میں پاکستان و کشمیری نژاد پارلیمانی ممبران کی بھی سخت نالائقی اور ناکامی تھی کہ وہ وزیراعظم برطانیہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے سے صدرآزادکشمیرکی ملاقات نہیں کرواسکے – آپس کی کھینچا تانی اور برادری عزم کی وجہ سے ہرایک نے اپنی دکانداری چمکانے کی کوشش کی نتیجہ صفر نکلا اور اب سب دانت پیس رہے ہیں ‫ قابل غور بات یہ ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں وہاں بربریت اور ننگی جارحیت کی مزمت وزیراعظم ٹریسامے کے دورہ انڈیا کے دوران وزیراعظم مودی سے ملاقات میں انکے ایجنڈے پر نہ ہونا برطانیہ میں پاکستان اور کشمیر کاز کیلئے دعوے کرنے والے ایسے پارلیمنٹیرین کےمنہ پر زوردار طمانچہ تھا – لیکن سوال ہھروہی کہ یہ حماکتیں آخر ہم کب تک نظر انداز کرینگے؟
اسمیں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ایسے حالات پیدا کرنے کے زمہ دار ہماری قیادت تمام سیاستدان اور بیوروکریسی ہے ایسے واقعات سے پاکستان کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اسکا خیمازہ ہماری آئندہ نسلیں اگلی نصف صدی تک بھگتی گیں ___ پاکستان میں گوادر پورٹ آپریشنل ہو چکی مگر ہم نے پچھلے دس سالوں میں کوئی تیاری کی نہ ِاین وی کیو لیول پر کسی یونیورسٹی نے افراد تیار کرنے کیلئے کوئی کورس متعارف کروایا ____ ہم بے تکینکی ماہرین پیدا نہیں کئے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کا بڑا حصہ ان دوسرے ممالک کے ماہرین لےجائیں گے
اب نہیں تو کب یہ حکومت ، اپوزیشن اور باقی مقتدر حلقے ‫تمام اپنی نوجوان نسل کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے خام مال سمیت لوکل ٹیکنالوجی کی برآمدات یورپین منڈیوں اور افریقی ریاستوں تک پہنچانے کے کسی پلان اور مربوط منصوبہ بندی کا آغاز کرینگے میں پچھلے کئی دنوں سے تمام تر کوششوں کے باوجود اس بارے میں کوئی جان کاری حاصل نہیں کر پایا ‫___ حالانکہ اس بارے میں بنیادی معلومات تو ایک کلک پر دستیاب ہونی چاہئیں تھیں
ان حالات کا زمہ دار ہمارا میڈیا بھی ہے جو کسی واقعے کو بین الاقوامی تناظر میں نہیں دیکھتا اور اسکے پس پردہ عوامل تک عوام کی سوچ جانے کے راستے میں دیوار کھڑی کردیتا ہے
آج پاکستان کی حالت زار اور جنکے ہاتھوں میں زخموں سے چور چور قائداعظم کے اس پاکستان کی زمام اقتدار ہے اسے یوں بے یارومددگار لٹتا دیکھ کر رونا آتا ہے اور کف افسوس ملتے یہ اشعار گنگنانے لگتا ہوں کہ؛
عالم جنُون خیز ہے، دمساز بھی نہیں
اِک ہم نفس تو کیا ، کوئی آواز بھی نہیں
بپتا ہم اپنے من کی سُنائیں کِسے خلش
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں

Readers Comments (0)




Weboy

Premium WordPress Themes