سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل حقائق کو عوام کے سامنے لانے کی ضرورت

Published on December 16, 2013 by    ·(TOTAL VIEWS 484)      No Comments

\"oooo
برِ صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی جہدِ مسلسل اور لاکھوں قُربانیوں کی بدولت جب14اگست1947ء پاکستان قائم ہوا تو اس کے دو حصے تھے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔دونوں حصوں میں زمینی رابطہ نہ تھا اور فاصلہ تقریباََ1600کلومیٹر۔آمدورَفت کیلئے فضائی سفر کیا جاتا تھا ۔اِس طرح دونوں حصوں کے عوام کا براہِ راست رابطہ نہ تھا۔ اور دونوں خطوں کے عوام کو آپس میں مِل بیٹھنے کا موقع بھی کم ہی ملا۔ ازلی دشمن بھارت نے بے جادخل اَندازی کے ذریعے مشرقی پاکستان کے عوام کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکایا ۔کبھی اُردو اور بنگالی زبان کے تنازع نے جنم لیا تو کبھی چھ نکات پیش کیے گئے۔اورمشرقی پاکستان کے عوام کو علیحدگی کی طرف قدم بڑھانے پر اُکسایا گیا ۔اور کچھ اپنوں کی غیر منصفانہ پالیسیوں نے بھی علیحدگی کی راہ ہموار کی ۔
مکار دشمن بھارت نے نہ صرف خود دَخل اَندازی کی بلکہ وہاں کے عوام کو بھی مغربی پاکستان سے علیحدگی کیلئے تیار کیا۔مکتی باہنی کون تھے؟اُنہیں کس نے کس بنیاد پر پاکستان کے خلاف تیار کیا؟مکتی باہنی اصل میں مشرقی پاکستان کے وہ نوجوان تھے جن کو بھارت نے آزادی کیلئے اُٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کیا۔ وُہ دیہاتی علاقوں کے محنت کش کسانوں کے بیٹے تھے۔ محنت کش طبقے ،طلبا وطالبات متوسط طبقے اور نچلے طبقے کے اور بیٹوں کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے1971ء کو بھارت نے استعمال کیا دوسری طرف نعرے نے بھی جلتی آگ پر تیل کا کام کیا ۔اِدھر ہم اور اُدھر تم۔
ؔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا پہلا اعلان 25 مارچ 1971ء کی رات کو ہوا ۔جب ڈھاکہ کی گلیوں میں فوجی ٹینک ،توپیں اور مشین گن ہر سُو آگ اُگل رہی تھیں۔ ریڈیو سے اس رات کمپیئر ایم اے حنان نے مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کااعلان کیا جسے بہت کم لوگوں نے سنا۔میجر ضیاء نے27مارچ 1971ء کو چٹاگانگ ریڈیو سے مشہور آزادی کا اعلان کیا جسے عالمی خبر رساں اداروں نے بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا اعلان قرار دیا۔
اندرا گاندھی نے3دسمبر1971ء کی درمیانی شب آل انڈیا ریڈیو سے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ۔جس کے نتیجے میں صبح5بج کر40منٹ پر جنگ کا آغاز ہوا ۔بحری کوششوں کے علاوہ توپ خانے اور اسلحہ کی آمدرورفت روکنے کیلئے بھارت نے جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے ریلوے جنکشن کو تباہ کرنیکا منصوبہ تیار کیا۔ اس ناپاک ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بھارت نے راجستھان کے سرحدی علاقے میں واقع قصبے جسے رسال پور کے علاقہ میں توپ خانہ اور دو گریژن فوج کو تعینات کیا ۔آفریں ہے ان ماؤں کے شیر دِل پاک آرمی کے جوانوں پر جنہوں نے دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا۔7دسمبر1971ء کو پاک فضائیہ کے شیر دل نوجوانوں نے فضائی حملے شروع کیے۔
جنہیں بھارتی فضائیہ ناکام بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔جنگی حالات میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا ۔بالاآخر وہ16دسمبر کا سیاہ دن بھی طلوع ہوا جس دن مشرق پاکستان دنیا کے نقشے پر علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں اُبھرا ۔یوں مغربی پاکستان کا دایاں مضبو ط بازو کٹ گیا ۔باقی ماندہ پاکستانی قوم16دسمبر کو یومِ سیاہ اور ملک کے دولخت ہونے کا سوگ مناتی ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کیا تھے؟اس کے محرکات اور علیحدگی کے مقاصد کیا تھے؟کیا دونوں حصوں کے عوام کے مطالبات اور مسائل علیحدگی کے بنا حل نہیں ہوسکتے تھے؟کیا دونوں حصوں کی تقسیم وقت کی اشد ضرورت تھی؟پسِپردہ کس کے ہاتھ طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے؟کیا مل بیٹھنے سے کوئی حل نہیں نکلا جا سکتا تھا؟کیا علیحد گی ہی تمام مسائل کا واحد حل باقی رہ گئی تھی؟
باقی ماندہ پاکستانی عوام ان معاملات اور حقائق سے آج بھی بے خبر ہے۔ ہمارے سیاستدان کو تو اس اہم ترین مسئلے کے بارے میں رسمی اجتماعات کرنے کی بھی فرصت نہیں اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک کا بہت بڑا حصہ کھو کربھی ہمارے سیاستدانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔سقوطِ ڈھاکہ کے بارے ہر پہلو کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے ۔مگر آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کے اَصل اور پوشیدہ اَسباب کیا تھے؟اور حقیقی ذمہ دار کون تھا؟فوج سیاستدانوں اور حکمرانوں کو۔ اور حکمران وسیاستدان فوج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس درد ناک پر آشوب سانحہ کے بعد تو جمہوری حکومت تشکیل پائی تھی ۔مقامِ افسوس بات یہ ہے کہ اس حکومت نے بھی اصل حقائق تک پہنچنے کی ذَرہ بھر بھی کوشش نہ کی تھی ۔
اتنے بڑے قومی حادثے کے بعد بھی ہر کسی کو اپنا ہی مفاد عزیز تھا اور اصل اسباب سے چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی عوام کوسوں دور ہے ۔یوم سقوطِ ڈھاکہ کی یاد دِلانا ہی صرف کافی نہیں۔بلکہ اس کے اَصل حقائق اور اصل چہروں کو بھی بے نقاب کرنے کی اَشد ضرورت ہے ۔جبکہ موجودہ حالات میں بھارت ،امریکہ ،اسرائیل اور مغربی ممالک پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بُن رہے ہیں۔ ڈَرون حملے بلوچستان،خیبر پختونخوا،سانحہ راولپنڈی ،وزیرستان خود کش دھماکے کراچی اور مقبو ضہ کشمیر کے حالات اس کی واضح مثالیں ہیں۔بنگلہ دیش کے قیام سے قبل مغربی پاکستان سے محبت کرنے والے جو اس وقت متحدہ پاکستان کے شہری تھے۔آج 42سال کے بعد مُجرم ٹھہرے۔1971ء کی جنگ میں پاکستان کی یکجہتی اور سا لمیت کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کو بنگلہ دیشی وزیرِاعظم حسینہ واجد بھارت کی ایما ء پر انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔13دسمبر 2013ء کو 1971ء کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے اور پاکستان سے محبت کرنے کی بنا پر عبدالقادر ملا کو پھانسی دی گئی۔ آسان لفظوں میں اگر کہیں تو واضح ہوتا ہے کہ71ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کے لئے پاکستان سے محبت کی سزا،سزائے موت ٹھہری۔
؂ظُلم تو ظُلم ہے بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے خُون تو خُون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے
حکومتِ پاکستان کو ایسی پالیساں ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ دوبارہ مکار و ازلی دُشمن بھارت کو گھٹیا سوچ کے ساتھ بری نظر اٹھانے کی جرات نہ ہو۔بھارت کے ساتھ امن کی آشا آلو ٹماٹر کی تجارت کی کامیابی کا خواب پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔سانحہ مشرقی پاکستان اس کی واضح مثالیں ہیں۔دِلی دُعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے پاکستان کو مخلص،دُور اندیش اور دیانتدار قیادت نصیب فرمائے۔ضو وطنِ عزیز کو لُوٹنے اور کنگال کرنے کی بجائے پاکستان کو عزت کا مقام اور خوشحالی فراہم کرنے کا باعث بنے۔آمین

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme