تبدیلی کیلئے ہر فرد کو بدلنا ہوگا

Published on September 25, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 378)      No Comments

تحریر۔۔۔ حافظ شاہدپرویز
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ افراد کا کردار انتہائی اہم رہا لیکن جس معاشرتی نظام میں نفسا نفسی ذاتیات اور ہوس کے بغیر کچھ نہ ہو اس نظام کو ہمیشہ کمزور معاشرتی نظام کے طور پر ہی دیکھا جاسکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اقوام اور ریاستیں بھی ایک دراڑ سے دوسری دراڑ اور بھی دراڑوں سے بھری ایک دیوار کی مانند ایسے محسوس ہوتی ہے کہ جیسے اس کو کسی نشانے باز کے ہجوم نے اپنے نشانے منتخب کرنے کیلئے گولیوں کی برسات بسا دی ہو اور دیوار کے ذرے ذرے پر سوارخ نظرآئیں بے شیک کمزور معاشرتی سسٹم کے ساتھ ساتھ ہمارا نظام بھی دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور گولیوں سے چھلنی دیوار کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی بڑی وجہ ہمارے اندر کے انسان کو درست سمت میں نہ چلنے کے ساتھ ساتھ صرف ذاتیات کی بنیاد پر اوقات کا گزر بسر کرنا ہمارا شیوہ بن چکا۔ جب بھی اقوام آپس میں انا پرستی بدیانتی اور دونمبری کی بنیاد پر اپنے معاملات کو آگے لے کر جانے کیلئے کوشاں ہونگے تو وہیں معاشرے تباہی کی جانب جاتے جاتے خود کو کشکول پکڑنے پر مجبور ہونگے کیا ہم نے بطور پاکستانی کبھی سوچا کہ ہم دنیا کے سب سے عظیم مذہب اسلام سے وابستگی اختیار کئے جانے کے باوجود بھی دنیا کے معاشروں میں ایک کمزور قوم کے طور پر کیوں دیکھے جارہے ہیں ہمیں دوسرے ممالک میں جا کر غلامی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہم نے ترقی کو چھوڑ کر ستر سال میں دن بدن پسپائی کا رستہ کیوں اختیار کیا۔ اس ضمن میں اگر ہم اپنے ہی مذہب اسلام کا مطالعہ کریں احادیث اور دنیا کی نور ہدایت کتاب قرآن پاک کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کریں تو اس کی بنیادی وجہ مذہب سے دوری کے ساتھ ساتھ خوداری کے دامن کو چھوڑتے ہوئے بدیانتی کے رستے کو اپنانا ضرور نظر آئیگا۔ کیا وجہ بنی کہ معاشرے میں عدل کا نظام ختم ہونے کے درپے انسانی ہمدری کے رویے صفر ہو چکے والدین کے بڑھاپے کے معاملات کو دیکھنے کیلئے گھر کے دس سے زائد افراد تیار نہیں ہر کوئی گھنٹی کون باندھنے کی روش کو اپنائے ہوئے اور اپنی ذاتی اور صرف ذاتی ہوس اور معاملات کو لے کر چلنے کیلئے ہر وقت تیار اور کمر بستہ ہو میاں بیوی کے معاملات پیار کی بجائے دشمنیوں کی روش اختیار کریں ماں اپنے بچے کو روشنی اور ہدایت کا درس دینے کی بجائے انڈین فلموں گانوں اور مذہبی کلچر سے روشناس کروانے کے درپے ہو علماء کرام دین کے بول بالے لوگوں کو اسلام کے غلاف میں لپیٹنے کی بجائے فرقہ واریت مذہبی انتہاء پسندی اور ذاتی لالچ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا رستہ اختیار کیے ہوئے ہوں بچے بڑھاپے میں والدین سے نظریں چرا لیں تو ایسے معاشروں کی ترقی کا ممکن ہونا کیسے ہوگا۔ معاشرے کو تبدیل اس کلمے کی طرف دیکھتے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت کو نہیں بدلا
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کو بدلنے کا

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress主题