انسانی اعضاء اور گدھ

Published on February 20, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 383)      No Comments

تحریر۔۔۔ سراج احمد تنولی
مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے صف اول کے لکھاری ہیں ،انہوں نے اردو کو سفر نامےکی پاپولر صنف دی اور اگر ہم انہیں پاکستان میں سفر نامے کا بانی کہیں تو ظلط نہ ہوگا۔ میں نے مستنصر حسین تارڑ کی ایک تحریر پڑھی تھی جس میں انہوں نے گِدھوں کو گدھے کی پیٹھ میں سوراخ کرنے اور اس کی بوٹیاں نوچنے کا منظر پیش کیا تھا ۔ یقین کیجیے وہ منظر پڑھ کر میں تذبذب کا شکار ہو گیا اور میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ مستنصر صاحب نے لکھا تھا، ان کے سامنے ایک زخمی گدھا کھڑا تھا ، گدھے کی پیٹھ پر گِدھ بیٹھا تھا گدھ کی گردن گدھے کی پیٹھ کی سوراخ میں گم تھی ، پیٹھ پر صرف گدھ کے پر اور پاؤں رہ گئے تھے ، گدھا تکلیف سے چیخ رہا تھا مگر گدھ اس کو اندر سے نوچ نوچ کر کھا رہا تھا ۔ مستنصر صاحب کے دیکھتے دیکھتے ہی گدھ نے اپنی چونچ سوراخ سے باہر نکالی تو وہ گردن تک گدھے کی لہومیں لتھڑا ہوا تھا ۔یہ گدھے یا خچر آج بھی جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں ایک احاطہ کے اندر چھوڑ دیے جاتے ہیں جو ایک خوفناک روایت ہے ۔ جس احاطے میں یہ چھوڑ دیے جاتے ہیں وہ عموما گاؤں سے دورفاصلے پر ہوتاہے اور یہ گدھے اور خچروں کی آخری آرام گاہ سمجھا جاتا ہے ۔اس احاطے کی دیواروں پر چیلیں اور گدھ جمع ہوتے ہیں ، یہ گدھوں کا گیراؤ کرلیتے ہیں گدھے کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے ہیں ، گدھے کی پیٹھ میں سوراخ کر کے گدھے کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے ہیں ۔ ہم میں سے جن جن لوگوں کا تعلق ان گاؤں سے ہے انہوں نے اس منظر کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہوگا ۔ ایسا ہی کچھ حال ہم نے گزشتہ دنوں سہون شریف کے شہیدوں کے ساتھ ہوتا ہوا دیکھا ۔جب میں نے یہ خبر ٹیلی وژن پر سنی تو میرے رونگٹھے کھڑے ہوگئے کہ ہمارے بھائیوں کے لاشوں کے اعضاء ڈھیروں اور گٹروں میں پھینک دیے گئے۔دفنانے کے بجائے انتظامیہ نے وہ اعضاء نالوں میں پھینک دیے جہاں سے وہ اعضاء کتوں اور گِدھوں کے ہاتھ لگ گئے ۔ کیا انہیں زمین میں دفنانے کا حق بھی نہیں تھا ؟؟؟ کیا ہمارے اندر سے انسانیت ختم ہوگئی تھی کہ ہم نے اپنے بھائیوں کے اعضاء جانوروں کو کھانے دیے ۔ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ دھماکوں میں ہمارے اپنوں نے جانیں گنوا دیں۔ ہمیں اس کے متعلق اب انسانیت سیکھنی ہوگی ، ہمیں سوچنا ہو گا ۔۔۔۔۔
جب ہم پاکستان کے نظام کا جائزہ لیں تو ہمیں بھی اپنے ملک کے کئی شعبے اس زخمی گدھے کی طرح دکھائی دیں گے اور اس نظام ، اس سسٹم کو چلانے والے لوگ ایسے گدھ ہیں جن کی چونچیں گردن تک اس سسٹم کے خون میں لتھڑی ہیں ۔اس میں میں بھی شامل ہوں اور آپ بھی ۔۔۔ہم سب اس ملک کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ اس ملک کا سسٹم ٹھیک نہیں ، اس میں انصاف نہیں ، اس میں میرٹ نہیں ، اس میں قانون اور آئین کا احترام نہیں ، اس کی سیاست اچھی نہیں ۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم نے اس ملک کے لیے کیا ہے یا اس ملک کا نظام ٹھیک کرنے کے لیے ، اسے صاف کرنے کے لیے ، فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے ، دہشتگردی کو ختم کرنے کے لیے ، ہم نے اس ملک کو کیا دیا ہے ؟؟سوال یہ نہیں بنتا کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا بلکہ سوال یہ بنتا ہے کہ ہم نے اسے کیا دیا؟؟اب دیکھا جائے اس سسٹم میں تو چوکیدار چور بن جاتاہے ، امام مسجد ، مسجد کی اینٹیں ہی بیچ ڈالتاہے ، پولیس ڈاکو بن جاتی ہے ، جج بے انصافی کرتا ہے ، فوج اپنے ہی شہریوں کو فتح کرلیتی ہے ، قانون ساز قانون توڑ دیتے ہیں ، ریوڑ کا محافظ خود ہی بھیڑ بکریاں ذبح کرنے لگتاہے اور عوام ملک کو لوٹتے اور برباد ہوتا ہوا دیکھتی ہے تو مسئلہ اس وقت پیدا ہوتاہے اور ہمارے ملک میں یہی سب ہورہاہے ۔ حکمران ملک کو لوٹتے جا رہے ہیں اور اس ملک کے مالک عوام منہ دیکھ رہی ہے ۔ چنانچہ اندر کا زخم گہرا ہوتا چلا جا رہاہے ۔ اور گدھ نوچتے جا رہے ہیں ہمیں گدھے بننے کے بجائے گدھ کو روکنا ہوگا اور ملک و قوم کے لیے کام کرنا ہوگا ۔ ورنہ ہم سب گدھ ہیں اور ہمارے ہی جسم کے اعضاء سیہون شریف کے شہیدوں کے اعضاء کی طرح جانور کھاتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题