آدم خور

Published on September 27, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 705)      No Comments

از قلم : محمد ندیم عباس میواتی پتوکی
ہرے والا گاؤں شہر سے دور دراز لہلہاتی سر سبز فصلوں کے دامن میں واقع تھا ۔جس کے دائیں طرف تو خوبصورت پہاڑی سلسلہ تھا. جس کے دامن سے صاف شفاف ٹھنڈے پانی کا چشمہ بہہ رھا تھا. جس نے گاؤں کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے جبکہ بائیں طرف کھیتوں کے اختیتام پر تقریبا 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دیوھیکل درختوں کا خوفناک جنگل تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ بھوت اور آدم خور جنگلیوں کا مسکن ہے جو بھی بھولے بھٹکے جنگل گیا کبھی واپس نیں آیا….
یہ بات برسوں سے بڑے بزرگوں کی زبانی نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی تھی اور گاؤں کے بھولے بھالے سادہ لوح لوگ اپنے بڑوں کی باتوں کو حقیقت تسلیم کرتے تھے .ان کا جنگل میں جانا تو دور وه تو اس کی طرف دیکھنے سے بھی خوف کھاتے تھے ..
وہ تینوں دوست باتیں کرتے گھومتے جنگل کی طرف نکل آئے تھے..
اف …..یار …….کس زمانے کے لوگ ھو تم ..؟؟؟
اکیسویں صدی شروع ھوچکی ھے …یہ سب قصے کہانیاں ھیں ….جو صرف بچوں کو ڈرانے دھمکانے کی خاطر سنائی جاتی ھیں تاکہ وہ اس طرف نہ جائیں.
اعجاز نے جنگل کے بارے میں سنتے ھی جھنجھلاہٹ سے کہا..
جبکہ اسامہ اپنے بڑے بزرگوں کی بات کو حقیقت تسلیم کرتا تھا اور اپنے دوست اعجاز کو بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا
بس بس بہت ہوگیا ……..
میں جاؤں گا اس جنگل میں اور وآپس آکر سب کی غلط فہمیاں اور ان من گھڑت کہانیوں کو جھوٹا ثابت کر کے دکھاؤں گا..
وہ ہاتھ اٹھا کر اسے خاموشی کا اشارہ کرتے غصے سے چیخا….
ہاں تم دونوں ساتھ چلو تو حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے..
نہ بابا نہ…
کیوں خود کو اور ہمیں موت کے منہ میں دھکیلنا چاھتے ھو…نہ ہم جائیں گے اور نہ ہی تمیں جانے دیں گے ..چلو گھر چلتے ھیں
نہیں,…نہیں. میں اب ہر صورت جنگل جاؤں گا اور یہ میرا اٹل فیصلہ ہے … . بلال بھی تیار تھا
طوعاو کرھا اعجاز کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے وہ ان کے ساتھ جنگل جانے کے لیے راضی ھوگیا
اعجاز اور بلال اسامہ کے گہرے دوست تھے جو کہ شہر میں رہتے تھے .اس کے بے حد اصرار پر چٹھیوں میں گاؤں گھومنے آۓ تھے .اس لیے مجبورا وہ ان کے ساتھ جانے کو راضی ہوا تھا
شام کے ساۓ خاصے گہرے ھوتے ھی جنگل میں کھڑے قد آور درختوں کا سایہ دور دور تک پھیل گیا تھا . چرند پرند تھک ہار کر اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ رھے تھے .
وہ تینوں دوست جنگل میں داخل ہوچکے تھے . اسامه اور بلال پر جنگل کی خوفناکی کا اثر واضح دکھائی دے رہا تھا جبکہ اعجاز بنا خوف و خطرہ آگے بڑھتا جا رہا تھا ..
جنگل میں ایسی دل دہلاتی لرزا خیز خاموشی تھی جس میں ہلکی سی آواز کا سنا جانا مشکل نہ تھا. یہی خاموشی جنگل کو بھیانک اور خوفناک بنا رہی تھی .
وہ تینوں جوں جوں آگے بڑھ رھے تھے جنگل میں تاریکی چھاتی جارہی تھی ..موبائل ٹارچ کی مدھم روشنی کی ٹمٹماہٹ جنگل کے اندھیرے میں جگنو کی سی روشنی لگ رہی تھی .
اچانک ہوا کے تند جھونکے پر ایک درخت کی لمبی شاخیں جھکیں اور ایسے معلوم ھوا جیسے اس کی اونچی شاخ سے کوئی کودا ہو..
وہ ٹھٹک گے…
تبھی ان کے قدموں کے پاس ایک مرغولہ سا گرا جس سے نم دار مٹی کی ٹھنڈی ٹھنڈی کنکریاں بلال کے پیروں پر گریں..
کک ..ک …کون ھے،
بے اختیار بلال کے منہ سے وہمی خوف کی بدولت لرزاتی بلند و بانگ چیخ خارج ھوئی….اس چیخ کی بازگشت سے کچھ درخت ہلے ..کئی پرندوں کی اک ساتھ پھڑپھڑاہٹ گونجی .جس سے جنگل کا ماحول مزید بھیانک بن گیا
وہ سہم چکے تھے ابھی وه وہی کھڑے تھے کہ قریب ایک طرف گہرے درختوں کے جھنڈ میں سرسراہٹ کی آواز سنائی دی جونہی اسامہ نے ٹارچ جھنڈ کی طرف کی تو سامنے دیو ھیکل انسان کے مشابہے عجیب و غریب شکل کا لمبا تڑنگا جنگلی کھڑا دکھائی دیا. .جس کے جسم پر اک پھٹا پرانا سا لنگوٹا تھا جو صرف ناف سے گھٹنوں تک تھا سب سے حیرت کی بات اس کا قد دس سے بارہ فٹ لگ رہا تھا ..وہ انھیں خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا . یہ دیکھ کر تینوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک گئ … ان کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے اٹک کر رہ گئی ..بدحواسی کے عالم میں تینوں نے پیچے ہٹنا شروع کردیا .وہ وہی کھڑا گھور رہا تھا…
بھاگو…..یکدم اسامه چلایا …,جس طرف منہ تھا سرپٹ دوڑنا شروع کر دیا وہ نہیں جانتے تھے کس سمت دوڑ رھے ھیں. بس بے تحاشا اک دوسرے کے پیچے دوڑے ہی جا رھے تھے یکدم کسی چیز سے ٹکراتے منہ بل گرتے پڑے .اور بری طرح ہانکنے لگے….. رات کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں وحشت قطرہ قطرہ گھل کر ڈر کے سیاہی مائل مادے کو جنم دی رہی تھی ہاتھ سے ہاتھ سجائی نہ دے رھا تھا گویا پورے جنگل کو سیاہی کے غلاف نے ڈھانپ لیا تھا خوف ان کی نس نس میں سرایت کر چکا تھا ..
اچانک دائیں طرف سے ایک دل خراش چیخ ابھری.. مزید خوف سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو گے اور ان کا دل سینے کے پینجرے میں بری طرح پھڑ پھڑانے لگا آواز ایسی تھی جیسے کسی کو بے دردی سے گھسیٹا جا رہا ھو..سمت کا تعین کرتے جونہی دائیں طرف دیکھا تو کچھ فاصلے پر انھیں آگ کا الاؤ دکھائی دیا جس کے شعلے آسمان سے باتیں کر رھے تھے.. ایک طرف بڑی لکڑی کی بے ہنگم سی کرسی رکھی تھی جو کہ سیاہ رنگ کی تھی .اسے چاروں طرف سے جنگلی پھولوں سے سجایا ھوا تھا . اور اس کرسی کے بالکل سامنے ایک طویل القامت مجسمہ نصب تھا جو کہ نہایت خوفناک تھا .جس کی زبان کافی لمبی باہر کو نکلی ہوئی تھی .اس سے 10 سے 12 فٹ آگے وہ آگ کا الاؤ تھا جس نے اردگرد کے ماحول کو روشن کر رکھا تھا . .بے شمار جنگلی بری طرح الاؤ کے گرد چیخ و پکار کرتے رقص کر رھے تھے .وہ سب نیم عریاں تھے جن میں مرد و زن دونوں شامل تھے ..
وہ تینوں دوست حیرت سے بت بنے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سکتے کی حالت میں یہ منظر دیکھتے اس خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رھے تھے جسے شاخ سے جدا ھونے کا خوف ھو..سردی تو انھیں لگ ہی رھی تھی مگر اس وقت ان کا کانپنا خوف کی وجہ سے تھا اور اب یہ خوف ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ دل کی ڈھرکنیں تیز کرتا بڑھتا ھی جارھا تھا .
اعجاز کو اب اپنی ضد پر افسوس ہو رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کاش کہ میں بزرگوں کی کہی ہوئی باتیں سچ مان لیتا تو اب خود اور میرے دوست اس مصیبت میں نہ ہوتے …
اب پچھتاۓ کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
دفعتا ایک لمباجنگلی نوجوان جوکہ سر پر ہڈیوں کا تاج ہونے کی وجہ سے سردار لگ رہا تھا اس نے آتے ہی ہاتھ بلند کیا توسارے جنگلی یکایک خاموش ہوتے طویل القامت مجسمہ کی طرف منہ کر کے سجدے میں گر گۓ..تبھی انھیں مجسمہ کے قدموں میں سرخ رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک لڑکی دلہن بنی پڑی دکھائی دی …وہ جنگلی سردار مجسمہ کے سامنے ہاتھ جوڑے نجانے کس زبان میں کچھ بڑ بڑانے لگا ..وہ تینوں یہ منظر دیکھتے پسینہ میں شرابور تھے..وہ جوں جوں بڑ بڑاتا جار تھا توں توں اس کی آواز میں تیزی اور بلندی آتی جا رہی تھی ..
جیسے ہی نوجوان سردار نے ہاتھ لہرایا . ایک جنگلی نے بڑے سے کلہاڑے سے دلہن بنی لڑکی کا سر دھڑ سے الگ کردیا .. فورا گردن سےخون کا تیز پھوارا مجسمہ کی لمبی زبان کے ذریعے اس کے منہ میں جانے لگا .. اور لڑکی کا بندھا ہوا دھڑ پھڑپھڑانے لگا …اتنا بھیانک اور حیرت انگیز منظر دیکھ کر تینوں کے حلق سے دلخراش چیخ نکل گئی… نوجوان سردار اور جنگلی اس طرف دیکھنے لگے پھر سردار نے کچھ بڑبڑایا تو وہ جنگلی سمت کا تعین کرتے ان کی طرف دوڑنے لگے…
بھگ ……بھاگووو…بمشکل اسامہ کے حلق سے آواز نکلی…..
وہ جس طرف سے آۓ تھے سرپٹ دوڑنے لگے .وہ جنگلی بھی ان کے پیچھے پیچھے چنگاڑتے دوڑے آرھے تھے
وہ تینوں دوست جان کی بازی لگا کر دوڑ رہے تھے مگر لمحہ بہ لمحہ ان کے اور جنگی آدم خوروں کے درمیان فاصلہ کم سے کم تر ہوتا جارہا تھا ..سب سے پیچھے بلال تھا ایک جنگلی نے لپک کر بلال کو پکڑا اور ہوا میں اچھالا ..ایک سماعت شکن چیخ بلال کے حلق سے برآمد ہوئی جیسے ھی نیچے گرا کئی جنگلی آدم خور اس پر ٹوٹ پڑے ..اور بلال کی چیخ و پکار دم توڑتی معدوم ھو گئ ….
وہ دونوں دوست ایک دوسرے کے آگے پیچے سرعت سے دوڑ رھے تھے کافی دوڑنے کے بعد جب اسامہ نے مڑ کر دیکھا تو اس کے حواس باختہ رہ گۓ کیونکہ اعجاز اس کے ساتھ نیں تھا . یقینا وه بھی آدم خوروں کی خوراک بن چکا تھا .اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو رخساروں سے بہتے دامن میں جزب ہونے لگے ..ایک بار پھر اس نے رہی سہی ہمت یکجا کر کے دوڑنا شروع کردیا اس کی خوشی قسمتی کہ جلد ہی اسے روشنی دکھائی دینے لگی حتی کہ وه اس خوفناک جنگل سے باہر نکل آیا اور ایک چٹان پر بیٹھ کر تیز تیز سانس لینے لگا
اسے اپنے دوستوں کی موت کا بے حد افسوس ہو نے لگا اور وہ وہی بیھٹیے رونے لگا ..
دیکھا پیارے بچوں:: بڑوں کی بات نہ ماننے کا کیا انجام ہوا .
آپ بڑوں کی بات مانو گے نا؟

 

Readers Comments (0)




Weboy

Weboy