اگر کسی نے غلط بیانی کی ہے تو ہم نے قانون کے مطابق طے کرنا ہے: سپریم کورٹ میںپاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی

Published on January 23, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 305)      No Comments

اسلام آباد (یواین پی ) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل ( منگل ) تک ملتوی کردی ۔Pnn
سماعت شروع ہونے پر جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت کے سواالات سے میڈیا پر تاثر ملا جیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہم سوالات صرف سمجھنے کیلئے پوچھتے ہیں ، سوالات فیصلہ نہیں ہوتے ۔بتایا جائے کیا وزیرا عظم کی تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھی ؟جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ وزیر اعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی ۔ استحقاق آئین اور قانون کے مطابق ہی دیا جا سکتا ہے ۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ منگل کو اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے کی کارروائی ہوتی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کیا سپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ رولز معطل کر کے کوئی اور کارروائی کرے ؟ کیا سپیکر نے وزیر اعظم کی تقریر کی اجازت نہیں دی تھی جس پر توفیق آصف نے جوا ب دیا اگر وزیراعظم نے ذاتی وضاحت دینی تھی تو ایجنڈے میں شامل ہو نا ضروری تھا ۔ بینچ کے رکن جسٹس گلزارا حمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا ؟میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5رکنی بینچ نے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل سننے کے بعد پاناما کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9بجے تک ملتوی کر دی ۔ کل وہ اپنے دلائل کا تسلسل تیسرے روز بھی جاری رکھیں گے۔دوران سماعت کمرہ عدالت میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ، نعیم بخاری ، فواد چودھری ، نعیم الحق اور لیگی رہنما بھی موجود ہیں ۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے موقف اپنا یا کہ اپوزیشن نے تقریر کے بعد واک آﺅٹ کیا ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے ”توفیق آصف آپ آرٹیکل 69پڑھیں اوراس پر دلائل دیں ۔ اس معاملے کو آرٹیکل 69مکمل کر رہا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69کے زمرے میں نہیں آتی ، وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر قواعد کی خلاف ورزی ہوئی تو کیا آپ کے اراکین نے آواز اٹھائی تھی ؟ آپ کہنا چا ہ رہے ہیں کہ سپیکر کو وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت دینا چاہئیے تھی۔جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا وزیر اعظم کی تقریر اسمبلی ریکارڈ کا حصہ ہے جو انہوں نے پیر کے روز کی ۔توفیق آصف نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کر دیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی؟ کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے اس دن تقریر نہیں ہو سکتی ۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ سپیکر منگل کے روز قواعد معطل کر سکتا ہے ۔تقریر اسمبلی کی کارروائی کا حصہ ضرور ہے مگر اسکو استحقاق حاصل نہیں ، وزیر اعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ جسٹس گلزارا حمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کی گئی یا اس پر کسی نے اعتراض کیا ۔جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیر اعظم کی تقریر کا ریکارڈ سپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کر دی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے ؟بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ تقریر کے متن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیو ں منگوایا جائے ؟ ایڈوکیٹ توفیق آصف نے کہا کہ ممکن ہے ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہوجس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کی تقریر اردوزبان میں تھی ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا ہم یہاں شواید ریکارڈ کررہے ہیں ؟ توفیق آصف نے استدعا دہراتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کر سکتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی جمع کرائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں ۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے سپیکر کو جو دستاویزات دیں وہ منگوائی جائیں ، وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ دودھ کا دودت اورپانی کا پانی کیا جائے ۔ بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید کھوسہ نے کہا آپ ایک نقطہ پیش کر رہے ہیں ، دوسرا واپس لے رہے ہیں جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ وزیر اعظم نے منی ٹریل اب تک نہیں دی ۔
عدالت اجازت دے تو وزیر اعظم کی تقریر ے کچھ حصے پڑھنا چاہتا ہوں جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ جس طرح دل کرے دلائل دیں ہم سن رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے تولنے کی بجائے تلنے کا لفظ پڑھ دیاجس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ توفیق صاحب دل کی بات زبان پر آگئی ۔ایڈوکیٹ توفیق آصف نے جواب دیا کہ پارلیمانی استثنیٰ صرف قانون سازی کے عمل کو حاصل ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ خود اپنی پٹیشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم پہلے کہتے تھے کہ ہر چیز کلیئر کرنا چاہتا ہوں ۔عدالت آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا ۔ وزیرا عظم نے اپنا کیس وکیل سمیت بچوں سے الگ کر دیا ۔ دستاویزات پیش کرنے کی بجائے استحقاق کے پیچھے چھپ رہے ہیں ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا آپ عدالت کو بتا دیں کہ وزیراعظم نے کیا کیا چھپایا تو انہوںنے جواب دیا کہ وزیراعظم نے تقریر میں منی ٹریل پیش نہیں کی ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ فلیٹ نوازشریف کے نہیں ، اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے تو جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا وزیراعظم نے کروڑوں کے تحائف لیے اور دیے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم کے وکیل نے ثبوتوں کا ذکر ہی نہیں کیا، قانونی نکات کا انبار لگایا ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے اپنے ریمارکس میں کہا لگتا ہےباتیں دہرا کر آپ سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں ، آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ چاہے جتنے دلائل دیں ،ہم خاموشی سے سنیں گے ۔ جس نے جو جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا ۔”جو ہونا تھا ہو گیا ، لوگ انتظار کریں “۔ عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں اور چہ مگوئیوں سے اجتناب کریں۔پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پاناما کا دفاع کر رہی ہے۔وقفے کے بعد اپنے دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ میں نوازشریف نے جھوٹ بولا ، پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے قبل سچ ثابت کرنا پڑتا ہے ، سچ ثابت کرنے کیلئے انکوائری کرنا ہوتی ہے ۔ اگر کسی نے غلط بیانی کی ہے تو ہم نے قانون کے مطابق طے کرنا ہے ۔جب حقیقت کا ہی پتہ نہیں چلا تو پھر جھوٹ کا تعین کیسے ہو گا ؟جماعت اسلامی کے وکیل نے رضوان گل جعلی ڈگری کیس کا حوالہ بھی دیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ وہ مقدمہ الیکشن ٹربیونل سے شروع ہوا تھا سپریم کورٹ سے نہیں ، تحقیقات کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ کیا ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم یہ قرار دے چکے ہیں کہ آرٹیکل 184/3کے تحت سن سکتے ہیں ۔شریف خاندان کہتا ہے کہ کاروبار میاں شریف کا تھا اس سے وزیر اعظم کا تعلق ثابت کریں۔2004ءمیں میاں محمد شریف کی وفات سے قبل تک وہی بزنس دیکھتے رہے تو تعلق کیسے بنتا ہے؟ دبئی مل کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ موجود ہے ، ”ریکارڈ سچا ہے یا جھوٹا کچھ تو ہے “۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کون سا ایسا ریکارڈ ہے جو نوازشریف نے جمع نہیں کرایا جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ دبئی مل طارق شفیع کے نام ہے اور دبئی فیکٹری کی کوئی بینک ٹرانزیکشن نہیں ہے جس پر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کھڑے ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم بیرون ملک ہیں ، آج واپس آئیں گے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ جتنا جلدی ہو جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب جمع کرائیں ۔جسٹس اعجا ز الاحسن نے کہا کہ نوازشریف کا موقف ہے کہ ان کا نام پاناما کیس پر کسی جگہ نہیں پھر آپ نوازشریف پر کیسے پاناما پیپرز کی ذمہ داری ڈال سکتے ہیں ؟ میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد انکے بچوں کو وراثت میں کیا ملا اسکی تفصیل بتائیں ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا اگر آپ کے خیال میں طارق شفیع کا بیان حلفی جعلی ہے تو پھر اصل کہاں ہے ؟ جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اصل بیان حلفی جمع کرانا میری ڈیوٹی نہیں ۔ بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تو بتائیں کہ سپریم کورٹ انکوائری کا کون سا طریقہ اپنائے ؟ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا ہمارے سواالات کا جواب دیں توفیق صاحب، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں اس وقت ایک ہی سوال کا جواب دے سکتا ہوں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پانچ رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے ہیں ، سوالات اسی طرح ہونگے۔انہوں نے مکالمہ کرتے ہوئے ایڈوکیٹ توفیق آصف سے کہا کہ آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیتے تو وکیل نے جواب دیا کہ ایک وقت میں ایک سوال ہو تو جواب دوں ۔عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا گیا ، نااہل کرنے سے پہلے گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلہ موجود تھا ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题