زینب اور عاصمہ درندگی مقدمات کی پارلیمانی شنوائی ،قاتلوں کو گرفتار کر کے سر عام پھانسی دی جائے،سینیٹ کمیٹی

Published on January 23, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 230)      No Comments

اسلام آباد(یوا ین پی )قصور اور مردان میں معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے معاملات کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ میں پارلیمانی سماعت ،قاتلوں کو گرفتار کر کے سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ ،مذمتی قرار داد منظور،سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں ایک خصوصی ذیلی کمیٹی تشکیل ،پورے ملک میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرے گی،معصوم بچیوں کے لئے فاتحہ خوانی۔پیر کو سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کااجلاس ہوا ، اجلاس میں قصورمیں زیادتی کے بعدقتل کی گئی ننھی زینب اور مردان میں ایسے ہی واقعہ میں قتل ہونے والی ننھی عاصمہ کے مقدمات کی پارلیمانی سماعت ہوئی جس میں اب تک کی صورتحال اور تفتیش کا جائزہ لیا گیا ،اجلاس میں زینب کے والد امین انصاری اور والدہ سمیت پنجاب اور کے پی کے اعلیٰ پولیس حکام پیش ہو ئے ۔اجلاس میں قصورمیں جاں بحق زینب اورمردان میں جاں بحق عاصمہ کیلیے دعا کی گئی۔کمیٹی اجلاس میں قصور اور مردان میں بچیوں کی ہلاکت کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی۔قرارداد کے متن کے مطابق بچوں کے اغوا و زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے، بچوں کے ساتھ زیادتی اور دیگر جرائم سے متعلق کمیشن بنایا جائے،بچوں سے متعلق جرائم روکنے کیلیے پولیس واٹس ایپ نمبر متعارف کروائے جائیں ۔اجلاس میں بلوچستان میں پولیو ورکرز اور سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت پر بھی فاتحہ خوانی بھی ہوئی۔اجلاس میں زینب کے والد محمد امین نے کہا کہ اس روز میرا بھتیجاعثمان بیٹی کے ساتھ سپارہ پڑھنے گیا تھا میرا بھتیجا سپارہ پڑھنے چلا گیا لیکن زینب سپارہ پڑھنے نہ پہنچی، میری بیٹی کے پاس اس روزپیسے بھی تھے، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بچی کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی ۔محمد امین کا کہنا تھا کہ جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ہم نے ریسکیو15پر کال کی تھی، پولیس والے آتے تھے کینو کھاتے اور چائے پیتے تھے، جب لاش ملی تھی اس وقت سراغ رساں کتوں سے ملزم کی شناخت ہو سکتی تھی، ہم نے اپنی فیملی کے سب سے پہلے ڈی این اے کرائے۔انہوں نے مزید کہا کہ علاقے کے لوگوں کے ڈی این اے لئے جا رہے ہیں ۔پولیس کی طرف سے بعض لوگوں کو تنگ کرنے کی شکایت بھی آرہی ہے،دو تین مشکوک افراد عمر،آصف اوررانجھاکوپولیس نے پکڑرکھاہے،پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار کئے گئے ملزمان کا زینب سے کوئی تعلق نہیں۔میں نے پولیس سے کہا ہے کہ ان سے مزید تحقیقات کریں،المیہ ہے کہ بارہ تیرہ روز ہو گئے مجرم نہیں ملا،ہم نے بچوں کو شعور دے رکھا تھا کہ کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی،ہمیں جلد سے جلد انصاف ملے ، یہی درخواست ہے۔انہوں نے کہا کہ جیسے ہی ملزم پکڑا جائے ایک ہفتے میں مقدمہ چلاکرسرعام پھانسی دی جائے،جو قانون بنایا جائے اسکا نام زینب شہید کے نام پر رکھا جائے۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ آپکی بیٹی تو نہیں لا سکتے لیکن آپ کے زخموں پر مرہم ضرور رکھیں گے۔زینب کی والدہ نے روتے ہوئے دہائی دی کہ پولیس کہتی ہے زینب کا قاتل سیریل کلر ہے، وہ سیریل کلر بنا بھی تو پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے ہے، جس نے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیا وہ درندے سے بھی زیادہ بڑھ کر ہے، مجھے لگتا ہے وہ غرق ہو گیا ہے، ملزم کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور اسے بس ایک بار ایک ماں کی عدالت میں لایا جائے۔انچارج انوسٹی گیشن ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش نے کمیٹی کو بتایا کہ جولائی 2017 سے اب تک عاصمہ، لائبہ، تہمینہ، نور فاطمہ، ایمان فاطمہ اور ثنا ء کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ 2015 سے اب تک ایسے گیارہ واقعات ہوئے ہیں، تمام بچیاں پانچ سے دس سال کی عمر کی ہیں، چھ بچیوں کا مجرم ایک ہی ہے۔ 692 ڈی این اے سیمپل لیے جن میں سے 215 کا رزلٹ ابھی تک نہیں آیا۔ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش نے کمیٹی کو بتایا کہ بچی کی لاش ایک پولیس کانسٹیبل صابر حسین نے ہی تلاش کی، سال 2015 سے اب تک ایسے 11 واقعات ہوئے ہیں، اکتوبر2017 سے اب تک 696 ڈی این اے لیے گئے، 692 لوگوں سے تحقیقات کیں، ہمیں 125 ڈی این ایز کے رزلٹ کا انتظار ہے۔انھوں نے کہا کہ زینب کا قاتل کل بھی پکڑا جا سکتا ہے اور کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے، ہم نے ایک ایسا ملزم بھی پکڑا جس نے ایک سال میں پچیس فون سمیں بدلیں، اس ملزم کا بھی ڈی این اے کروایا گیا ہے۔ڈی آئی جی مردان نے عاصمہ قتل کیس کے بارے میں کمیٹی کو بتایا کہ 13 جنوری کو بچی عاصمہ اغوا ہوئی، پوسٹ مارٹم کروایا گیا جس سے پتہ چلا کہ گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ ریپ، قتل اور انتقام کو مد نظر رکھ کر تحقیقات کی جا رہی ہیں، جیو فینسنگ بھی کی جارہی ہے اور تحقیقات کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔اجلاس میں زینب اور عاصمہ کے لیے دعا کرائی گئی اور واقعات کے خلاف قرارداد مذمت منظور کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بچوں کے ساتھ اغوا و زیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے، بچوں کے ساتھ ہونیوالے جرائم پر کمیشن قائم کیا جائے اور پولیس فوری مدد کے لیے ایک واٹس ایپ نمبر متعارف کروائے۔اجلاس میں سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں ایک خصوصی ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی گئی جو پورے ملک میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرے گی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کمیٹی چار ہفتوں کی اندر رپورٹ پیش کرے گی اور ایسے جرائم کے اسباب اور سدباب کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔نیٹر رحمان ملک نے کہا ہے کہ پوری قوم جاننا چاہتی ہے زینب کے قاتل کون ہیں؟تجویز دیں گے کہ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو پھانسی دی جائے۔اگر ہم ننھے بچوں کی آہوں کا جواب نہیں دے سکتے تو ہم ناکام ہیں ۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes