کیا پاکستان ایشین ٹائیگر نہیں بن سکتا؟۔

Published on August 24, 2018 by    ·(TOTAL VIEWS 454)      No Comments

مقصود انجم کمبوہ 
پاکستان اور جرمنی کے درمیان ترقیاتی تعاون کا آغاز غالباً 1961میں ہوا تھا اور اسے پاک جرمن تعلقات میں بڑا اہم مقام حاصل تھا پیشہ وارانہ تربیتی منصوبوں کا سلسلہ ترقیاتی تعاون کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جرمن حکومت نے گذشتہ عشروں میں مشترکہ ترقیاتی سرگرمیوں کے لئے 14اعشاریہ 5بلین مارک سے زیادہ رقم مختص تھی پالیسیوں اور منصوبوں پر سالانہ دو طرفہ بین الحکومتی مذاکرات میں غور خوض کیا جاتا ہے اور مذاکرات میں طے پانے والے سمجھوتوں کے مطابق منصوبوں پر عمل در آمد کیا جاتا ہے 1995-96ء کی مدت میں فنی تعاون کے لئے 31ملین مارک (تقریباً 757ملین روپے ) اور مالیاتی تعاون کی مدد میں 125ملین مارک ( تقریباً ۳ میلین روپے) فراہم کیے جانے کا وعدہ کیا گیا جرمن امداد اس مقصد کو مدِ نظر رکھ کر دی جاتی ہے کہ امداد حاصل کرنے والے دوست ممالک کو اپنی مدد آپ کرنے کے قابل بنایا جاسکے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے سازگار ماحول پید ا کرنا ، متعلقہ ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے جرمن حکومت سماجی بھلائی اور تحفظ ماحول کے ماڈل منصوبوں پر عمل درآمد کو بہت زیادہ اہمیت دیتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان میں بنیادی اقتصادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کے لئے بھی تعاون کر رہی ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ غازی بروتھا بجلی منصوبے کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والوں میں جرمنی بھی شامل ہے جرمنی کی حکومت برسوں سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ منصوبوں کے مقاصد کے تعین کے اور ان پر عمل در آمد کے تمام مراحل میں ان لوگوں کو شامل کیا جانا چاہئیے جنہیں ان منصوبوں سے فائدہ پہنچانا مقصود ہے مردان کا مربوط دیہی ترقیاتی منصوبہ اور بلوچستان کا دیہی امدادی پروگرام اس نقطہ نظر کی بہترین مثال ہیں گذشتہ برسوں میں مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر کام کیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان اور جرمنی کی حکومتوں کے درمیان ترجیحی شعبوں میں سرگرمیوں کا دائرہ بڑھتا رحاہے سماجی شعبہ کے پروگرام کے مطابق صحت ، تعلیم ، پینے کے پانی فراہمی اور صفائی ستھرائی کے اقدامات شامل ہیں علا وہ ازیں دیہی علاقوں میں بنیادی خدمات میں توسیع اور ان خدمات میں خواتین کی شمولیت کا تناسب بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی توانائی کے شعبہ میں بھی مقامی اور قابل تجدید ذرائع کے فروغ پر خصوصی توجہ دینا ہے ماحول اور قدرتی وسائل کا تحفظ اس پروگرام میں شجر کاری کے علاوہ جنگلات شہری اور صنعتی علاقوں میں ماحول کا تحفظ شامل ہے دیہی ترقی اور ذرائع آمدن بڑھانے کے پروگرام میں آبپاشی کے بہتر طریقے بروئے کار لانے کے علاوہ دیہی علاقوں میں لوگوں کو اپنی مدد آپ کرنے کے قابل بنانا شامل ہے ۔ پیشہ وارانہ اور غیر روائتی شعبوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو تربیتی سہولتوں کی فراہمی کو دو طرفہ تعاون میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ان تمام شعبوں میں جرمنی کے تعاون کا مقصد منصوبوں میں مدد دینا شامل ہے جن سے پائیدار ترقی کے مقاصد حاصل ہو سکیں جرمن ماہرین کی نگرانی میں منصوبے کے ایک مرحلے کی تکمیل کے بعد وہ منصوبہ مقامی ماہرین کی نگرانی میں دے دیا جاتا ہے پنجاب میں پتوکی میں مویشیوں کی افزائش کا منصوبہ اس نظریے کی بہترین مثال ہے مثلاً کا شتکاری کی تنظیم ، ادارہ کسان کو کئی برسوں سے تعاون حاصل ہے جس کے بعد اس ادارے نے ترقیاتی منصوبے کے بلا منافع بنیا د پر خدمات انجام دینے والی تنظیم کی شکل اختیار کرلی ا س ادارے کی مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدنی کسانوں کی فلاح و بہبو د اور بہتری کے کاموں پر خرچ کی جاتی ہے اس تنظیم کے ممبر ہیں ان خدمات اور کاموں میں مویشیوں کا علاج معالجہ اور صحت کے پروگرام کے علاوہ دودھ اور پرو سس کرنے اور ادارے کی پیداوار کو فروخت کے لئے جدید اور منافع بخش طریقوں پر عمل کرنا شامل ہے جرمن حکومت پاکستانی مصنوعات کو یورپ کے اندر تک متعارف کروانے کے لئے بھی کوشاں ہے یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے کوئی خاص د لچسپی نہیں لی حکومتی کمزوریوں اور ناقص منصوبہ بندی نے پاکستانی مصنوعات کو خسارے میں ڈبو رکھا ہے ایک وہ دور تھا جب پنجاب سمال انڈسٹریز قالین بافی اور دیگر مصنوعات کو فروغ دیا کرتی تھی اور یہ مصنوعات غیر ملکی منڈیوں میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوا کرتی تھیں گذشتہ چند برسوں سے پنجاب سمال انڈسٹریز کا رپوریشن کی سر گرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں میں ایک طویل عرصہ سے ن لیگ کی حکومت کو یہ کہتا رہا ہوں کہ اس کا رپوریشن اور ٹیوٹا کی سرگرمیوں کو انقلابی بنانے کی تر جیحی کوشش کریں افسوس کہ یہ دونوں اداروں کی ناقص کا ر کردگی کے باعث یہ ادارے زوال پذیر ہو رہے ہیں جرمن حکومت نے کو آپر یٹو اداروں کو اس قدر ترقی سے نوازا ہے کہ یہ ادارے اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں جس سے صنعت کاری ، کاشتکاری اور کئی ایک اہم منصوبے ترقی پر ہیں ان اداروں کی وجہ سے منڈی کی معشیت اور اقتصادی معجزے رونما ہو رہے ہیں جرمن معاشرے میں امدادِ باہمی کے اصول پر قائم ادارے بہت مقبول ہیں اور دیگر نوعیت کے اداروں اور کمپنیوں کے مقابلے میں امدادِ باہمی کے اداروں کی جڑیں بہت گہری ہیں تجارتی اور کاروباری زندگی میں امدادِ باہمی کے ادارے جمہوریت کا مظہر ہیں یہ ادارے ، کارپوریشنوں کی بجائے جن میں اکثریت زیادہ حصص رکھنے والے مالکان کو غلبہ حاصل ہوتا ہے شراکت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں کارپوریشنوں کے بر عکس ان اداروں میں ہر رکن کا صرف ایک ووٹ ہوتا ہے ہمیں چاہئیے کہ ہمارے ہاں امدادِ باہمی کے اداروں کو جدید بنانے کی پالیسی کو جامعہ اور ہمہ گیر بنائیں سمال انڈسٹریز کا رپوریشن جو ہر صوبے میں موجود ہے کو امدادِ باہمی کے اداروں میں ضم کردیا جائے تو کوآپریٹو کے مقاصد پورے کرنے کے لئے یہ کارپوریشنیں بہتر کردار ادا کرسکتی ہیں ان کے ذریعے بے روزگاری کو بہت حد تک کم کیاجاسکتا ہے قالین بافی ، کپڑے کی کھڈیوں اور ہنر کاری کے منصوبہ جات کے ذریعے دیہی علاقوں میں انقلاب بر پا کیا جا سکتا ہے بلا شبہ یہ کارپو ریشنیں ایک عرصہ تک انقلابی کام کرتی رہی ہیں ہم 71واں یومِ آزادی منا چکے ہیں لیکن افسوس کہ ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کو آگے بڑھایا جاتا ہم زوال کی طرف جارہے ہیں اس صورتحال سے ہر پاکستانی با خبر ہو چکا ہے جس ملک کے حکمران کرپٹ ہوں گے وہاں ادارے بھی کرپٹ ہوں گے آج اداروں کی صورتحال بڑی گھبیر ہو چکی ہے ان گنت مسائل و مشکلات نے ان اداروں کا کچو مر نکال کر رکھ دیا ہے جرمن حکومت نے کئی ایک ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں فروخت کر دئیے ہیں روس جیسے ممالک میں نجکاری کا سلسلہ جاری و ساری ہے نئی حکومت کی آمد آمد ہے بلا شبہ اس حکومت میں بلا کے ماہرین بھی ہیں جو اداروں کی صف بندی کرسکتے ہیں اور جرمن جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک سے کئی ایک فائدے حاصل کر سکتے ہیں اگر یہ ایٹم بموں اور مزائلوں کے مارے ممالک اب دنیا کی معشیت پر حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں تو کیا ہم اس قابل نہیں ہو سکتے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری مدد فرمائے اور کرپشن سے نجات دلائے آمین ثمہٰ آمین ۔ اگر جنوبی کوریا جیسا ملک ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے تو کیا ہم ایشین ٹائیگر نہیں بن سکتے ۔ 

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes